تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     06-10-2020

گل ودھ گئی اے

ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت کی صفوں کے اندر سراسیمگی‘ پریشانی اور افراتفری میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے تب سے اپوزیشن بے یقینی اور تردد کا شکار تھی۔ وہ ارادے باندھتی تھی اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ عہدو پیمان استوار کرتی تھی مگر پھر سوچ میں پڑ جاتی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ ایسا نہ ہو جائے۔ مگر اب اپوزیشن بے یقینی سے باہر نکل آئی ہے۔ 20 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف نے پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کر کے اپوزیشن کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونک دی ہے۔ مزید براں نئے اتحاد نے مولانا فضل الرحمن کو پاکستان جمہوری موومنٹ کا سربراہ مقرر کر کے حکومتی پریشانی کو نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ مولانا حق الیقین کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اُن کی آمد سے پی ڈی ایم کی بڑی واضح سمت طے ہو گئی ہے۔ مولانا تو روزِ اوّل سے اس حکومت کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتے تھے‘ اسی لیے انہوں نے گزشتہ برس اسلام آباد میں کئی روز تک دھرنا بھی دیا تھا۔ اُس وقت مولانا کا بیانیہ ایک فردِ واحد کا بیانیہ تھا مگر آج یہ پی ڈی ایم کا بیانیہ بن چکا ہے۔ 
میاں نواز شریف کے بارے میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جذباتی طور پر بغیر سوچے سمجھے قدم اٹھاتے ہیں تو یہ اُس کی بھول ہے۔ میاں صاحب نپی تُلی بات کرتے ہیں۔ نواز شریف نے طویل خاموشی اختیار کی۔ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ عمران خان مسلم لیگ (ن) کو بالخصوص اور باقی اپوزیشن کو بالعموم دیوار سے لگانے‘ اُن پر مقدمات بنوانے‘ انہیں پسِ دیوارِ زنداں بھیجنے اور کٹہرے میں کھڑا کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی بجائے اس میں مزید شدت پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ میاں صاحب کا خیال تھا کہ عمران خان کو لانے والے خان صاحب کی کارکردگی کا نوٹس لیں گے اور اپوزیشن کیلئے اس کا حقیقی کردار ادا کرنے کی کوئی راہ نکالیں گے مگر وہاں جب کسی ایسے نوٹس یا امکان کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو میاں صاحب نے تنگ آمد بجنگ آمد کا فیصلہ کر لیا۔ اس وقت تک میاں صاحب تین تقاریر کر چکے ہیں اور ہر تقریر کا متن اور الفاظ کا چنائو سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کی گورننس کا تعلق ہے تو سانحۂ ساہیوال سے لے کر موٹروے ٹریجڈی تک کا حساب کتاب لگا لیجئے۔ خان صاحب پنجاب سے بطورِ خاص ناراض لگتے ہیں۔ ''شہباز سپیڈ‘‘ کے مقابلے میں عثمان بزدار صاحب کو لے آئے ہیں جن کی حسنِ کارکردگی کی بنا پر کراچی کے بعد اب لاہور بھی کچرا کنڈی بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ کئی روز سے کچرا اٹھایا جا رہا ہے نہ اسے ٹھکانے لگایا جا رہا ہے۔ پنجاب میں سوائے تونسہ کے کہیں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ کئی بار سنا تھا کہ ''شاہ کام چوک‘‘ لاہور پر پل بنایا جائے گا اور یہاں کے شہریوں کو روزمرہ کی اذیت سے نجات دلائی جائے گی‘ مگر اس پر بھی کوئی کام نہیں ہوا۔ خارجہ امور کا حال کشمیر سے لے کر سعودی عرب سے تعلقات تک سب کو معلوم ہے۔
عمران خان کی پالیسی یہ ہے کہ ڈالر سو کے بجائے دو سو کا ہوتا ہے تو ہو جائے پروا نہیں‘ اشیائے صرف غریب کیا متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں تو ہو جائیں ‘انہیں فکر نہیں۔ وہ ہر چیز کا ملبہ میاں نواز شریف کی منی لانڈرنگ پر ڈال دیتے ہیں۔ مجھے پی ٹی آئی کے ایک ذہین و فطین نوجوان نے بتایا کہ انہوں نے خان صاحب سے کہا ہے کہ آپ صرف میاں نواز شریف فیملی کی کرپشن کو فوکس کر رہے ہیں نیچے رشوت اور کام چوری پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے اس کا بھی کچھ تدارک کیجئے۔ میاں نواز شریف کی تقریر کا کوئی مؤثر جواب اب تک نہیں دیا جاسکا۔ یہ جواب دینے کے بجائے خان صاحب نے اپنے ترجمانوں کو بلا کر انہیں جو بیانیہ دیا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔ کسی کو سکیورٹی رسک کہنا‘ کسی کو بھارتی ایجنٹ قرار دینا اور کسی کو غدار کہنا اب بند ہونا چاہئے۔ خان صاحب کے اس بیانیے کا بوجھ پی ٹی آئی کا کوئی منتخب شخص تو نہیں اٹھا سکا البتہ ان کے ایک معاون شہباز گل نے ایک بڑے ناروا لب و لہجے میں خان صاحب کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ 
قارئین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں اپنے کالموں میں بالعموم شخصیات کا نہیں نظریات و حالات کا تجزیہ کرتا ہوں‘ مگر کبھی کبھی ایسی باتوں کا نوٹس لینا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ جن ڈاکٹر شہباز گل کو انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی سے لے کر یونیورسٹی آف النائے اربانا شیمپین (شکاگو) تک میں جانتا تھا وہ تو ایسے ہرگز نہ تھے۔ وہ شہباز گل تحقیق اور ریسرچ کے بغیر بات نہ کرتے تھے اور کبھی تندوتیز بحث و مباحثے میں بھی تہذیب و شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ وہی شہباز گل ہیں جو پیا کی تھپکی کیلئے بغیر تحقیق کے کسی کو غدار اور کسی کو بھارتی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ جناب وزیراعظم نے اپنی انا پسندی کی تسکین کیلئے اُس میڈیا کو بھی اپنے ستمِ خاص کا نشانہ بنایا ہے جو میڈیا گزشتہ کئی دہائیوں سے خان صاحب کی نازبرداری اور پذیرائی کرتا چلا آ رہا ہے۔ گویا
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
میڈیا تو کسی حکومت کی اقتدار میں طوالت کا باعث ہوتا ہے کیونکہ وہ انسانی جذبات کے پریشر ککر میں سیفٹی والو کا کام کرتا ہے۔
ہم نے مختلف الجہات منظرنامہ اس لیے پیش کیا ہے کہ اس صورتحال میں پی ڈی ایم کی تحریک کے مقابلے کیلئے تحریک انصاف کو عوام کی طرف سے یا خواص کی طرف سے یا میڈیا کی طرف سے کہیں سے بھی کوئی مدد نہیں ملے گی۔ ہر کوئی حکومت کے ہاتھوں نالاں دکھائی دیتا ہے۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا کیا انجام ہو گا۔ جب جمہوری ملکوں میں اپوزیشن کی طرف سے ایسی تحریکیں چلتی ہیں تو بالعموم سمجھ دار حکومتیں انہیں مذاکرات کی میز پر لانے اور افہام وتفہیم سے مسائل حل کرنے پر آمادہ کر لیتی ہیں‘ تاہم جمہوری تحریکوں کی کامیابی کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ میں ملی جلی مثالیں ملتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوری تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی تھیں مگر پھر اُن پر بالعموم شب خون مارا جاتا رہا۔ جہاں تک موجودہ حکومتی قیادت کی ہٹ دھرمی اور انا پسندی کا تعلق ہے تو اس سے بظاہر کسی مفاہمت اور مذاکرات کی زیادہ امید دکھائی نہیں دیتی۔ جہاں تک مقتدرہ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُن کی پاکستان کی تاریخ و سیاست اور عالمی منظرنامے پر گہری نظر ہے۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اب مقتدرہ اتنی بڑی تحریک کے مقابلے میں عمران خان صاحب کی ناقص معاشی کارکردگی اور خراب گورننس کا مزید بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ وہ چاہیں گے کہ عمران خان صاحب کو سمجھا بجھا کر ڈائیلاگ کی میز پر لایا جائے اور اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کروائے جائیں۔ ایک بھرپور تحریک کے بعد اگر خان صاحب کا خیال ہو کہ اپوزیشن کو کوئی لالی پاپ دے کر تحریک سے دستبردار کروایا جا سکے گا تو اب اس کا زیادہ امکان نظر نہیں آرہا۔ خوش قسمتی یہ ہو گی کہ ملک کو مزید کسی آزمائش میں ڈالے بغیر مڈٹرم انتخاب کا اعلان کر دیا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں مقتدرہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر الیکشن کمیشن کے ذریعے نئے انتخابات کروا سکتی ہے۔ تاہم عمران خان صاحب مقتدرہ کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتے کیونکہ جس روز غیبی دستِ شفقت اُن کے سر سے اٹھا لیا گیا اُس روز وہ خود حیران رہ جائیں گے کہ اُن کا دم بھرنے والے کدھر گئے ہیں۔ ہم تو بھیرہ میں اپنے گرائیں ندیم افضل چن کی وزڈم اور ڈکشن کے مطابق یہی کہیں گے کہ 
گل ودھ گئی اے
بات بڑھنے کی حقیقت کا ہر سطح پر جتنی جلدی ادراک کر لیا جائے اتنا ہی ملک و قوم کیلئے بہتر ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved