شہباز گل اگلی ہی بال پر بیک فٹ پر چلے جائیں گے‘ اس کی امید نہ تھی۔ اپوزیشن کے خلاف کرپشن کارڈ کے بعد اب غداری کارڈکی حکمتِ عملی بروئے کار ہے ۔ نوازشریف اور مریم نواز اس کا خصوصی ہدف ہیں۔ شہباز گل لندن میں بھارتی ایجنٹوں سے حسین نواز کے رابطوں‘ وہیں ایک سفارت خانے میں نوازشریف کی کسی بھارتی پیغام رساں سے ملاقات کے ساتھ لاہور کے کھوکھر پیلس میں مریم نواز کی بھارتی شہری سے ملاقات کی ''خبر‘‘ لائے‘ جس پر عطا اللہ تارڑ نے مناظرے کا چیلنج دیتے ہوئے کہا‘ میں یہ مناظرہ ہار گیا تو اپنے گھر سے نہیں نکلوں گا(عملی سیاست سے دستبردار ہوجائوں گا) تم یہ مناظرہ ہار گئے تو ہمارے کارکن تمہارے گھر کا گھیرائو کریں گے۔ اگرچہ یہ ہماری پارٹی پالیسی نہیں لیکن ہم اپنے کارکنوں کو تمہاری اشتعال انگیزیوں پر آخرکب تک قابو میں رکھیں گے۔ اصل چیلنج سیف الملوک کھوکھر کی طرف سے تھا‘ ان کا کہنا تھا: کھوکھر پیلس میں کسی بھارتی شہری سے توکجا‘ کسی پاکستانی شہری سے بھی مریم نواز کی ملاقات نہیں ہوئی۔ یہاں بھارتی شہری سے مریم کی ملاقات کو ثابت کرو‘ ورنہ میں تمہیں عدالت میں گھسیٹوں گا۔ انہوں نے اس کے لیے شہباز گِل کو قانونی نوٹس بھجوانے کا اعلان بھی کردیا تھا۔ منظر بھوپالی کا ایک مصرع یاد آیا‘ ''پہلا وار تم کرلو‘ دوسرا ہمارا ہے‘‘۔
سیف الملوک کے اس چیلنج کو ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ شہباز گل کا وضاحتی ٹویٹ آگیا‘ ''مجھے یقین ہے‘ آپ کسی بھارت نواز بیانیے کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ لاہور میں کئی اور کھوکھر پیلس اور کھوکھر ہائوس بھی ہیں۔ آپ درمیان میں نہ آئیں۔ اس کی تردید خود مریم نواز کو کرنے دیں‘‘۔
لاہور کی نئی بستیوں میں سے بیشتر ارائیوں اور کھوکھروں کی ملکیتی زمینوں پر بسائی گئی ہیں‘ یہاں کھوکھربڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ لاہور کے مضافات میں بھی کھوکھر برادری بڑی تعداد میں آباد ہے۔ وہ ایک دوسرے کے سیاسی وانتخابی حریف بھی ہیں‘ لیکن سیاسی وصحافتی حلقے ایک ہی ''کھوکھر پیلس‘‘ کو جانتے ہیں‘ جوہر ٹائون میں یوسی پی (یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب) والے چوک سے ٹھوکر نیاز بیگ کی طرف آتے ہوئے ایوب چوک میں بائیں ہاتھ ۔مسلم لیگ(ن) اور نوازشریف کے دیرینہ وابستگان‘ محمد افضل کھوکھر اور سیف الملوک کھوکھر کا سیاسی وانتخابی ڈیرہ کھوکھر وں کی یہ فیملی ‘ مشرف دور میں خوف اور لالچ(کیرٹ اینڈ سٹک)کے تمام ترحربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود‘ نوازشریف اور مسلم لیگ کی وفادار رہی۔2017-18ء میں بھی ان کی استقامت میں کوئی فرق نہ آیا۔ جناب شہباز گل کے نئے موقف کے مطابق انہوں نے بھارتی شہری سے مریم کی ملاقات کے حوالے سے جس کھوکھر پیلس کی بات کی‘ وہ مسلم لیگی کھوکھر برادران والا کھوکھر پیلس نہیں تھا‘ بقول ان کے لاہورمیں کئی اور کھوکھر پیلس اور کھوکھر ہائوس بھی ہیں ‘ تو ان سے یہ سوال بے جا نہیں کہ ملاقات والا کھوکھر پیلس کون ساہے؟باقی رہی ان کی یہ خواہش کہ خود مریم نواز ان کے الزام کا جواب دیں‘ تو مسلم لیگیوں کا کہنا ہے کہ یہ تو شہباز گل کو اہمیت دینے والی بات ہوگی‘ خود کو شہباز گل کی سطح پر لانے یا شہباز کو اپنی سطح پر لانے کی بات۔
جمعرات کو ماڈل ٹائون لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ختم ہونے کے بعد جاوید ہاشمی سیڑھیاں اتررہے تھے کہ کیپٹن صفدر تیزی سے ان تک پہنچے اور کہا کہ مریم تھوڑی دیر بعد پریس کانفرنس کریں گی‘ ان کی خواہش ہے کہ آپ بھی ان کے ساتھ موجود ہوں۔جاوید ہاشمی4دسمبر2017ء کو مسلم لیگ(ن) میں (باضابطہ طور پر)واپس آگئے تھے۔ 28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تاحیات نااہلی (اور وزارتِ عظمیٰ سے معزولی) کے بعد مسلم لیگ(ن) اور اس کی قیادت کے لیے یہ آزمائشوں کا نیا دور تھا‘ صحرا کا نیا سفر اور جاوید ہاشمی نے دھوپ کے اس کڑے سفر میں ایک بار پھر نوازشریف کے شریکِ سفر ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ دونوں نے پرُجوش مصافحہ کے بعد‘ ایک دوسرے کو گلے لگالیا۔ یہ معانقہ بھی خاصا طویل تھا۔
پھر مریم آگے بڑھیں اور کہا‘Uncle,Welcome Back to home۔ہاشمی نے سرپر ہاتھ پھیرا اور پیار سے کندھا تھپتھپایا۔نیب عدالت میں میاں صاحب‘ مریم اور کیپٹن صفدر کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا‘ تو ہاشمی تقریباً ہرپیشی پر عدالت میں موجودہ ہوتے۔ دونوں باپ بیٹی اڈیالہ جیل تھے‘ توہاشمی وہاں بھی ملاقات کے لیے پہنچتے۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں‘ مریم نے ہاشمی سے کہا‘ انکل!آپ میرے لیے سورس آف انسپریشن ہیں۔ سید مشاہد حسین بھی موجود تھے‘ ان کا کہنا تھا ‘ ہاشمی صاحب! مریم نے بہت بڑی بات کہہ دی ہے۔ اسی سے ملتا جلتا واقعہ ایک بار پہلے بھی ہواتھا۔ یہ عمرہ کا سفر تھا۔ ہاشمی ملتان سے روانہ ہوئے ۔لاہور میں سٹاپ اوور کے دوران ‘ میاں صاحب اور ان کی فیملی نے بھی یہی پرواز پکڑنی تھی۔ جہاز میں آمنا سامنا ہوا تو مریم نے ہاشمی سے کہا‘ انکل! سیاست میں آپ میرے آئیڈیل ہیں۔
جمعرات کو ورکنگ کمیٹی کے اس اجلاس میں ہاشمی قدرے تاخیر سے پہنچے۔ سٹیج پر اہم قائدین کے ساتھ‘ ان کے لیے نشست کا اہتمام کردیا گیا‘بعض نے ڈیسک بجا کر خیر مقدم کیا۔ میاں صاحب نے لندن سے آن لائن خطاب کیا۔یہ ان دس دنوں میں ان کا تیسرا وائرل خطاب تھا( جس کے بعد پیمرا نے ''مفرور اور اشتہاری‘‘کی تقریر‘ نشر کرنے پر پابندی عائد کردی) مریم بھی اس اجلاس میں اپنی بات کہہ چکی تھیں۔ اس کے باوجود انہوں نے پریس کانفرنس کا فیصلہ کیا‘ ٹی وی چینلز اسے لائیو دکھا رہے تھے۔ صرف تین کرسیاں تھیں‘ درمیان میں مریم‘ دائیں ہاتھ ہاشمی اور بائیں ہاتھ پرویز رشید۔ مریم کو جدوجہد کے نئے سفر میں درپیش مقاماتِ آہ وفغاں کا اندازہ تھا۔ ان کا کہنا تھا‘ میں گرفتارہوئی‘ تو میرے بعد شاہد خاقان عباسی‘ ان کے بعد احسن اقبال‘ ان کے بعد رانا ثنا اللہ‘ ان کے بعد پرویز رشید‘ پھر مریم اورنگ زیب۔ مریم کچھ اور نام بھی لیتیں‘ لیکن ہاشمی نے مداخلت کی ‘ میرا نام کیوں نہیں؟ مریم نے ہنستے ہوئے کہا: میں نہیں چاہتی کہ اس عمر میں(اور صحت کی اس کیفیت کے ساتھ) آپ گرفتار ہوں۔
شامی صاحب کو دوستوں کے مل بیٹھنے کے ایسے مواقع اللہ دے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہاشمی ان کے ہاں ڈنر کرکے ملتان واپس جائیں ‘ لیکن ہاشمی کو واپسی کی جلدی تھی۔ اگلے دن جمعہ تھا‘ یہ ''سیاسی ارادت مندوں‘‘ کی ''پیرسائیں‘‘ سے ملاقات کا دن ہوتا ہے۔ ملتان شہر اور اپنے دیہی حلقے میں سیاسی وسماجی تقریبات میں شرکت اور خوشی و غمی کے مواقع پر موجودگی ہاشمی کے لیے فرضِ عین کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان دنوں ایک اور مصروفیت ‘ ان کی نئی کتاب کی تیاری ہے۔''ہاں میں باغی ہوں‘‘ ''صلیب کے سائے تلے‘‘ اور ''زندہ تاریخ‘‘ کے بعد یہ ان کی چوتھی کتاب ہوگی۔ یہ جولائی2010ء میں ان پر فالج کے حملے کے بعد سے اب تک کی کہانی ہے۔ گزشتہ تینوں کتابیں ہاشمی صاحب نے جیل میں ''بقلم خود‘‘ لکھیں۔ایک بار کوٹ لکھپت جیل کی ملاقات میں ہم نے وہ رجسٹر دیکھا‘ جس پر وہ روزانہ کی ڈائری لکھتے تھے‘ جو بعد میں ''زندہ تاریخ‘‘کے نام سے منظر عام پر آئی۔ فالج کے حملے میں ان کا داہنا بازو بھی متاثر ہوا۔اپنی چوتھی کتاب کے لیے انہوں نے سٹینو گرافر اور لیپ ٹاپ پر ٹائپسٹ کی خدمات حاصل کی ہیں۔ وہ بولتے جاتے ہیں سٹینو گرافر اسے لکھتا اور ٹائپسٹ ٹائپ کرتا جاتا ہے۔ رات کو وہ اس کا پرنٹ نکلوا کر ‘ بائیں ہاتھ سے ایڈیٹ کرلیتے ہیں۔ چار سو صفحات تیار ہوچکے ‘ تقریباً پچاس صفحات مزید ہوں گے۔