تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     06-10-2020

خاک میں کیا صورتیں

جاوید حسن علی کو میں 1961ء یعنی گورنمنٹ کالج کے فرسٹ ایئر سے جانتا تھا۔ اُس سال ہماری کلاس میں چند شرارتی لڑکے آئے جو پروفیسروں کو تنگ کر کے بڑے لطف اندوز ہوتے تھے۔ سوکس کے پروفیسر منیر احمد شیخ مرحوم ان کا خاص ہدف ہوتے تھے۔ ان تین چار لڑکوں میں سے ماسوائے جاوید کے باقی سب لاہور کے ٹاپ سول سرونٹس کے بیٹے تھے۔ جاوید کے والد آرمی کی ایجوکیشن کور میں افسر تھے اور انگریزی کے استاد بھی۔ یہ چاروں لڑکے اچھی انگریزی بولتے تھے اور خاصے سمارٹ تھے۔ ان کی جملہ بازی سے پناہ لینے کیلئے پروفیسر صاحب کو ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ عبدالحمید شیخ کی مدد لینا پڑی۔ پروفیسر عبدالحمید شیخ ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت تھے اور ان شریر لڑکوں کے والدین کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ وہ کلاس میں آئے اور ان لڑکوں کو علیحدہ کھڑا کر کے ان کی خوب کلاس لی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ جاوید کو اُس دن ڈانٹ ڈپٹ کے لئے نہیں بلایا گیا اور وہ خوش قسمتی سے بچ گیا۔سیکنڈ ایئر میں جاوید گورنمنٹ کالج لاہور سے غالباً راولپنڈی چلا گیا جہاں اس کے والد پوسٹڈ تھے‘ لیکن تھرڈایئر میں پھر واپس آ گیا۔ والد صاحب کی نگرانی کی بدولت اسے انگریزی زبان پر چھوٹی عمرمیں ہی عبور حاصل ہو گیا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں جاوید کی دلچسپی تعلیم سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں میں تھی۔ انگریزی مباحثوں کیلئے اس نے کالج کی ملک کے طول و عرض میں نمائندگی کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں اُن دنوں ارشاد اللہ خان‘ باسط حقانی‘ طارق علی‘ عارفہ سیدہ‘ امتیاز جاوید اور علی کاظم جیسے ٹاپ کے debaterتھے۔ عارفہ سیدہ جاوید کی بڑی ہمشیرہ ہیں ان کی تقریریں الفاظ کے برمحل استعمال‘ منطقی دلائل اور دوسرے مقرروں کو برجستہ جواب دینے کیلئے مشہور تھیں اور وہ آج بھی ملک کی صف اول کی دانشور ہیں۔ بی اے اور ایم اے میں جاوید ہمارے ساتھ نیو ہوسٹل میں تھا۔ مباحثوں کے سیزن میں وہ اکثر لاہور سے باہر ہوتا تھا۔ ہوسٹل میں ہوتے ہوئے اُسے کئی مرتبہ کلاسیں مِس کرتے دیکھا گیا وجہ یہ تھی کہ مباحثوں کیلئے ٹرین سے سفرکرنا ہوتا تھا۔ اگر رات گئے لاہور واپسی ہوتی تو اگلے روز کلاسیں کیسے اٹینڈ ہوسکتی تھیں البتہ ہمیں جاوید کے واپس آنے کا شدت سے انتظار رہتا۔جاوید نے واجبی سی تیاری کے باوجود سی ایس ایس کا امتحان 1969ء میں پہلی کوشش میں پاس کیا اور انکم ٹیکس سروس پائی۔ میں دوسری کوشش میں فارن سروس میں آ پایا تھا۔ ذہانت کے لحاظ سے جاوید مجھ سے کہیں آگے تھا یہ بات میں یقین سے کہہ رہا ہوں کیونکہ بہاول پور میں سی ایس ایس کی تیاری ہم دونوں بیک وقت کر رہے تھے۔ اس سے بھی دلچسپ قصّہ جاوید کی ایم اے انگلش لٹریچر کی تیاری کا ہے۔ کلاسیں مِس کرنے کی وجہ سے فائنل امتحان ایک مشکل مرحلہ تھا‘ جاوید نے تمام پیپرز کے اہم سوالات جمع کئے اور پھر ان کے جوابات کے پوائنٹ لکھے۔ پھر ان کے مطابق سب جواب اپنی ہی آواز میں ٹیپ پر ریکارڈ کئے۔ ا س سارے عمل میں ہفتہ دس دن لگے ہوں گے۔ وہ ہر شام اگلے روز کے پیپر سے متعلق ٹیپ سنتا اور امتحان دے دیتا۔ ایم اے کا امتحان جاوید نے اچھے نمبروں سے پاس کیا اور فوراً ہی اسے صادق پبلک سکول بہاولپور میں لیکچرار کا جاب مل گیا۔ ایک ماہ بعد میں بھی وہاں پہنچ گیا اور اکنامکس پڑھانے لگا۔اور اب آتے ہیں ایک دلچسپ خط کی جانب جو جاوید کے ایم اے انگلش کے کلاس فیلو ظفر عزیز چودھری نے دسمبر 2002ء میں لکھا تھا۔ خط انگریزی میں ہے اور آغاز کی چند سطور کچھ یوں ہیں:
پیارے جاوید۔ تمہارے فیڈرل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ لگنے کی خبر پڑھی تو تمہیں یہ خط لکھنے کا اشتیاق ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ تمہارے ہی نام کا ایک عینک والا لڑکا آج سے 37سال پہلے ہماری انگلش لٹریچر کی کلاس میں جی سی لاہور سے بی اے آنرز کرنے آیا تھا۔ وہ لڑکا آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کیونکہ وہ کچھ وکھری ٹائپ کا تھا۔ وہ خاصا سست الوجود لگتا تھا اور اسے پڑھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ وہ کبھی کبھار کلاس میں آتا تو پیچھے بیٹھ کراستادوں کے کارٹون بناتا رہتا اور جب کلاس ختم ہو جاتی تو وہ پروفیسروں کی خوب نقالی کرتا‘مگر ایک چیزجو اسے ہم سب پر سبقت دلاتی تھی وہ اس کا Spoken Englishپر مکمل عبور تھا۔ اگر کسی لڑکے یا لڑکی سے اس کی بحث ہو جاتی تو وہ فرفر انگریزی سے اُسے مات دے کر دم لیتا۔ میں چونکہ شریف سا سیدھا سادھا لڑکا تھا لہٰذا جاوید سے خائف رہتا تھا۔ وہ مباحثوں میں کپ اور ٹرافیاں جیت کر ہمیں حیران کرتا رہا۔ میں نے بعد میں سُنا کہ عملی زندگی میں بھی اُس نے بہت نام کمایا اور اُس کی موجودہ پوسٹنگ انہی کامیابیوں کی تکمیل ہے۔ میں آپ کی مزید کامیابیوں کامتمنی ہوں۔ آپ کا مخلص ظفر عزیز۔
یہ خط جب ظفر نے لکھا تھا تب وہ ڈپٹی کمشنر خوشاب تھے‘ اب ریٹائر ہو کر ایک مؤقر انگریزی اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ اس خط کو جاوید نے خوب انجوائے کیا۔ سالگرہ یا کسی اور فیملی فنکشن پر وہ اپنی بیٹی آمنہ سے کہتاکہ ظفر عزیز کا خط باآواز بلند پڑھو۔ جاوید میں اپنے آپ پر ہنسنے کا حوصلہ تھا۔1970ء کا عشرہ جاوید نے کراچی میں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں گزارا پھر ایف آئی اے اسلام آباد آ گیا۔ کراچی شہر اسے بہت پسند تھا خصوصاً وہاں کی سوشل لائف۔ وہ دوستیاں لگانے اور نبھانے والا پرخلوص شخص تھا۔ 1990 ء کے آس پاس پوسٹنگ دوبارہ NIPA کے ہیڈ کے طور پر ہوئی تو کراچی واپس جانے پر بہت خوش تھا لیکن اس مرتبہ جلد ہی کراچی سے جی بھر گیا۔ اسلام آباد واپسی پر وزارت ِدفاع کے سول ایوی ایشن ونگ میں پوسٹنگ ہوئی‘ کسی نے وجہ پوچھی تو جواب تھا کہ کراچی اب بدل گیا ہے وہاں لسانی نفرتیں راج کرنے لگیں ہیں۔2003ء میں کئی سال بعد پاکستان آیا تو جاوید فیڈرل سیکرٹری تھا۔ ملاقات ہوئی تو مجھے حیرانی ہوئی کہ گورنمنٹ کالج کا وہ دھان پان سا لڑکا کچھ زیادہ ہی صحت مند ہو گیا ہے۔ میں نے فربہی کے نقصانات پر لمبا لیکچر دیا۔ اُس نے ساری بات غور سے سنی اور صرف دو لفظ بولے: Who Cares یعنی کسے پروا ہے۔ لا ابالی پن اور بے پروائی اس کی شخصیت کا حصہ تھی۔ سالوں پہلے ہارٹ بائی پاس ہوا تو جاوید کو اپنا محبوب مشغلہ یعنی سگریٹ نوشی چھوڑنا پڑی۔ پچھلے چند سالوں سے انجائنا کی تکلیف تھی لیکن گولف کھیلنا نہیں چھوڑا ‘وہ صبح سویرے بیگم کے ساتھ گولف کیلئے جاتا ‘زیادہ چلنے سے سینے میں درد اٹھتا تو لال رنگ کی گولی زبان کے نیچے رکھ لیتا‘ مگر گیم جاری رہتی۔
جاوید ایک روشن خیال دانشور تھا۔ پچھلے سالوں میں تصوف سے خاصا شغف تھا۔ ابن عربی کا مطالعہ خوب کیا۔ ایک مؤقر انگریزی جریدے میں ریٹائرمنٹ کے بعد کالم لکھے اور پھر ایک دم کالم بند ہو گئے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ اخبار کو اپنے کالم میں تبدیلیاں کرنے کا اختیار میں قعطاً نہیں دے سکتا۔ وہ جب ایک بات پر سٹینڈ لے لیتا تو ا سے بدلنا مشکل ہوتا تھا۔جاوید کو اپنی اکلوتی اولاد آمنہ سے بے پناہ محبت تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس کا لاہور آباد ہونے کا پکا ارادہ تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اسلام آباد بابوؤں کا شہر ہے‘ یہاں کے لوگ گریڈ زدہ ہیں‘ مگر پھر لاہور جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور وجہ بیٹی اور نواسوں سے محبت تھی۔ جب کوئی اسے لنچ کی دعوت دیتا تو جاوید معذرت کر لیتا کہ اسے نواسوں کو سکول سے واپس لانا ہوتا تھا۔دو ماہ پہلے جاوید نے مجھے محمد اسد کا قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ تحفتاً دیا اور لکھا کہ قرآن کی روشنی سے استفادہ کرو میرے دوست۔ قرآن جمود اور دوسروں پر آرا مسلط کرنے کے خلاف ہے۔
جاوید کی وفات کورونا کے مہلک وائرس سے ہوئی‘ وہ ایک نجی ہسپتال کسی اور ٹیسٹ کیلئے گیا اور موذی وائرس ساتھ لے آیا۔ کورونا کے باوجود جنازے میں کافی لوگ تھے۔ جاوید ہر دل عزیز تھا‘ محفلوں کی جان تھا‘ گورننس کا گرو تھا‘ تصوف کے سمندر کا پیراک تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوستوں کا مخلص دوست تھا۔ اللہ اس کے درجات بلند کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved