میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ 8برس مسلسل لکھنے کے بعد اب بطور کالم نگار میری زندگی میں ایک بہت بڑا موڑ آنے والا ہے۔ گو کہ مستقبل کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ پہلے میں آپ کو میڈیکل سائنس کی حیرت ناک دنیا میں لے جانا چاہتا ہوں۔ آج آپ کو بخوبی علم ہو جائے گا کہ میں ماڈرن میڈیسن (ایلو پیتھی) سے اتنی محبت کیوں کرتا ہوں۔
آپ نے البرٹ آئن سٹائن کی ایک تصویر دیکھی ہو گی، جس میں اس نے اپنی زبان باہر نکال رکھی ہے۔ دراصل آئن سٹائن نے یہ تصویر خصوصی طور پر اپنے سرجن رُڈولف نسن (Rudolf Nissen) کے لیے شکریے کے طور پر بنوائی تھی۔ آئن سٹائن کی آنتوں میں ورم تھا۔ خون کی نالی‘ جسے آیوٹا کہتے ہیں‘ پھیلی ہوئی تھی۔ رُڈولف نے اس کی مرمت کر دی۔ آئن سٹائن نے شکریے کے لیے یہ تصویر اتروائی، اس پر اپنے دستخط کیے اور رُڈولف نسن کو بھجوا دی۔ اگلے روز یہ تصویر سارے اخبارات میں شائع ہوئی اور مشہور ہو گئی۔
رُڈولف نسن ہی وہ شخص تھا جس نے 1936ء میں سرجری کی دنیا میں ایک نیا اضافہ کیا۔ اس سرجری کو نسن فنڈوپلائی کیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں میں معدہ اپنی جگہ سے اوپر جا کر خوراک کی نالی میں داخل ہو جاتا ہے۔ معدے سے خوراک واپس خوراک کی نالی میں آتی جاتی رہتی ہے۔ مریض سیدھا بیٹھے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اگر وہ خوراک نگلنے کے لیے پانی پیتا ہے تو یہ پانی اور زیادہ ریفلیکس کا باعث بنتا ہے۔ ڈاکٹر ایسے مریض کو کہتے ہیں کہ کھانے کے ساتھ پانی نہ پیا کرو اور بہت کم کھائو۔ مریض آسانی سے اور مقررہ وقت پر سو نہیں سکتا۔ رُڈولف نسن نے اس کا ایک انوکھا علاج تجویز کیا۔ اس نے معدے کے اوپر والے حصے کو خوراک کی نالی کے گرد لپیٹ کر اس پر ٹانکے لگا دیے۔ یہ خدا کی طرف سے انسان کو دی گئی ذہانت کا ایک انوکھا استعمال تھا۔ یہ انسان کے ہاتھوں جسم کی اناٹومی میں ایک مصنوعی تبدیلی تھی۔
میں نے اس تکلیف کو پہلی بار 2007ء میں محسوس کیا۔میں ایک انتہائی محنتی طالبِ علم تھا۔مشقت کا یہ عالم تھا کہ پنجاب گروپ آف کالجز سے بی کام کے دوران، پہلے دس ماہ میں مَیں نے اٹھارہ سپارے بھی حفظ کر لیے۔ دوسری طرف میرے گریڈز بھی بہت اچھے تھے۔ پھر میں نے سی اے میں داخلہ لیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، صبح دوسرے ماڈیول (سمیسٹر) کا ایک پیپر تھا اور میں تیاری مکمل کر کے سو چکا تھا۔ اچانک میری آنکھ کھلی۔ سینے اور گلے میں شدید جلن۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد یہ ایک معمول بن گیا۔ کھانا کھانے کے بعد ایسا محسوس ہوتا، جیسے آپ کی اپنے ہی جسم کے ساتھ ایک جنگ شروع ہو گئی ہے۔ ڈکار کے ساتھ ہمیشہ بہت سی خوراک، پانی اور معدے کا تیزاب اوپر آتا۔ اگر آپ اسے گلے میں روک نہ لیں تو یہ منہ سے نکل کر لباس پہ گر جاتا۔ پاکستان میں اس بیماری کو سمجھنے والے ماہرین کم ہیں کہ یہ زیادہ تر یورپ میں پائی جاتی ہے۔ باقی جو نیم حکیم ہیں، وہ تو خیر مردے پر بھی ملٹھی اور اجوائن چھڑک کر اسے زندہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
وقت ضائع ہونا ایک معمول بن گیا۔ سی اے کا طالبعلم کہاں وقت ضائع کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ بیمار ہونے سے قبل میں تو ایک منٹ ضائع ہونے نہیں دیتا تھا۔ پچھلے تیرہ برسوں میں مَیں نے بے شمار راتیں سیدھے بیٹھ کر گزاری ہیں کہ معدے اور خوراک کی نالی میں جاری جنگ ختم ہو تو سونے کی کوشش کی جائے۔ 2019ء کے اختتام پر مایہ ناز پاکستانی سرجن پروفیسر ڈاکٹر عامر نثار صاحب پاکستان تشریف لائے اور میری سرجری کی۔ انہوں نے میرے پیٹ میں چار سوراخ کیے۔ ان میں سے کیمرے اور اوزار اندر ڈالے۔ انہوں نے اوزار کی مدد سے میرے جگر کو تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور پیٹ سے چھاتی میں داخل ہو گئے۔ چھاتی میں آگے دل ہوتا ہے، پیچھے ایاٹا ہوتی ہے، وہ بڑی شریان جو دل سے خون جسم کو سپلائی کرتی ہے۔ ذرا سا کٹ لگا اور کھیل ختم۔ دونوں طرف پھیپھڑے ہوتے ہیں۔ سرجن صاحب نے ان چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا۔ پھر خوراک کی نالی کو کھینچ کر نیچے لے آئے۔ انہوں نے معدے کے اوپر والے حصے کو خوراک کی نالی کے نچلے حصے کے گرد لپیٹ کر اس پر ٹانکے لگا دیے۔اس مصنوعی ڈھکن کو تخلیق کرنے میں بے شمار ٹیکنیکل چیزیں ہیں، جو عام لوگ سمجھ نہیں سکتے۔ یہ بہت پیچیدہ آپریشن ہے۔ سرجن جگر کو اوپر اٹھا رہا ہے، ایک طرف دل ہے، دوسرے طرف پھیپھڑے ہیں، تیسری طرف دل کی بڑی شریان ہے۔ اس کے ہاتھ کی ایک لغزش کھیل ختم کر سکتی ہے یا مریض کو ساری زندگی کی مصیبت سے دوچار کر سکتی ہے۔ پروفیسر عامر نثار صاحب نے اپنا غیر معمولی دماغ استعمال کرتے ہوئے نسن فنڈوپلائی کیشن میں کچھ بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ نتائج چھپنے کے بعد اس تکنیک کو جو نام دیا جائے گا، وہ ہوگا ''عامر فنڈو پلائیکیشن‘‘۔ اس میں معدے کے اوپر والے حصے کو 360ڈگری کی بجائے 380ڈگری تک لپیٹا جائے گا۔ پروفیسر صاحب نے یہ نوٹ کیا کہ سرجری کے پندرہ بیس سال بعد کچھ مریضوں میں علامات واپس آ رہی تھیں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اس سرجری کے فوائد تو تاحیات ہونے چاہئیں۔ کیا بیس سال بعد مریض دوبارہ سرجری کروائے؟ اس لیے انہوں نے اس میں کئی تبدیلیاں کیں۔ اس آپریشن میں بہت ساری ٹیکنیکس اور بہت سارے مراحل عامر نثار صاحب سے منسوب ہو چکے ہیں۔ پچھلے چھبیس سال میں وہ اس کے تین‘ چار ہزار آپریشن کر چکے ہیں۔
پروفیسر عامر کا کہنا ہے کہ گو میں 150 سے زیادہ قسم کی سرجریز کرتا ہوں‘ ایسے ایسے آپریشن بھی ہیں جو دس بارہ گھنٹے تک جاری رہتے ہیں۔ عامر فنڈوپلائی کیشن ایک گھنٹے اور پندرہ منٹ میں ختم ہو جاتی ہے لیکن یہ دیگر تمام آپریشنز سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس لیے کہ ایک آدمی کو اگرمعدے یا جگر کا کینسر ہے تو وہ سرجن سے صرف زندگی چاہتا ہے۔ زندگی ملنے کے بدلے وہ تمام پیچیدگیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ نسن فنڈوپلائی کیشن یا مستقبل کی عامر فنڈوپلائی کیشن کے مریض کو زندگی اور موت کے لالے تو پڑے نہیں ہوتے۔ اسے تو علامتوں کا خاتمہ اور اچھے رزلٹس چاہئیں۔ سرجن کے ہاتھ کی ایک غلط حرکت، مرض کی علامتوں کو ختم کرنے کے بجائے دوگنا کر سکتی ہے۔ اگرچہ میرا آپریشن ہوا تو لاہور میں تھا؛ تاہم اس میں عالمی سٹینڈرز پورے کیے گئے۔ میں روبہ صحت ہوتا چلا گیا؛ حتیٰ کہ ویسا ہی ہو گیا، جیسا تیرہ برس پہلے ہوا کرتا تھا۔ اب میں ایک بار پھر مشقت کرنے کے قابل ہوں۔
اب میں حیرت سے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ یہ ہو کیسے گیا۔ کبھی میں قرآن مجید کھول کر دیکھتا ہوں کہ وہ کتنا یاد ہے۔ مجھے نہ صرف یہ کہ اٹھارہ سپارے دہرانے ہیں بلکہ ان شاء اللہ باقی 12بھی یاد کرنا ہیں۔ ابھی تو میری کوئی ایسی عمر نہیں ہوئی کہ میں حفظ نہ کر سکوں۔ پچھلے تیرہ برس تو میں نے عبادت کی ہی نہیں۔ یہ مشقت کا وقت ہے۔ جب لکھنا ہی ہے تو کیوں نہ کتابوں کے ڈھیر پڑھ ڈالے جائیں۔ کیوں نہ کہ کئی کئی گھنٹے مشقت کر کے کالم لکھے جائیں۔ اب یہ وڈیو کا دور ہے۔ وڈیو بنانا کون سی راکٹ سائنس ہے۔ ایسے کون سے سرخاب کے پر درکار ہیں، جو میرے پاس موجود نہیں۔
ایک کوالیفائیڈ سرجن میرے جگر، دل اور پھیپھڑوں کے درمیان اوزار لے جا کر میری سرجری کر سکتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یہ بھی بتا نہیں سکتے کہ جگر کام کیسے کرتا ہے۔ بس آپ دعوے سنتے رہیں اور سر دھنتے رہیں۔