تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     07-10-2020

بنگلہ دیش نے کیا کیا جو ہم نہ کر سکے

بنگلہ دیش اور ہم میں ایک فرق تو صاف واضح ہے۔ انہوں نے اپنی آزادی لڑ کے حاصل کی۔ لڑے ہم سے اس لئے ہمیں وہ بات اچھی نہیں لگتی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُن کی خواہشِ آزادی کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور وہاں کے عوام کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے مزاحمت صرف بیان بازی سے نہ کی بلکہ بندوق بھی اُٹھا لی۔ 
یہ درست ہے کہ ہندوستانی فوج اُن کی مدد کو آئی لیکن یہ مداخلت تب ہوئی جب مکتی باہنی بن چکی تھی اور وہ پورے زور سے مزاحمت کے راستے پہ چل نکلی تھی۔ ہمارے لئے یہ تلخ حقائق ہیں اور کھلے دل سے ہم ان کو مانتے بھی نہیں‘ لیکن ہوا ایسا ہی تھا۔ جنگ و جدل سے بنگلہ دیش نے اپنی آزادی حاصل کی۔ ہماری آزادی میں جنگ و جدل کا کوئی حصہ نہ تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان سے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور انتقالِ اقتدار پُرامن طریقے سے ہوا۔ تقسیمِ ہند کے تمام مراحل قانونی و آئینی طریقوں سے ہوئے۔ قانون سازی برطانوی پارلیمنٹ میں ہوئی جس کی وجہ سے ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور دو آزاد ممالک، پاکستان اور بھارت معرضِ وجود میں آئے۔ 
پنجاب میں جو خونریزی ہوئی وہ تقسیمِ ہند کا نتیجہ تھا۔ اس خونریزی کی وجہ سے آزادی نہ ملی۔ آزادی کا فیصلہ تو انگریزوں نے کر دیا تھا‘ لیکن پنجاب کا بٹوارہ اس طریقے سے ہوا کہ ایک تو وسیع پیمانے پہ آبادیوں کا تبادلہ ہوا... ہندو اور سکھ یہاں سے گئے اور مسلمان وہاں سے آئے... اور دوسرا یہ کہ وسیع پیمانے پہ نسلی بنیادوں پہ بَلوے چھڑ گئے جن میں ہزاروں نہیں لاکھوں جانیں قتل و غارت گری کا شکار ہوئیں۔ بالفاظِ دیگر خون کی وجہ سے آزادی حاصل نہ ہوئی بلکہ آزادی کے طریقہ کار کی وجہ سے خون کے دریا بہے۔
لیکن بنگلہ دیش نے ایک اور کمال بھی کیا۔ گو اُن کی آزادی میں بندوق کا عمل دخل تھا، آزادی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے بندوق کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا۔ بانیِ بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن کا قتل فوجی افسروں کے ہاتھوں ہوا لیکن بہت سے تغیرات کے بعد بنگلہ دیشی جمہوریت اور سویلین حکومتیں اتنی مضبوط ہوئیں کہ جو افسران اُس قتل میں ملوث تھے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا اور اُن سب کو پھانسی ہوئی۔ دو فوجی سربراہ بنگلہ دیش میں برسرِ اقتدار رہے، جنرل ضیاء الرحمن اورجنرل ارشاد۔ لیکن اب دیکھا جائے تو سویلین بالادستی مضبوط بنیادوں پہ قائم ہو چکی ہے۔ بندوق جمہوریت کے تابع ہے۔ بنگلہ دیش میں اب وہ بحث نہیں ہوتی جو ہمارے ہاں چھڑی رہتی ہے کہ ریاست کے بیچ میں کس کی ریاست ہے اور جمہوریت میں مداخلت کہاں سے آتی ہے۔ اُتار چڑھاؤ بنگلہ دیشی سیاست میں بہت رہا ہے لیکن کون بالادست ہے والی بحث ہمیشہ کیلئے دفن ہوچکی ہے۔ 
ایک اور چیز جو بنگلہ دیش میں ہوئی، وہ یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کی سیاست کا زور ٹوٹ گیا۔ یہ کارنامہ موجودہ حکمران جماعت عوامی لیگ اور وزیراعظم حسینہ واجد کا ہے۔ جتنے ہم مسلمان ہیں اتنے ہی بنگلہ دیشی مسلمان ہیں لیکن مذہب کا عمل دخل اپنی سیاست سے انہوں نے نکال دیا ہے۔ ایک تو اپنے آئین کو خالصتاً سیکولر آئین بنادیا ہے‘ دوسرا یہ کہ جن مذہبی عناصر پہ قوم سے غداری کا الزام تھا انہیں کڑی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لحاظ سے حسینہ واجد کی حکومت نے لیت و لعل سے کام نہیں لیا۔ جن مذہبی عناصر پہ ایسے الزامات تھے انہیں عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا اور نہ صرف سخت سزاؤں کا اعلان ہوا بلکہ اُن پہ فوری عملدرآمد بھی ہوا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ڈھاکہ میں ہوا‘ یعنی تحریک پاکستان کی روداد لکھی جائے تو ابتدا اُس کی اُس سرزمین سے ہوتی ہے جس نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ ہم سے الگ ہو جائیں۔ یہ ہمارا کارنامہ ہے کہ ہم خود تو سیاسی طور پہ انتہا پسند یا ریڈیکل (radical) نہ ہوسکے لیکن ریڈیکلزم (radicalism) کا درس ہم نے اپنے مشرقی پاکستان کے بہن بھائیوں کودے دیا۔ ہم خود تو رجعت پسند رہے اور اب بھی متعدد اعتبار سے رجعت پسند ہیں لیکن مشرقی پاکستان کو ایک مختلف سمت میں دھکیل دیا۔ بنگلہ دیش والے سیاسی طورپہ ہم سے آگے نکل گئے۔
معیشت کی تو بات ہی نہ کریں، اُس کا تفصیلی ذکر چھڑے تو ہمارے لئے باعثِ شرمندگی بنتا ہے۔ ہر لحاظ سے وہ ہم سے پیچھے تھے، آج ہماری معیشت پیچھے بنگلہ دیش کی ہم سے آگے ہے۔ اُن کی برآمدات ہم سے زیادہ۔ کپاس اُگاتے نہیں لیکن کپاس کی مصنوعات میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ فارن ایکسچینج ذخائر اُن کے ہم سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کی کئی ٹیکسٹائل ملیں بنگلہ دیش منتقل ہوچکی ہیں کیونکہ وہاں کی بجلی ہم سے سستی اور اُس کی سپلائی بہتر ہے۔ اورتو اور، دو پاکستانی روپوں سے ایک بنگلہ دیشی ٹکا ملتاہے یعنی جو کرنسی ہماری کرنسی سے کہیں کمزور تھی آج اُس میں جان اور طاقت زیادہ ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ ہمارا منفرد کام ہے کہ علاقے کی ہر کرنسی سے ہم نے روپے کو کمزور کردیا ہے۔ افغانستان کی کرنسی ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔ آج سے تیس سال پہلے بنکاک جانا ہوا تو ایک روپے کے دو بھات ملتے تھے۔ آج تقریباً اڑھائی یا تین روپے سے ایک بھات ہاتھ آتا ہے۔
بنگلہ دیش کی آزادی میں ہندوستان کا بڑا ہاتھ تھا‘ لیکن کوئی یہ سمجھے کہ بنگلہ دیش ہندوستان کے نیچے لگا ہوا ہے تو ایسے شخص کو حالات کا یکسر اندازہ نہیں۔ بنگلہ دیش کے تعلقات ہندوستان سے بہت اچھے ہیں لیکن بنگلہ دیشی اپنی آزادی پہ کوئی آنچ نہیں آنے دیتے۔ حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک میں کچھ کشیدگی پیدا ہوئی تو بہت عرصے تک ہندوستانی ہائی کمشنر نے وزیراعظم حسینہ واجد سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن ہائی کمشنر کو وقت نہ دیا گیا۔ وہاں ہرگز یہ کیفیت نہیں کہ ہندوستانی سفیر آرڈر دئیے پھرتا ہے۔ 
اب ایک اور چیز بھی ہوگئی ہے، بنگلہ دیش کے شروع کے سالوں میں وحدتِ پاکستان کی یاد بنگلہ دیشی ذہنوں میں تازہ تھی لیکن جوں جوں اُس جنریشن نے اپنا وقت پورا کیا اور نئی جنریشن سامنے آئی پاکستان کی یاد ویسے نہیں رہی۔ پاکستان کی یاد ہے تو بنگلہ دیش کی آزادی کے حوالے سے لیکن وہ جذباتی رشتہ جو ایک زمانے تک رہا تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود ہماری سوچ میں اتنی وسعت ہونی چاہیے کہ بنگلہ دیش سے ہم قریبی تعلقات رکھیں۔ ہندوستان کو زک پہنچانے کیلئے نہیں بلکہ اپنے ماضی کی خاطر۔ ہم ایک قالب نہ ہو سکے لیکن کافی عرصے تک ایک جان تھے۔ کوتاہیاں ہوئیں لیکن جہاں اُن کوتاہیوں کا اثر مشرقی پاکستان کے باسیوں پر پڑا کچھ اثر ہم پہ بھی ہوا۔ 
سب سے بڑی کوتاہی یہ تھی کہ ایک آمرانہ سوچ پاکستان میں پیدا ہوئی اور اُس سوچ کو پورے ملک پہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ اُس سوچ کا نقصان جہاں وحدتِ پاکستان پہ ہوا وہاں اس کے اور نقصانات بھی ظاہر ہوئے۔ بنگلہ دیشیوں نے اپنا الگ راستہ چُنا اور جدا ہو گئے۔ ہم پہ اثر یہ پڑا کہ ذہنی اور سیاسی اعتبار سے ہم پیچھے پھسلتے گئے۔ مسئلہ یکساں تھا، یعنی آمرانہ روش اور مذہب کے نام پہ ایک خاص قسم کا رویہ لیکن چونکہ علاقے مختلف تھے اور بیچ میں ہزار میل کا فاصلہ تو نتائج مختلف نکلے۔ بنگلہ دیش نے اپنا بہت کچھ سنوار لیا، ہم سنوارنے کی جستجو میں اب تک لگے ہوئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved