میاں صاحب کی ایک تقریر سے ملک میں کہرام مچا ہوا نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں: ان کی باتیں بھارتی حکمت عملی کو تقویت دے رہی ہیں۔ دیگر سیاسی مخالفین یہ الزام دہراتے ہیں کہ نواز شریف ریاستی اداروں پر چڑھائی کرکے ملک کو کمزور کر رہے ہیں۔ حکومت کے کارندوں نے تو شور برپا کر رکھا ہے کہ ''بھگوڑے‘‘ کو واپس عدالتوں میں گھسیٹیں‘ سزا یافتہ ہے دوبارہ جیل میں ڈالیں‘ دیکھو وہ تو علاج کیلئے ملک سے باہر گئے تھے‘ وہاں بیٹھ کر سیاست کر رہے ہیں۔ روکو‘ بھاگو‘ پکڑو‘ دیر کیوں کر رہے ہیں؟ کپتان نے اس مرتبہ پھرتیاں بھی زیادہ دکھائی ہیں اور حملوں کا آغاز بھی خود کیا ہے‘ اور ساتھ ہی اپنے جماعتی رہنمائوں کو تاکید کر رہے ہیں کہ نون لیگ کی کرپشن کی داستانیں دوبارہ عوام کو سنائیں‘ اور ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات لائے جائیں۔ حزبِ اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے اور تحریک کے آغاز کی منصوبہ بندی نے انصاف والوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ نعرے بھی وہی پُرانے لگا رہے ہیں کہ حزبِ اختلاف کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی‘ لوگ سڑکوں پر نہیں نکلیں گے۔ حکومت کے اتحادی مبصرین دور کی کوڑی لانے میں کبھی کوتاہی یا تاخیر نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک کی دھمکی اس لئے ہے کہ وہ دبائو ڈال کر ''احتساب‘‘ سے بچے رہیں۔ خان صاحب دو برسوں سے وہی ایک فقرہ دہرائے چلے جا رہے ہیں ''میں انہیں این آر او نہیں دوں گا‘‘۔ عوام کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ حزبِ اختلاف کا اکٹھ اور بنتا ہوا اتحاد صرف دو بڑے سیاسی خاندانوں کے وڈیروں کو احتساب کی چکی سے نکالنے کا حربہ ہے۔
ہمارا تو یہ مطالبہ‘ بلکہ تقاضا ہے کہ سب کو احتساب کی چکی میں پیسیں‘ رگڑیں‘ اتنا کہ پھر دوبارہ ریاستی طاقت کے سہارے ملکی دولت نہ لوٹ سکیں‘ مگر احتساب کا عمل آگے چل نہیں سکتا جب اپنے پہلو میں لوٹ کھسوٹ میں ملوث بیٹھے ہوں اور نوکر شاہی کو قانون بنا کر احتساب کی گرفت سے آزاد کر دیا جائے۔ بڑے بڑے صنعت کار تو بے چارے ویسے ہی معصوم ہیں‘ ان کو کیا چھیڑنا کہ وہ ملک کی معیشت کا پہیہ چلاتے ہیں۔ گجراتی بھائی ہوں یا مختلف علاقوں کے سردار‘ نواب‘ ملک‘ خانوں کے خان اور پیر مخدوم‘ سب دھل کر پاک ہو جاتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ وفاداریاں تبدیل کریں۔ کپتان نے حکومت جوڑنے کے لئے بے شمار کھوٹے سکوں کو صاف ستھرا کرکے سیاست کے گرم بازار میں کارآمد بنا ڈالا ہے۔ جب کبھی ہم اصول پسندی‘ سیاسی اخلاقیات‘ قانون کی حکمرانی‘ سب کا احتساب یکساں طور پر‘ جیسی بات کرتے ہیں تو اہلِ اقتدار ہنسی مذاق میں ٹال دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہم عملی سیاست کے تقاضے نہیں سمجھ سکتے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے لئے محترم زرداری صاحب‘ میاں صاحب‘ کپتان اور پرویز مشرف برابر ہی ہوئے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فارمولا چلتا ہے۔ محض سیاست کی بات کیوں کریں‘ ڈراموں میں فارمولا‘ فلموں میں فارمولا‘ انتظامی منصوبہ بندی میں فارمولا اور سیاسی مذاکروں میں فارمولا۔ سیاسی فارمولا یہ ہے کہ چھوڑیں ماضی کی باتیں‘ حال کی‘ آج کی بات کرتے ہیں۔ دھڑے اکٹھے ہو جائیں‘ سب کو کچھ مل جائے اور برابر ملتا رہے تو پھر اعتراض کس بات کا؟ ویسے تو ہر ایک کی سیاست کو غور سے دیکھا ہے‘ لیکن ذاتی دل چسپی صرف ایوب کے خلاف تحریک میں تھی‘ جو ستر کے انتخابات تک رہی‘ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اس کے زخم نہ معلوم ملکی تاریخ سے کب مندمل ہوں گے۔ پھر عملی سیاست سے کنارہ کشی رہی؛ اگرچہ جمہوریت اپنا انتقام بعد کی دہائیوں میں خوب لیتی رہی‘ اور سب شواہد دنیا کے سامنے ہیں‘ مگر دیکھا کہ اکٹھے بھی ہو رہے تھے‘ خوب کھا پی بھی رہے تھے‘ لڑائیاں‘ رقابتیں اور سیاسی دشمنیاں بھی عروج پر تھیں‘ مگر فارمولا طے تھا کہ تم ہمیں نہ چھیڑو‘ ہم تمہیں نہیں چھیڑیں گے۔ چھیڑو گے تو پھر ردِ عمل ہو گا۔ پرویز مشرف کے بارے میں سب کو گمان تھا کہ ایسا کڑا احتساب کریں گے کہ بس پاکستان کی سیاست سے فارمولا جاتا رہے گا‘ لیکن اس ناچیز کو ایسی کوئی توقع نہیں تھی۔ جب انہوں نے گجراتی بھائیوں کو گلے لگایا اور دونوں بڑی جماعتوں سے ''ہم خیال‘‘ ساتھ ملائے تو ''معتدل‘‘ اور ''ترقی پسند‘‘ پاکستان کی قلعی کھل گئی۔ وہی کرپشن‘ وہی بدعنوانی اور اداروں کو ساتھ رکھنے کے لئے سرکاری خرچ پر جائیدادیں اور زمینیں اس طرح بانٹیں کہ شاید کسی مغل بادشاہ نے جاگیریں تفویض کی ہوں۔
عمران خان کی سیاسی جدوجہد کو ہم سب نے دیکھا۔ ان کا ابھرنا اور اقتدار میں آنا میرے نزدیک نوجوانوں کو متحرک کرنے‘ ان کے اندر تبدیلی کا جذبہ پیدا کرنے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ‘ متوسط طبقے اور لاکھوں اچھے مستقبل کے خواب دیکھنے والے مخلص پاکستانیوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی مقبولیت اب بھی قائم ہے‘ کس حد تک کم ہوئی ہے‘ اس کا فیصلہ تو انتخابات میں ہو گا۔ باقی سب اندازے ہیں جو تعصب کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کا پلڑا پنجاب میں نون لیگ سے بھاری نہیں تھا‘ قدرے کم تھا‘ لیکن خان صاحب حکومت بنانے کیلئے بے تاب تھے‘ مرکز میں بھی اور پنجاب میں بھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا‘ کہ فارمولے پر انحصار کرنا پڑا۔ ارد گرد اور دور دراز سے ''ہم خیال‘‘ ماضی کے ''گمراہ‘‘ انصاف کے ''راستوں‘‘ پر آنا شروع ہو گئے۔ پنجاب کی حد تک تو میں ''نا لائقی‘‘ کے نعرے کو تقویت پاتا دیکھ رہا ہوں کہ نوکر شاہی میں کرپشن زوروں پر ہے اور بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ وہ نہیں جو کپتان کہتے ہیں۔
بات طول پکڑ گئی مگر یہ سب کچھ نیا سیاسی محاذ بننے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میاں صاحب کی خاموشی کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ میری رائے مختلف ہے۔ نون لیگ اور دیگر جماعتیں کپتان کی مقبولیت اور نئی حکومت کے تبدیلی کے نعروں سے کسی حد تک مرعوب تھیں۔ ان کی ماضی کی ''کارکردگیوں‘‘ کا بوجھ بھی بہت زیادہ تھا اور ان کے حمایتی سماجی حلقے اقتدار کا سایہ ڈھلنے کے بعد دلبرداشتہ‘ مایوس اور بکھرے نظر آئے۔ رائے یہ بن چکی ہے کہ میاں صاحب دب چکے ہیں‘ سمجھوتہ کر لیا ہے اور اب اگلے انتخابات تک موجودہ حکومت کو چلنے دیں گے۔ میاں صاحب نے فیصلہ کر لیا ہے۔ اب وہ اپنی سیاسی زندگی کی آخری لڑائی لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ان کی پانچویں لڑائی ہے۔ بھٹو سیاسی خاندان کے خلاف مقدمات کی بھرمار اور حکومت گرائو مہم‘ صدر غلام اسحاق خان سے اصولی حکمرانی پر تصادم‘ اور پھر فاروق خان لغاری اور سجاد علی شاہ کا گٹھ جوڑ‘ پرویز مشرف کو نوکری سے فارغ کرنا وزیر اعظم کی قانونی طاقت تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ آئین کی حکمرانی کا جو حال مشرف صاحب نے کیا‘ تو پھر نتائج وہی ہوتے ہیں‘ جو سامنے آئے۔ میاں صاحب نے اقتدار میں رہ کر جو کچھ کیا‘ نہ کبھی تائید کی اور نہ کی جا سکتی ہے‘ مگر اس بات کا اعتراف ہے کہ جمہوری برتری کیلئے مزاحمت‘ جرأت اور قربانیاں جو انہوں نے دیں‘ پاکستان کی تاریخ میں کوئی اور نہیں دے سکا۔ تقریباً تیس سال پہلے جب غلام اسحاق خان کی صدارتی آمریت کے خلاف اٹھے اور یہاں تک کہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ تو اس دن سے وہ پھر کسی کی پیدا کردہ سیاسی شخصیت نہیں بلکہ پاکستان کے مقبولِ عام رہنما بن گئے تھے۔
میاں صاحب نے مزاحمت کی جنگ کا طبل بجا دیا ہے۔ جو باتیں دبے لفظوں میں لوگ کرتے تھے‘ انہیں اپنا سیاسی نظریہ بنا دیا ہے۔ کامیاب ہوں یا نہ ہوں‘ انہوں نے اپنا نام پاکستان کی جمہوری تاریخ میں جمہوریت کی برتری کے حوالے سے لکھوا دیا ہے۔ فی الحال اگرچہ حکمران دھڑوں میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے‘ آگے بہت بڑے دریا ہیں‘ جو انہیں عبور کرنے ہوں گے۔ فارمولے ہیں تو پھر فارمولے ہی ہوں گے۔