تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     07-10-2020

سرکاری اداروں میں اصلاحات کا معاملہ

آج کل ملک میں سرکاری اداروں کی نجکاری اور ان کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے اصلاحات کے حوالے سے اقتدار کے ایوانوں میں بحث جاری ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں اب بھی وہی تہہ در تہہ گورننس کا نظام ہے ۔ فائل دفتروں میں گردش کرتی رہتی ہے لیکن کوئی فیصلہ کرنے میں عرصہ بیت جاتا ہے ۔2002 ء-2001ء میں حکومت نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کہنے پر ریگولیشن اور دیگر شعبوں پر نظر رکھنے کیلئے پیمر ا ‘ اوگرا اور پیپرا(Public Procurement Regulatory Authority) جیسے ادارے بنائے ۔ ان میں سب سے اہم پیپرا کا ادارہ تھا جس کا مقصد شفافیت لانا اور کرپشن سے بچاؤ تھا‘لیکن لگتا ہے ان کو بنانے والے بڑے بھولے لوگ تھے کیونکہ پیپرا کے کاروبار کی بنیاد تین اصولوں پر مشتمل ہے۔ اس طریقہ کار کو اختیار کر کے ایک تو وقت ضائع کیا گیا جبکہ دوسرا اس تہہ در تہہ عمل سے کرپشن کے اندیشے بھی بڑھ گئے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے خیال میں پیپرا کے نظام میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں‘ مگر سمارٹ ریگولیشن کا مقصد کام کی راہ میں رکاوٹوں کو روکنا ہے نہ کہ کام کرنے والوں کو۔ 
20-2019ء کے دوران 461 سرکاری اداروں اور کارپوریشنز کا قرض اور خسارہ 1995 ارب روپے تھا۔ صرف گزشتہ ایک سال کے دوران ان اداروں کے ملازمین اور افسران کی مراعات کے لیے 601 ارب روپے کا قرضہ لیا گیا جس میں سے 325 ارب روپے کا قرضہ ملکی ذرائع سے جبکہ 276 ارب روپے بیرونی ذرائع سے لیے گیے‘ مگر ان اداروں کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے‘ وہی افسر شاہی اور فیصلہ سازی میں وہی سست روی ۔گویا یہ خصوصیات سرکاری اداروں کی پہچان بن چکی ہیں۔ کام کی صورت یہ ہو تو خود بخود ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اب تک جتنا پیسہ ان ملازمین کی تنخواہوں میں جھونکا جاچکا ہے اتنی رقم سے عوام کی فلاح کے کئی منصوبے شروع کیے جاسکتے تھے۔وزارت خزانہ کے مطابق بجٹ خسارے کی وجوہات میں ٹیکس وصولیوں میں کمی‘ معاشی ترقی کی کم شرح اور سرکاری اداروں کا مسلسل نقصان میں رہنا جیسے معاملات شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے جو چار ارب 70 کروڑ ڈالر کا پیکیج ملا اس کی شرائط میں بھی مسلسل نقصان میں رہنے والے اداروں کی نجکاری پر زور دیا گیا۔ شنید ہے کہ81 اداروں کی نجکاری کا بنیادی فریم ورک تیار کرلیا گیا جس پر آئندہ تین سالوں میں عملدرآمد ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومتی خزانے پر بوجھ بننے والے سرکاری اداروں کی نجکاری قومی مفاد میں ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق اداروں کی نجکاری‘ انضمام یا متعلقہ محکموں کو منتقلی کے عمل کا مقصد معاشی خسارے میں کمی لانا اور اداروں کی استعدادِ کار اور کارکردگی میں بہتری کو یقینی بنانا ہے۔ایسے ادارے جو منافع بخش ہیں یا جنہیں تھوڑی محنت اور تبدیلیوں سے منافع بخش بنایا جا سکتا ہے ان کی نجکاری گھاٹے کا سودا ہے مگر بار بار کے بیل آؤٹ پیکیجز کے باوجود جو ادارے اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکے ان کے لیے شاید نجکاری کے سوا کوئی دوسری صورت نہ ہو۔ اگرچہ ان اداروں کی نجکاری کے لیے ماضی کی حکومتیں بھی مسلسل دباؤ میں رہی ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے اور ملکی ماہرین یہ تصویر پیش کر رہے ہوں کہ ان سفید ہاتھیوں کے بجائے اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو شاید کوئی حکومت بھی اسے رد نہ کر سکے‘ مگر آج تک یہی دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں نے ان ناکام اداروں کی نجکاری کے سوال پر ملکی و غیر ملکی دباؤ برداشت کیا مگر ان اداروں کو موقع اور پیسہ دیتے چلے آئے کہ شاید یہ خود کو تبدیل کر لیں‘ مگر بدقسمتی سے ان اداروں میں سے کئی اپنی حالت کی خرابی میں مسلسل نیچے سے نیچے جا رہے ہیں۔ 
یہ شاید محض اتفاق ہے کہ ہم نے جب بھی سیاستدانوں سے سوال کیا کہ ملک میں سرکاری خریداریوں اور ٹینڈرز کے امور کے متعلق قوانین میں تبدیلی ضروری ہے تو تقریبا ًسبھی نے اس کاجواب ہاں میں دیا۔ ہم نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے بھی یہی سوال کیا کہ انہیں سرکاری سطح پر یا اپنی جماعت اور پارلیمان میں اس نظام کی تبدیلی کی کوئی خواہش نظر آتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں اسد عمر نے نیب قوانین میں ترمیم کا حوالہ دیا کہ سرکاری افسران ڈرے ہوئے تھے کہ کوئی اہم کام اور فیصلہ سازی نہیں کرنی ورنہ تنگ کیا جائے گا۔ ہمیں ایسے فیصلے اور اقدامات کرنا ہوں گے کہ چوری پر تو سزا ہو لیکن کسی کو اس بات پر سزا نہ ہو کہ آپ نے ایسا فیصلہ کیوں کیا‘ ورنہ افسران کام کرنے سے کترائیں گے۔ ہمیں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قانون سازی کرنا ہوگی۔اسد عمر صاحب کی بڑی خواہش ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے زبردست منصوبوں کے ذریعے ملک میں اقتصادی ترقی اور کاروبار کو فروغ دیا جائے‘ لیکن اگر کاروبارِ مملکت اور اس کے فیصلوں کا طریقہ تبدیل نہیں ہو گا تو اقتصادی ترقی اور کاروبار کا فروغ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اسد عمر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ملک میں سکیورٹی کا مسئلہ تو ہے‘ لیکن ہم نے دنیا میں پاکستان کے متعلق لوگوں کی سوچ کو کافی حد تک تبدیل بھی کیا ہے۔پاکستان کا گراف بہتر ہوا ہے اور حکومت نے بڑے فیصلے کرکے سیاحت کے سیکٹر کو آگے بڑھایا ہے۔ ان کے خیال میں ہمیں کاروبار کو innovation کے لیے تیار کرنا ہوگا۔یہ شاید اس کے لیے سب سے بہتر وقت ہے ؛چنانچہ حکومت کو اس کام میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ کاروباری وسعت برآمدات بڑھانے کیلئے بھی اشد ضروری ہے ‘ اور ہمارے پاس ایسے کئی شعبے ہیں جہاں پاکستانی اپنی مہارتوں کے جوہر دکھا سکتے ہیں ۔ خاص طور پر کاروبار کرنے والے نوجوانوں کو حکومتی مدد اور سرپرستی سے ترقی کی راہوں پر آگے لایا جاسکتا ہے۔ 
ابھی حکومت کے پاس موقع ہے کہ وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پیپرا کا نظام ٹھیک کرے کیونکہ اگر پیپرا کا نظام ٹھیک ہوتا تو گزشتہ چند سالوں میں کرپشن بڑھنے کے بجائے کم ہوتی۔ فیصلہ سازی تیز ہونی چاہیے اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح ایسی اصلاحات متعارف کی جانی چاہئیں کہ کام کرنے میں آسانیاں پیدا ہوں۔ اگر ایسا نظام ہو جس میں فیصلہ سازی اور عملدرآمد جلد ممکن ہو تو اس سے قوم کے قیمتی وسائل مزید ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔سرکاری اداروں میں خسارے اور نقصانات کے ساتھ ساتھ افسران اور ملازمین کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پکی نوکریوں میں تحفظ حاصل ہے تو پھر سرکاری ادارے جمود کا شکار کیوں ہیں؟ میں نے حال ہی میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے ایک انٹرویو میں سرکاری اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے چند سوالات کیے۔ ہم نے پوچھا تھا کہ بطور وزیر منصوبہ بندی آپ کی سب سے بڑی تشویش کیا ہے‘جب آپ اپنے آس پاس اپنی وزارت اور دوسری وزارتوں پر نظر دوڑاتے ہیں۔ اسد عمر صاحب کے خیال میں‘ ہمارے ملک میں ابھی تک اہل لوگوں اور مہارت کی کمی ہے‘ جس پر بہت کام کی ضرورت ہے اور اب اس دور میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم اپنی اہلیت بڑھا سکیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہم 1960ء اور 70ء والے طریقوں سے کام کررہے ہیں اور ہمارے اداروں میں ابھی تک وہ جدت نہیں آسکی جو کہ آجانی چاہیے تھی۔ وزیر منصوبہ بندی کی اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کیونکہ اب 2020 ء ہے اور اب اختیارات سنٹرلائزڈ نہیں ہیں۔ صوبے خودمختار ہیں ۔ ایک اچھی حکمت عملی کے ذریعے کاروبار کرنے میں مزید آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں اور یہ کرنا ہوں گی‘ تا کہ پرائیویٹ سیکٹر کا اعتماد حاصل ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved