سینیٹ کے آنے والے انتخابات ہوں یا گلگت بلتستان کا الیکشن‘ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اپنے تمام اندرونی و بیرونی وسائل استعمال کرنے کے با وجود عمران خان حکومت کے خلاف ہلکی سی لرزش پیدا کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اگر ان کی تحریک میں کوئی جان پڑی تو اس کا سبب آٹا، چینی، گھی، تیل اور توانائی کے بحران ہی ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں گویا اپوزیشن کے خوابوں اور ارادوں کو جیٹ طیارے جیسی تیز پرواز عمران حکومت خود فراہم کر رہی ہے اور اسی مہنگائی نے لندن بیٹھے ہوئے میاں نواز شریف اور ان کے مہربانوں کو حوصلہ دیا ہے کہ بظاہر وہ نام عمران خان کا لے رہے ہیں لیکن چوٹ اس سیسہ پلائی دیوار پر لگائیں گے جو ان کے مہربانوں کی راہ میں حائل ہے۔
لاہور چیئرنگ کراس پر تین اکتوبر کو مسلم لیگ نواز کی ریلی میں ''جاگ پنجابی جاگ‘‘ جیسا نعرہ لگا کر صوبائی عصبیت کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جاگ پنجابی کا نعرہ ایسے ہی جذبات میں لگایا گیا ہے تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ یہ سب کچھ ایک پلان کے مطابق ہو رہا ہے۔ اس وقت اپوزیشن کی جماعتیں جو پاکستان کی یک جہتی کی علامت کے خلاف تلواریں سونت رہی ہیں‘ ان میں سبھی وہی سیاستدان شامل ہیں جنہیں عوام کی اکثریت انتخابات میں مسترد کر چکی ہے۔ وہ اپوزیشن جس نے پی ڈی ایم کے فورم سے پہلے گیارہ اکتوبر کو اپنے ایجنڈے کی ابتدا کیلئے کوئٹہ میں پہلا پڑائو ڈالنے کا اعلان کیا، پھر تاریخ بدل کر اٹھارہ اکتوبر کر دی، پھر پڑائو کا مقام تبدیل کرتے ہوئے جلسہ کوئٹہ کے بجائے کراچی میں کرنے کا اعلان کر دیا، دراصل ایک چوں چوں کا مربہ ہے جس میں کسی کا رخ اتر تو کسی کا دکن کی جانب ہے۔ کسی کی سیاست کا مرکز لسانیت، کسی کا عصبیت اور کسی کا مذہب ہے۔ اگر ان تمام جماعتوں کی تاریخ سامنے رکھیں تو کہیں آپ کو پختونستان، کہیں افغانیہ، کہیں جاگ پنجابی جاگ، کہیں سندھو دیش تو کہیں ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی ترغیب دینے والے اس ہجوم میں نظر آئیں گے؛ تاہم اس قدر منقسم اپوزیشن کے لشکر کو آگے بڑھنے کا موقع کسی اور نے نہیں بلکہ خود تحریک انصاف نے دیا ہے۔ اگر وہ بہترین گورننس پر اپنی توجہ مرکوز کرتی تو اس پر کتنا بجٹ استعمال ہو جا نا تھا؟ امن و امان کی اس وقت ملک میں وہی حالت ہے جو دس برس پہلے تھی۔ پہلے کی طرح‘ رشوت کے بغیر کوئی گھر سے نہیں نکل سکتا‘ کسی سرکاری دفتر میں کس طرح داخل ہو سکتا ہے؟ میں پوری ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لکھ رہا ہوں کہ مختلف شہروں کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے محکموں جیسی کرپشن پاکستان کے کسی بھی دوسرے محکمے میں نہیں ہے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز‘ ان محکموں میں کام کرنے والے تو دو رکی بات‘ ان دفاتر کے باہر اور اردگرد گھومنے والے ایجنٹس بھی اب تو کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ آپ اگر کسی محکمے سے صرف تین‘ چار منزلہ پلازے کا نقشہ منظور کرانا چاہتے ہیں تو اس کی لوٹ مار فیس‘ جسے رشوت کہہ لیں یا نذرانہ‘ چالیس سے پچاس لاکھ مقرر ہے۔ اگر آپ ایمانداری سے اپنا کام کروانا چاہیں گے اور رشوت نہیں دیں گے تو پھر آپ کو وہ رگڑے اور چکر دیے جائیں گے کہ آپ کی قبر اسی پلاٹ میں بن جائے گی‘ لیکن کوئی تعمیراتی کام شروع نہیں ہو گا۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ لاہور سمیت بڑے شہروں کی ہر شاہراہ پر جگہ جگہ چھوٹے بڑے گڑھے موت کے کنوئیں بن چکے ہیں‘ جہاں رات گئے تو کبھی دن کو بھی‘ موٹر سائیکلیں، گاڑیاں اور رکشے والے گر رہے ہیں‘ انہیں درست کرنے میں حکومت کا کتنا خرچہ آ سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ دس کروڑ یا پندرہ کروڑ روپے؟ اگر اتنی رقم بھی صوبائی حکومتوں کے پاس نہیں تو پھر وزیراعظم پر بوجھ بننے کے بجائے یہ منصب چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟پولیس کے تھانے اور عقوبت خانے تو پرانی بات ہو چکی ہے‘ اب تو شہروں کی سڑکیں‘ چوک اور بازار پولیس کے اڈے بن چکے ہیں‘ جہاں اگر آپ کسی راہزن سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو پھر وردیوں میں گھومنے والوں‘ ہم سب کی حفاظت کرنے کا حلف اٹھانے والوں سے بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ ملک میں کرائم ریٹ ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ لاہور اور اسلام آباد جیسے شہر بھی اب بدترین سٹریٹ کرائمز کا شکار نظر آتے ہیں اور جا بجا ناکے‘ ڈاکوئوں‘ چوروں کو پکڑنے کے بجائے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ پلاٹوں‘ جائیدادوں پر قبضے کا دھندہ اس وقت عروج پر ہے اور پولیس قبضہ گروپوں کی سرپرستی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس سے آگے اگر کسی پٹوار خانے چلے جائیں آپ کو وہاں بھی مافیا بیٹھے نظر آئیں گے۔ کئی پٹواری اور تحصیلدار تو خود یہ مشورہ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ پر قبضہ کر لو‘ اس کا مالک کمزور حیثیت کا مالک ہے یا وہ کئی برسوں سے ملک سے باہر ہے یا اس کی ملکیت کسی عورت کے نام پر ہے جسے کوئی سمجھ بوجھ نہیں یا وہ بے سہارا ہے‘ اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ بااثر لوگ جو اپنے قصبے میں کسی کا ٹرانسفر کراتے ہیں تو اس سے کئی لاکھ ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے‘ انسدادِ کرپشن والے محکمے خود بھی اس سارے کھیل میں ملوث ہیں اور اپنا حصہ الگ سے وصول کر رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کی حکومت کو گزشتہ حکومتوں سے ورثے میں ملے اس سٹیٹس کو کو توڑنے کے لئے کسی لشکر کی نہیں‘ محض ارادے کی ضرورت ہے۔
اس وقت سرکلر ڈیٹ تاریخ کی بلندترین سطح کو چھو رہا ہے مگر کیا کسی نے اس کے پس پردہ حقائق جاننے کی کوشش کی ہے؟ پاکستان بھر میں تقریباً ایک چوتھائی گھروں میں بجلی کے کنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ شہروں کے نواحی علاقوں اور کچی پکی آبادیوں میں ہر ماہ ملی بھگت سے کئی لاکھ بجلی یونٹ چوری ہو رہی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے اسسٹنٹ لائن مین سے چیف ایگزیکٹو تک سب اس سے باخبر ہیں مگر کارروائی ندارد۔ گرمیوں میں دس سے پندرہ گھنٹوں تک وہ علاقے‘ جہاں ایک ایکڑ کے رقبے میں بنی بے ڈھنگی آبادی میں پچاس ہزار سے زائد لوگ رہتے ہیں‘ کبھی ٹرانسفارمر جلنے تو کبھی ڈی اترنے کے باعث محکموں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں اور گلیوں اور چھتوں میں معصوم بچوں کی چیخ و پکار سے بے حال ان کے ماں باپ حکومت کو گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، اس معمولی تکنیکی خرابی کو دور کرنے کیلئے بالآخر گلی محلے کے لوگ آپس میں چندہ کر کے لائن مین کو پانچ سو‘ ہزار روپے دیتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والے گرمی میں ہی جلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بجلی کی ریڈنگ لینے کی مدت پندرہ سے چوبیس تاریخ تک مقرر ہے لیکن یہ ہمیشہ یکم کے بعد یا اس سے ایک آدھ دن پہلے لی جاتی ہے یعنی اگر ستمبر کے بل کی ریڈنگ 22 اگست کو لی گئی تھی تو اکتوبر کے بل کی ریڈنگ یکم اکتوبر کو لی جائے گی۔ (میٹر ریڈنگ کی اصل تاریخ میٹر کی تصویر کے اوپر درج ہوتی ہے جو کیمرے میں لکھی ہوتی ہے) اس طرح بجلی کا بل ایک ماہ کا نہیں بلکہ چالیس دنوں کا بھیجا جاتا ہے اور یونٹ تین سو سے زیادہ ہونے سے فی یونٹ قیمت بجلی اور سرچارج اصل مصرف سے کہیں زیادہ دینا پڑتے ہیں اور یوں محکمے کی آمدنی بڑھانے کے علاوہ چوری کرائی جانے والی بجلی کا پردہ بھی رہ جاتا ہے۔ اوور ریڈنگ کا یہ عمل ہر دوسرے‘ تیسرے ماہ دہرایا جاتا ہے اور یہ سب سے بڑا غضب ہے‘ جو لوئر مڈل اور متوسط طبقے کی کمر توڑ دیتا ہے کہ 300 یونٹ سے پانچ‘ دس یا بیس‘ تیس یونٹ زیادہ ہو جانے سے ان کا بجلی بل کا دوگنا ہو جاتا ہے۔ ان سارے کاموں سے حکومت کے خلاف نفرت کو ابھارا جا رہا ہے۔ اگر ویسٹ مینجمنٹ اور پانی کے محکموں کی بات کریں تو یہاں تو آدھے سے زیادہ گھوسٹ ملازمین ہیں جو اعلیٰ افسران کے اخراجات پورے کر رہے اور حکومتی خزانہ لوٹ رہے ہیں۔ کیا ان کمپنیوں اور محکمے کو درست کرنے کیلئے کسی بیرونی ملک سے اجازت لینا ہوتی ہے؟ یہ سب کچھ تو آپ کے کنٹرول میں ہے، اس کیلئے صرف گڈ گورننس کی ضرورت ہے اور ہر بدعنوان پر برسنے والا قانون کا ڈنڈا درکار ہے۔