تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-10-2020

آنِ واحد

بطور انسان‘ سب سے بنیادی خوف جو ہمیں لاحق ہوتا ہے وہ بھوک کا خوف ہے۔ یہ خوف انسان کو مار ڈالتا ہے کہ کل اسے اور اس کے اہلِ خانہ کو خوراک ملے گی یا نہیں۔ کروڑوں بے روزگار نوجوان اسی خوف تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ درحقیقت اس کی بنیادی وجہ کم علمی ہے۔ اس کا حل انسان نے یہ نکالا ہے کہ گندم اور دیگر اجناس اکٹھی کر کے رکھ لی جائیں۔ انسان گودام بھرتا رہا۔ جب کرنسی نوٹ وجود میں آئے تو اس نے نوٹ اکٹھے کرنا شروع کیے۔ لوگ زمین کھود کر اس میں کرنسی نوٹ دبانا شروع ہو گئے۔ پھر بینک آئے تو بڑے بڑے امیر لوگوں نے نہ صرف مقامی بلکہ چوری چھپے غیر ملکی بینکوں میں بھی رقوم جمع کرنا شروع کیں۔ انسان کے اندر بھوکوں مر جانے کا یہ خوف اس قدر زیادہ ہے اور وہ اتنی زیادہ رقم اکٹھی کرنے میں لگ جاتا ہے کہ بے شمار لوگ غیر ملکی بینکوں میں رقوم جمع کرتے کرتے مر گئے مگر اس دولت کو خرچ کرنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئی۔ ان کے وارثوں کو بعد میں اس دولت کا علم تک نہیں ہوتا۔
آدمی جو کچھ مرضی جمع کر لے‘ وہ زمین سے اگنے والی اجناس کا محتاج ہے۔ اس زمین پر جاندار اس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ایک جانور کھا چکنے کے بعد جب ہڈیاں چھوڑتا ہے تو دوسرے کو خوراک ملتی ہے۔ ایک مرتا ہے تو دوسرے کو کھانا میسر آتا ہے۔ جانوروں کا فضلہ زمین کی زرخیزی کا باعث ہوتا ہے۔ پانی، آکسیجن، کاربن، سب چیزیں ایک چکر (Cycle) میں گھومتی رہتی ہیں۔ ان چکروں کی بدولت عناصر کی مقدار میں کمی بیشی دوبارہ سے ایک تناسب میں آ جاتی ہے۔ جو چیز جس کے نصیب میں ہے‘ وہ کھا لے گا۔ اگر نصیب میں نہیں تو دولت مندی کے باوجود اس کی بھوک ہی مر جائے گی، نظامِ انہضام کام ہی نہیں کرے گا۔ بے شمار بچّے ایسے ہوتے ہیں کہ ماں باپ ہاتھ جوڑتے رہ جاتے ہیں اور وہ منہ کھولنے پر راضی ہی نہیں ہوتے۔ 
زمین ہمیشہ تباہ ہوتی رہی ہے۔ یہ آج جو کوئلہ، تیل اور گیس ہم استعمال کرتے ہیں، یہ انہی تباہیوں کا مرہونِ منت ہے۔ یہ انہی جنگلات اور جانداروں کی باقیات ہیں، جو بڑے حادثات میں زیرِ زمین دفن ہو جایا کرتے تھے۔ کروڑوں برس میں جانداروں کے یہ جسم اس مفید ایندھن میں تبدیل ہوئے، آج ہم جن سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اسی طرح آج سے ڈھائی ارب سال پہلے ایک بیکٹیریا نے سورج کی روشنی سے آکسیجن پیدا کرتے ہوئے بیس کروڑ سال میں آکسیجن کا ایک انقلاب بر پا کیا۔ آج کا انسان اور دوسری ساری مخلوقات کبھی پیدا نہ ہوتیں، اگر ایک حقیر بیکٹیریا ایسا نہ کرتا۔ آج کرۂ ارض پر آباد سات ارب انسان خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ انسانی دماغ یہ خیال محال سمجھتا ہے کہ انسان مکمل طور پر مٹ سکتا ہے۔ دماغ اور نفس میں موت کا کوئی ڈیٹا ہوتا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میت دیکھ کر انسان کو اپنی موت یاد نہیں آتی بلکہ مرنے والے پہ رحم آتا ہے۔ میت دیکھ کر ہم کہتے ہیں ''بیچارہ مر گیا‘‘۔ 
تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ بڑی تباہی کسی بھی وقت جنم لے سکتی ہے۔ دوسرے جانداروں کے ساتھ انسان بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔ اس تاریخ پہ ذرا ایک نظر تو ڈالیے۔ اڑھائی ارب سال پہلے آکسیجن پیدا ہوئی۔ ایک ارب بیس کروڑ سال پہلے یک خلوی جانداروں میں جنسی تولید کا عمل شروع ہوا۔ آج سے 80کروڑ سال پہلے، پہلی دفعہ کثیر خلوی جاندار پیدا ہوئے۔ اس کے بعد زمین ایک برفانی دور (Ice Age) سے گزری، جو کم و بیش بیس کروڑ سال تک جاری رہا۔ ساٹھ کروڑ سال پہلے آکسیجن کی مدد سے اوزون کی حفاظتی تہہ نے جنم لیا۔ پچاس کروڑ سال پہلے کیمبرین دھماکے (Cambrian Explosion) کی صورت میں جانداروں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اب جاندار بڑھتے رہے اور پہلی بار زمین پہ پودے اگنے لگے۔ زمین اب بھی کیچڑ سے بھری ہوئی تھی۔ کیڑے اس پہ رینگتے رہتے اور ہم جیسے نازک مزاجوں کے لیے یہ رہنے کے قابل نہیں تھی۔ آج سے پچیس کروڑ سال پہلے زمین کی تاریخ کی بدترین ہلاکت خیزی ہوئی۔ تاریخ میں اسے پرمین عالمگیر ہلاکت (Permian Mass Extinction) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 100میں سے 96جاندار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے۔ اس کے بعد تین کروڑ سال کے طویل عرصے میں بمشکل تمام جاندار دوبارہ پیدا ہوئے۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ ہمیں اس زمین پہ صرف دو سے تین لاکھ سال ہوئے ہیں۔ ان میں بھی دو‘ ڈھائی لاکھ سال کا انسان اور ہے اور پچھلے پچاس ہزار سال کا انسان بالکل ہی اور الگ۔ اس کے بعد سے انسان کرّۂ ارض پہ پھیلتا چلا گیا۔ اس نے ہر قسم کے اوزار بنائے اور ہر قسم کی تسخیر کی۔
پچیس کروڑ سال پہلے جو پرمین ہلاکت خیز دور گزرا، اس کے بعد کرۂ ارض پہ ڈائنا سار حکومت کرتے رہے (تب تک انسان کا کوئی نام و نشان نہیں تھا)۔ چھوٹے جاندار‘ میملز موجود تھے لیکن ظاہر ہے کہ ڈائنا سارز کے مقابلے میں ان کا زیادہ تر وقت چھپتے چھپاتے ہی گزرتا۔ دس کروڑ سال پہلے شہد کی مکھی پیدا ہوئی، آٹھ کروڑ سال پہلے چیونٹی۔ 6.6 کروڑ سال پہلے ایک دمد ار ستارہ زمین پر گرا اور کرّۂ ارض کی آدھی سے زیادہ جاندار نسلیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئیں۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ ڈائنا سار ختم ہوئے، جن کی موت کے بعد چھوٹے میملز تیزی سے پھلے پھولے۔ چھ کروڑ سال پہلے پرندے نمودار ہوئے۔ آج سے ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے سے بہت سی انسانی نسلیں دکھائی دیتی ہیں۔ آج ہم نے انہیں مختلف نام دیے ہیں، بالکل اسی طرح، جیسے ڈائنا سار کی مختلف قسموں کو ہم نے مختلف نام دیے ہیں۔ یہ پیدا ہوتے رہے، لڑتے جھگڑتے اور ناپید ہوتے رہے۔
ساڑھے تین لاکھ سال پہلے یورپ کا انسان نی اینڈرتھل نظر آتا ہے۔ اور دو لاکھ سال پہلے ہمارے آبائو اجداد۔ نی اینڈرتھل چھوٹے قد کے قدرے چوڑی جسامت اور بڑے سر والے انسان تھے۔ ان کے ان گنت ڈھانچے اور ڈی این اے آج مکمل صحت کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کے ڈی این اے کا مکمل مطالعہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ سخت جان انسان تھا، سرد آب و ہوا اس انسان کو سازگار تھی۔ اس کے نقش و نگار موٹے تھے۔ اس میں نزاکت اور خوبصورتی نہیں تھی۔ آج سے غالباً پچاس ہزار سال پہلے کوئی حادثہ پیش آیا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کہتے ہیں کہ یہ جنت سے آدمؑ کے زمین پہ اترنے کا وقت تھا۔ ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ اس کے بعد انسان کی چھب ہی نرالی تھی۔ دوسری طرف تیس ہزار سال پہلے دیکھئے تو نی اینڈرتھل ناپید (Extinct) ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے آبائو اجداد میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔ دوستوں کے ساتھ اپنے تجربات، اپنی مہارت (Speciality) کا تبادلہ کرتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے آبائو اجداد ایک دوسرے سے اشیا کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ نی اینڈرتھل میں یہ خصوصیات نظر نہیں آتیں۔ اس کے باوجود تاحال ماہرین کوئی حتمی رائے نہیں دے سکے کہ وہ کیونکر ناپید ہوا۔ ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ زمین کی آب و ہوا گرم ہو رہی تھی اور یہ اسے سازگار نہیں تھی۔ پروفیسر احمد رفیق اختر یہ کہتے ہیں کہ نی اینڈرتھل آدم خور تھے، انہوں نے باہم ایک دوسرے کا خاتمہ کر دیا۔ وہ پانچ ارب مخلوقات جو کبھی اس زمین پہ آباد تھیں اور جو ناپید ہو گئیں، ان میں اگلا نمبر ہمارا بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں صرف اور صرف عقل اور خواہش میں سے ایک کے انتخاب کی خاطر پیدا کیا گیا ہے۔ انسانی عظمت لافانی نہیں۔ اپنا دماغ انسان نے خود تخلیق نہیں کیا۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ زمین سے انسان کا خاتمہ ایک آنِ واحد میں ہو سکتاہے اور ہو گا۔ جس طرح کہ ہم سے پہلوں کا ہوتا رہا ہے۔
دو ٹانگوں پہ چلنے والی ہم واحد مخلوق نہیں۔ ہم سے پہلے کئی سپیشز (مخلوقات) دو ٹانگوں پہ چلتی رہی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved