تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     08-10-2020

کتابچی کا دکھ

تین چار لوگ کہانی سنا کر فارغ ہوئے تو ان کی تکلیف میرے دل میں اتر چکی تھی۔ وہ لاہور میں میرے دفتر میں میرے سامنے بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے ستے ہوئے تھے اور ان پر تھکن مایوسی اور بے بسی لکھی ہوئی تھی۔ وہ کیفیات جو ان چہروں پر ہوتی ہیں جو حق پر ہونے، پوری پوری کوشش کرنے لیکن ہار جانے کے بعد چہروں پر لکھی جاتی ہیں۔
وہ کراچی کے کاروباری لوگ تھے۔ صاف ستھرے، اچھے معاملات اور دیانت کے ساتھ کاروبار کرنے والے۔ وہ کتابوں کے معروف ناشر تھے اور ان کی فہرست میں وہ بہت سی شائع کردہ کتب تھیں جو معیار اور تجارتی کامیابی کے لیے مشہور تھیں۔ اس وقت وہ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کا دورہ کرکے لاہور پہنچے تھے اور ان کے ہاتھوں میں وہ جعلی کتابیں تھیں جو انہی کے نام سے کے پی میں شائع ہو رہی تھیں۔ انہی کی کتابوں کے عکس لے کر یہ کتب ردی ترین کاغذوں پر پست معیار کے ساتھ جعلی کتابیں چھاپنے والے گروہ نے شائع کی تھیں اور کم قیمت ہونے کے باعث مارکیٹ میں دھڑا دھڑ بک رہی تھیں۔
''ہمیں بہت مدت سے ان جعلی کتابوں کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ اپنی ساری مصروفیات سے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے لیکن ہم پشاور پہنچے۔ کتابوں والوں کے پاس گئے۔ ان کی یونینوں سے ملے۔ پریسوں میں گھومے۔ ان لوگوں کے نام پتوں کا سراغ لگایا جو اس گھناؤنے کام میں مصروف ہیں۔ سب جعل سازوں، ان کے پریسوں، ان کے جلد سازوں سب کی معلومات کیں۔ ہماری کوشش تھی کہ پولیس سے بالا بالا ہی اس کی روک تھام ہو جائے تو بہتر ہے ورنہ پولیس تھانوں میں کون رُلتا پھرے۔ کتنے ہی دن پشاور ٹھہرے۔ پیسہ اور محنت صرف ہوتی رہی لیکن بازاروں کے سربراہوں سے ملنے کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ سب نے ٹال مٹول یا وقتی تسلی کے الفاظ کہے لیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔ مجبور ہو کر پولیس کے دروازے پر دستک دی۔ معلوم تھا کہ کام نہیں ہوگا لیکن ایک وزیر کی سفارش کے ساتھ پہنچے کہ ممکن ہے یہ کارگر ہو۔ ایک ہفتہ افسروں کی باتیں سنتے رہے۔ پیسے خرچ کرتے رہے لیکن کچھ نہ ہوا۔ کمشنر اور شہری انتظامیہ کا رخ کیا لیکن بے سود۔ تھک ہار کر بے بسی کے احساس کے ساتھ واپس آگئے ہیں... یہ تنہا ہمارا معاملہ نہیں ہے۔ بے شمار ناشرین کی بے شمار کتابیں جعلی چھپ رہی ہیں۔ جعلی کتابوں کا کام تیزی سے میں پھیل رہا ہے۔ سب کی آنکھیں بند ہیں۔ اصل ناشر اپنی کتابیں لے کر بیٹھے ہوئے نقصان برداشت کر رہے ہیں، فریادیں کر رہے ہیں، کڑھ رہے ہیں لیکن کوئی راستہ نہیں کہ وہ یہ کام بند کروا سکیں۔ خدا اور قانون کا واسطہ بھی کیا دیں۔ یہ خوف ہے ہی نہیں۔ ہوتا تو یہ کام دھڑلّے سے کیسے ہو سکتے تھے ؟‘‘
ان کی کہانی صاف تھی اور ان کی تکلیف بطور ناشر کتب میں دوسروں سے بہتر سمجھ سکتا تھا۔ میں اس تکلیف سے خود بھی کئی بار گزرا ہوں اور ہنوز گزر رہا ہوں۔ یہ ہر اس ناشر کتب اور کتابچی کی تکلیف ہے جو کتابوں سے محبت کرتا ہو‘ جس کی عمر کتابیں شائع کرنے، علمی اور تحقیقی کاموں کو سامنے لانے میں گزری ہو‘ جو محنت سے حق حلال کا رزق کماتا ہو اور کسی کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالتا ہو‘ خدا کا اور قانون کا خوف رکھتا ہو اور انہی دونوں وجوہ کی بنا پر اسے مسلسل ہر طرف سے مار پڑتی رہتی ہو۔
یہ تکلیف کوئی چھوٹی تکلیف نہیں۔ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ ایک بظاہر چھوٹی سی 500 یا 600 صفحات کی اسلامی، علمی، تحقیقی یا ادبی کتاب کو عدم سے وجود تک لانے میں کتنا وقت،کتنا صبر، کتنی محنت اور کتنا سرمایہ لگتا ہے؟ بہت سی ایسی کتابیں پوری زندگی کی محنت کا ثمرہ ہوتی ہیں۔ میں ایسی بے شمار کتابوں سے واقف ہوں جن پر مصنف مترجم یا محقق کی سنہری عمر کے بہترین دس، پندرہ، بیس سال صرف ہوئے تھے۔ جھلستی دوپہروں اور سرد راتوں میں اس کا مسودہ بار بار عرق ریزی سے گزرتا رہا تھا۔ اگر کتاب بڑی یعنی کئی جلدوں پر مشتمل ہو‘ کئی مترجمین یا مصنفین کی کاوشوں کا حاصل ہو تو اس محنت کو آپ جلدوں کی تعداد سے ضرب دے دیں۔ ایسی کتابیں بھی ہیں جو تیس چالیس پچاس سال کی محنت اور بسا اوقات کئی نسلوں کی شمولیت کے بعد تکمیل تک پہنچتی ہیں۔
اور پھر جب یہ کام تکمیل کو پہنچتے ہیں تو اس کا شائع ہونا ایک اور بڑا مرحلہ ہے۔ اگر یہ تحقیقی کام کسی ناشر کی منشا کے مطابق اس کے لیے کیا گیا ہے تو بات الگ ورنہ ناشر تلاش کرنا اور اسے رضامند کرنا ایک اور بڑا مرحلہ ہے جو پہاڑ کاٹنے سے کم نہیں۔ چلیے کسی طرح ناشر تیار ہوگیا یا ناشر ہی کے ایما پر یہ کام ہوا تھا تو ناشر کے اپنے مسائل غار کی طرح منہ پھاڑے کھڑے ہوتے ہیں۔ اصولاً تو کتابوں کی طرف عدم توجہی کے اس دور میں، جب کتاب کی قدروقیمت روز بروز کم ہورہی ہو، انٹرنیٹ پر کتابوں کی بلا اجازت کاپی رائٹ کے تمام قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پی ڈی ایف شامل کی جارہی ہوں، اسے جرم یا گناہ سمجھا ہی نہ جارہا ہو تو کوئی ناشر کتاب کیوں چھاپے؟ یہ گھاٹے کا سودا کیوں کرے؟ وہ اس رقم سے بریانی کی دیگوں کا کاروبار کیوں نہ کرلے جس میں منافع بھی زیادہ ہو اور جو بکتی بھی بہت ہوں؟
اچھا اگر ناشر جس نے زندگی بھر یہی کام کیا ہے، اسے کوئی اور کام آتا ہی نہیں اور جس سے اس کا جذباتی تعلق بھی ہے، تیار ہوگیا اور مزید محنت اور سرمایہ خرچ کرکے کتاب چھاپ دی، کتاب کامیاب اور مقبول ہوگئی اور مصنف، محقق، ناشر کی محنتوں کے بارآور ہونے کے خواب پورے ہونے کے دن آئے توجعلی کتابیں چھاپنے والے ان کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ انہیں کچھ بھی نہیں کرنا۔ پکا پکایا ان کے سامنے ہے۔ کتاب فوٹو کاپی کرائی، ردی کاغذ لیا، سستی جلد کرائی۔ ٹائٹل ہوبہو اسی طرح کا اور اسی نام سے بنوایا اور کتاب مارکیٹ کے دکان داروں تک سستے داموں پہنچا دی۔ اصل ناشر کا حق محنت اور مصنف کا حق تصنیف دھرا رہ گیا۔ ایسی قیامت میں کون تصنیف کرے اور کون اشاعت کرے؟
جعلی کتابوں کیلئے لاہور کے چند مخصوص لوگ بھی بدنام رہے ہیں اور سمجھا جاتا تھا کہ لاہور جعلی کتابیں چھاپنے والوں کا مرکز ہے۔ اس میں صداقت بھی تھی۔ لیکن پھر یہ کام کے پی میں منتقل ہونے لگا اور اب جس پیمانے پر پشاور، اکوڑہ خٹک اور دیگر شہروں کے لوگ کر رہے ہیں، وہ ہر ناشر کے لیے بھیانک خواب کی طرح ہے۔ ویسے تو ایسی کوئی بھی کتاب خواہ اسلامی ہو، ادبی ہو، کمپیوٹر تعلیم کی ہو، سکولوں کی درسی کتاب ہو یا مدارس کی کتاب‘ جس میں بھی منافع نظر آتا ہے‘ یہ گروہ اس پر ہاتھ صاف کرتا ہے لیکن اسلامی کتب اور مدارس کی کتب اس لیے ان کا خاص نشانہ ہیں کہ کے پی میں ان کی کافی کھپت ہے اور افغانستان میں بھی بہت سی کتابیں بھیجی جاتی ہیں؛ چنانچہ یہ کام سالہا سال سے مسلسل پھیل رہا ہے۔
ہونے کو سب کچھ ہے لیکن درحقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ کاپی رائٹ کے قوانین موجود ہیں اور سخت بھی ہیں لیکن ان کی سختی صرف جائز کام کرنے والوں کے لیے ہے۔ ہونے کو ایک وزارت داخلہ بھی ہے اور وزیر داخلہ بھی۔ وفاقی بھی، صوبائی بھی۔ کے پی اور پنجاب پولیس بھی ہے لیکن ان سب کے سامنے یہ کام مسلسل پھیل رہا ہے اور اس میں ایک خطرناک عنصر یہ بھی ہے کہ یہ وہی عناصر ہیں جن کے رابطے دہشتگردوں سے بھی ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جسے جعلی کام چھاپنے کی لت پڑ جائے، وہ جعلی نوٹ کا لالچ بھی کرے گا، جعلی بانڈز کا بھی اور جعلی سندوں کا بھی۔ مقصد تو منافع ہے۔ 
کے پی پولیس کی بہت تعریف کی جاتی ہے۔ ہے کوئی خیبر پختونخوا کا کوئی پولیس افسر، جو کتاب کو بچائے، کتاب کے مرتے ہوئے کاروبار کو بچائے، کتابچی کو بچائے؟ ہے کوئی جو ان چہروں پر رونق لائے جن پر تھکن، مایوسی اور بے بسی لکھی ہوئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved