پہلا جلسہ حکومت سے نجات کیلئے حرفِ آغاز ثابت ہو گا: کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''پہلا جلسہ حکومت سے نجات کے لیے حرفِ آغاز ثابت ہو گا‘‘ کیونکہ اس سے جو وائرس پھیلے گا‘ حکومت کو دم دبا کر بھاگنے کے لیے وہی کافی ہو گا کیونکہ حکومت خالی جلسوں سے تو جانے والی نہیں، ورنہ جمعیت کے جلسوں ہی سے چلی جاتی اور اپوزیشن کا واحد مقصد ہی یہ ہے کہ روزِ اول ہی سے حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کمر کس لے اور یہی کچھ سندھ حکومت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ وفاق میں آنے والی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ابھی سے تیاری شروع کر دی ہے تا کہ اپوزیشن اپنا جواز ثابت کر سکے کہ حکومتوں کو گرانا بھی جمہوریت کی روح ہے، جسے بد روح بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
مہنگائی مافیا کو معاف نہیں کریں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''مہنگائی مافیا کو معاف نہیں کریں گے‘‘ صرف برداشت کریں گے کیونکہ اس کا قلع قمع کرنا انسان کے بس کی بات ہی نہیں اور اسی کو غنیمت سمجھا جائے جو حکومت اسے معاف کرنے کو تیار نہیں؛ اگرچہ معافی خدا سے مانگنی چاہیے‘ بندہ بشر کسی کو کیا معاف کر سکتا ہے؛ تاہم، مہنگائی مافیا نے ابھی حکومت سے معافی طلب بھی نہیں کی‘ اس لیے اس کا کوئی بندوبست کرنے میں ہمیں کوئی جلدی بھی نہیں ہے جبکہ حکومت سہج پکے سو میٹھا ہو پر یقین رکھتی ہے جیسے صبر کا پھل کی مٹھاس تادیر قائم رہتی ہے‘ جیسے ہم ابھی تک قائم چلے آ رہے ہیں، اتنی پیش گوئیوں کے باوجود۔ آپ اگلے روز ایک اجلاس سے خطاب کے علاوہ اشرف علی انصاری سے ملاقات کر رہے تھے۔
عمران خان! چار ماہ بعد آپ نے جانا ہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران خان! چار ماہ بعد آپ نے جانا ہے‘‘ اور یہ مدت پورے حساب کتاب کے بعد دی جا رہی ہے، نیز اگر شیخ رشید اس طرح کی پیش گوئیاں کر سکتے ہیں تو ہم کسی سے کیا کم ہیں؟ اسے بھی غنیمت سمجھا جائے کہ حکومت جانے کے لیے چھ ماہ کی مہلت مانگ رہی تھی جبکہ ہمارا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا ہے اور مزید چھ ماہ تک انتظار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ابھی سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دے کیونکہ ہم نے ووٹ کو عزت دینے کے علاوہ کئی اور کام بھی کرنا ہیں جبکہ اپنے قائد کے نظریۂ انقلاب کو بھی کسی نہ کسی طرح عملی جامہ پہنانا ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ ''اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا‘‘ اگرچہ سارے کے سارے پتھر اپوزیشن نے اپنے ٹرکوں میں بھر لیے ہیں اور پتھروں کی سخت قلت پیدا ہو گئی ہے؛ تاہم، پتھر اکٹھے کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور حکومت کو پیش کش کی ہے کہ پتھروں کی ترسیل کے لیے مال گاڑیاں حاضر ہیں، اگرچہ اس کی نوبت شاذ ہی آئے، کیونکہ حکومت کے پاس بھی مناسب مقدار میں اینٹوں کا سٹاک موجود نہیں ہے کیونکہ ملک بھر کی ساری اینٹیں‘ اینٹوں سے بجانے کے لیے پیپلز پارٹی نے اکٹھی کر لی تھیں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کٹھ پتلی سرکار کے تابوت
میں آخری کیل ثابت ہو گی: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کٹھ پتلی سرکار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی‘‘ کیونکہ ہمارے پاس بھی یہ آخری کیل ہی رہ گیا ہے اور اگر یہ بھی کہیں اِدھر اُدھر ہو گیا تو حکومت کا تابوت کھلے کا کھلا ہی رہ جائے گا؛ تاہم اس آخری کیل کی وجہ سے ہمارے پاس کیل کانٹے سے لیس ہونے کے لیے بھی کوئی کیل نہیں بچا اور اس طرح ہماری تیاری بھی ادھوری ہی رہ جانے کا احتمال ہے جس کا اثر پی ڈی ایم پر بھی پڑ سکتا ہے جبکہ مولانا بوجوہ اس کی قیادت سے الگ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے حکومت کو گھر بھیجنا مزید مؤخر ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز بلاول ہائوس میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز کے مقدمے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں: زرتاج گل
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما زرتاج گل نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کے خلاف مقدمے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں‘‘ البتہ وہ اسے دلچسپی سے دیکھ ضرور رہی ہے کہ جو کام حکومت نے کرنا تھا ایک شہری نے کر دکھایا، اگرچہ اس معاملے کے آگے چلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتے ہیں اور اپوزیشن بھی اسے مذاق ہی سمجھ رہی ہے کیونکہ وہ ضمانتیں وغیرہ کروانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اور حکومت بھی یہ بدنامی مول لینا نہیں چاہتی، اس لیے ارکانِ حکومت کو اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھیں۔
اور‘ اب آخر میں حسین مجروح کی یہ نظم:
کورونا
یہ ماجرا کیا ہے منہ کے بل گر رہے ہیں
شاہ و گدا بھی سہراب و رستم و ہرکولیس سارے
اک ایسے عفریتِ بے نسب، بے صدا کے ہاتھوں
جو ہاتھ پائوں سے بھی تہی ہے
مگر سپاہ و تفنگ و تفریر سے قوی ہے
اجڑ گئی ہیں شبینہ گاہیں
وہ راستے جن پہ پھول کھلتے تھے چہچہوں کے
عجب سماں ہے زرو جواہر کی بے بسی کا
تمام دنیا میں ایک ہی سکّہ چل رہا ہے
ہر اس کا نامجاز سکہ
نہیں ہے موجود ریز گاری بھی
جس کی بینکوں میں اور دکانوں کی بھوک پیاسی تجوریوں میں
گھروں میں محصور ہو چکے ہیں
سب اپنی مرضی سے گھونسلوں کو پلٹنے والے
سوئے فلک دیکھتے ہیں فرصت نہ تھی جنہیں
حجلۂ انا سے نکل کے دنیا کو دیکھنے کی
مگر یہ افتادِ بے اماں بے جزا نہیں ہے
بچھڑ گئے تھے کشاکشِ روزگار میں جو
وہ مدتوں بعد یوں میسر ہوئے ہیں خود کو
خزاں رسیدہ شجر پہ جیسے بہار ہو مہرباں اچانک
نتھر گئی ہے فضا کچھ ایسے
کہ چاک سلنے لگے ہیں اوزون کی قبا کے
قلانچیں بھرتی ہے
دشتِ ممنوع کی گلی میں ہوا کی ہرنی
زمین بھی کھل کے سانس لینے لگی ہے
پھر سے۔۔۔۔۔
آج کا مقطع
کبھی نکلے ہی نہیں خواب کے گھیرے سے ظفرؔ
جس میں ہر چیز میسر ہے اجازت کے بغیر