تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     09-10-2020

آخری صدقہ

برادرِ مکرم عبدالغفار عزیز جماعت اسلامی کے ''وزیر خارجہ‘‘ تھے۔ ابھی تو انہوں نے بڑھاپے کی سرحد پہ قدم بھی نہ رکھا تھاکہ تقریباً ایک برس قبل انہیں کینسر کے موذی مرض نے آ دبوچا۔ انہیں اس مرض کی شدت کا علم تو ہو گیا تھا مگر راضی برضا اللہ کے اس مطیع و فرمانبردار بندے نے شدید نوعیت کی جسمانی اذیت اور روحانی کرب کو کئی ماہ اپنی ذات تک محدود رکھا۔ پھر جوں جوں ملک کے اندر اور ملک سے باہر عالم عرب و غرب میں جہاں جہاں اُن سے محبت و عقیدت رکھنے والوں کو معلوم ہوتا گیا وہاں وہاں ربِّ ذوالجلال کے حضور دستِ دعا اٹھتے چلے گئے۔ ہر دعا کا لب لباب یہ تھا کہ مولا! بے شک مرض موذی ہے مگر تو بھی تو عَلَیَ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ہے؛ تاہم قضا دعا پر غالب آئی اور خالقِ ارض و سما نے اپنی امانت واپس منگوا لینے کا فیصلہ صادر فرما دیا۔ 4 اور 5 اکتوبر کی درمیانی شب وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
جناب عبدالغفار عزیز کی نمازِ جنازہ سے قبل سینیٹر سراج الحق رقت آمیز خطاب کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ عبدالغفار صاحب کی وفات سے پندرہ بیس منٹ قبل وہ منصورہ ہسپتال میں اُن کی عیادت کرنے اور 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی مجلس عاملہ میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے گئے تھے۔ اُن کی آنکھیں بند تھیں۔ اچانک انہوں نے آنکھیں کھولیں اور سراج الحق صاحب کو پہچان کر اپنے بھائی کے لیے فرمانِ مصطفی کے مطابق ایک دلآویز مسکراہٹ کی صورت میں صدقہ پیش کیا۔ اٹھنے کی کوشش کی مگر جسم بھی تو اس وقت تک اطاعت کرتا ہے جب تک اس جسم کے خالق کی طرف سے اِذن موجود ہوتا ہے۔ انہی لمحات میں یہ اِذن اپنے بندے سے واپس لیا جا رہا تھا۔ کتنے کرب انگیز تھے یہ لمحے!
بھائی عبدالغفار عزیز کی طرح اُن کے برادرِ اکبر ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم بھی عربی زبان اور علوم اسلامیہ کے ماہر ہیں۔ ان کا میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں کولیگ تھا۔ میں نے اُن کی عربی دانی سے کئی بار استفادہ کیا۔ ڈاکٹر عاصم نے ہی عزیز بھائی کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ انہوں نے ساری نمازِ جنازہ بالجہر ادا کی۔ اس موقع پر انہوں نے سورۃ الفجر کی حسب حال آخری آیاتِ قرآن کا انتخاب کیا۔ ان آیات کو انہوں نے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔ یہ آیات یوں شروع ہوتی ہیں: یاایتھا النفس المطمئنہ... اے اطمینان والی روح، اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہو۔
عبدالغفار عزیز 1962ء میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تو انہوں نے پاکستان سے پاس کیا، پھر وہ عربی زبان و ادب اور علوم دینیہ کی اعلیٰ تعلیم کے لیے قطر چلے گئے۔ وہاں انہوں نے عرب دنیا کے مشہور دینی ادارے المھد الدینی میں چھ سالہ عربی زبان اور دراساتِ اسلامیہ کا کورس اس شان سے مکمل کیا کہ وہ غیر عرب ہوتے ہوئے بھی اپنی ساری کلاس میں اوّل آئے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے قطر یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب اور جرنلزم میں بی اے آنرز کیا۔ عبدالغفار عزیز چاہتے تو انہیں عرب دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار ملازمت مل سکتی تھی‘ مگر 1991ء میں وہ قطر سے فارغ التحصیل ہو کر اپنے والد محترم حکیم عبدالرحمن عزیز کی معیت میں سیدھے قاضی حسین احمد کے پاس حاضر ہو گئے۔ قاضی صاحب نے ینگ عبدالغفار عزیز کو اپنا معاونِ خصوصی مقرر کر لیا۔
جماعت اسلامی کی اسلامی دعوت علاقائی نہیں عالمی ہے۔ تقریباً جماعت کے قیام کے ساتھ ہی دارالعروبہ قائم کر دیا گیا تھا۔ یہ ادارہ مولانا مودودی کی کتب کا عربی میں ترجمہ کرتا اور عرب دنیا سے رابطے میں رہتا تھا۔ 1950ء کے اوائل تک مولانا مودودی عرب دنیا میں جدید لب و لہجے اور عصری اسلوب میں فکر اسلامی پیش کرنے والے مفکر و مفسر کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے تھے۔ دارالعروبہ کے پہلے انچارج عاصم الحداد تھے۔ سفرنامہ ارض القرآن میں وہی مولانا مودودی کے ہم سفر تھے۔ وہ عربی پر اچھا عبور رکھتے تھے۔ عاصم الحداد صاحب کے سعودی عرب منتقل ہونے کے بعد مولانا خلیل احمد الحامدی دارالعروبہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اس دوران دارالعروبہ کا نام شعبہ امور خارجہ رکھ دیا گیا۔ حامدی صاحب کو عربی زبان میں کمال مہارت تھی۔ وہ مختلف عرب ملکوں کے لہجوں میں بول چال پر قدرت رکھتے تھے۔ ایک طرف عرب دنیا کی اسلامی تحریکوں کے ساتھ اُن کے روابط تھے اور دوسری طرف سعودی عرب کے علمائے کرام اور حکمرانوں کے ساتھ بھی مولانا مودودی کے نائب ہونے کی حیثیت سے اُن کے احترام باہمی پر مبنی دوطرفہ تعلقات تھے۔ میں 1970ء کی دہائی میں سعودی وزارتِ تعلیم میں انگریزی تدریس کیلئے چلا گیا تھا۔ وہ جب سعودی عرب آتے تو ہر ملاقات پر خوشگوار انکشاف ہوتا کہ وہ انتہائی باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ طائف، ریاض اور جدہ وغیرہ میں اُن کے ہمراہ مجھے کئی ممتاز علماء اور حکمران سعودی خاندان کی اہم شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا۔ 1994ء میں رات کے وقت پنجاب میں سفر کرتے ہوئے اُن کی گاڑی سڑک پر کھڑی ایک بے نام و نشان اور روشنی سے محروم ٹرالی کے ساتھ جا ٹکرائی اور یوں اچانک اُن کی موت واقع ہو گئی۔ جماعت اسلامی کیلئے یہ بڑا صدمہ تھا اور سمجھا جا رہا تھا کہ یہ خلا کبھی پُر نہ ہو سکے گا مگر قدرت کی اپنی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ اللہ نے بھائی عبدالغفار عزیز کی صورت میں خلیل حامدی کا نعم البدل پیش کر دیا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے عبدالغفار عزیز وہ دریچہ تھے کہ جو صرف جماعت اسلامی کو نہیں بلکہ سارے پاکستان اور دیگر کئی ممالک کو مسلمانوں کے حالِ زار کی اندرونی خبر دیتا تھا۔ عالم اسلام کے بے حس حکمران اپنے بھائیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے یا غیر مسلم حکام مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیتے تو وہ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کے مصائب و الام سے آگاہ کرتے۔ کبھی عام ملکی و عربی جرائد میں، کبھی پاکستانی میڈیا اور کبھی الجزیرہ جیسے عرب چینلز پر بتاتے کہ اس وقت مصر و شام، لیبیا و سوڈان، فلسطین و افغانستان اور کشمیر و ہندوستان میں مسلمانوں پر کیا کیا قیامتیں ڈھائی جا رہی ہیں۔ ترجمان القرآن میں ان موضوعات پر اُن کے تحقیقی مضامین کو ساری دنیا میں نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا بلکہ ایک ریفرنس کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ غفار صاحب سے ملاقاتیں رہتیں۔ میں ہمیشہ عرب دنیا پر لکھنے کیلئے اُن سے راہنمائی لیتا تھا۔ عبدالغفار عزیز اپنوں کی سنگدلی کے مناظر دکھاتے اور یہودیوں کی سازشوں کا تانا بانا بے نقاب کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے حکم پر پھانسی پانے والے باوقار لباس میں ملبوس ہشاش بشاش اخوانی قائدین کی ساری صورتحال سے بے نیاز اپنے ننھے منے پھول سے بچوں کے ساتھ آخری ملاقات کی ویڈیو وائرل کی تو کلیجہ سینے سے باہر آ گیا۔ 
عرب و اسلامی دنیا میں انہیں احتراماً الشیخ عبدالغفار عزیز کہا جاتا تھا۔ بے شک وہ اسم بامسمٰی تھے۔ وہ عزیز تھے، وہ ہر دل عزیز تھے، عزیز از جاں تھے اور وہ عزیزِ جہاں تھے۔ عبدالغفار عزیز صاحب کے عرب و عجم اور شرق و غرب کی اسلامی تحریکوں کے سربراہوں یا اُن کے نمائندوں کے ساتھ بڑے قریبی قلبی روابط تھے۔ اتنی عالمی عزت افزائی اور پذیرائی کے بعد انسانی رویے اور طرزِ زندگی میں بڑی تبدیلی آ جاتی ہے مگر عبدالغفار عزیز جب بھی واپس منصورہ، لاہور لوٹتے تو وہ وہی عبدالغفار عزیز ہی ہوتے... سادہ، ملنسار، خلیق و شفیق اور فرمانِ مصطفیﷺ کے مطابق اپنے لبوں پر اپنے بھائیوں کے لیے مسکراہٹ کا تحفہ سجائے ہوئے۔
فرمانِ مصطفی کے مطابق وہ دمِ واپسیں مسکراہٹ کا آخری صدقہ پیش کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved