تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     10-10-2020

اپوزیشن کی احتجاجی تحریک اور حکومت کا ردِ عمل

لاہور میں حزبِ اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کی کانفرنس سے لندن میں مقیم سابق وزیر اعظم نواز شریف کے تاریخی خطاب کو دو ہفتے سے زیادہ عرصہ ہونے کو ہے‘ لیکن اس تقریر نے حکومت کی صفوں میں جو کھلبلی مچائی‘ وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ وزیر اعظم عمران خان نے تمام مشیروں اور معاونینِ خصوصی کو جمع کرکے اپوزیشن‘ خصوصاً شریف خاندان کو جوابی حملے کا نشانہ بنانے کی ہدایت کی‘ لیکن حکومت کے یکے بعد دیگرے تمام جوابی حملے اپوزیشن کو پسپا کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں‘ بلکہ خود حکومت اب دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اس کا ثبوت اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف تھانہ شاہدرہ میں بغاوت کے الزام میں درج مقدمے پر مختلف اراکینِ حکومت کے مختلف بیانات ہیں۔ جب اس مقدمے کے اندراج کی خبر پہلی دفعہ نشر ہوئی تو بعض وفاقی و صوبائی وزرا اور معاونینِ خصوصی نے اس کا پُر زور دفاع کیا‘ لیکن جب میڈیا اور سول سوسائٹی کی طرف سے اس پر شدید تنقید ہوئی اور دنیا بھر میں اس مقدمے کی وجہ سے ملک کی بدنامی کا سلسلہ شروع ہو گیا تو حکومت نے اس مقدمے سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہاکہ یہ مقدمہ وزیر اعظم کے علم میں لائے بغیر درج کیا گیا‘ مگر مشکل سے ہی کسی نے اس بیان پر اعتبار کیا ہو گا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس مسئلے پر وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں باقاعدہ بحث ہوئی۔ چند وزرا اور مشیران مقدمے کے اندراج اور اس کے تحت ملزمان کے خلاف کارروائی کے حق میں تھے‘ لیکن وزیر اعظم نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور لاہور پولیس کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ چالیس کے قریب ملزمان‘ جن میں دو سابق وزرائے اعظم‘ ایک صوبائی گورنر‘ تین سابق جرنیل اور باقی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان شامل تھے‘ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ حکومت کے ایما پر نہیں بلکہ ایک عام شہری کی شکایت پر درج کیا گیا۔ یہ خبر بھی آئی کہ حکومت اس پر مزید کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ مقدمہ واپس لینے پر غور ہو رہا ہے۔ یوں نواز شریف کی صرف ایک تقریر سے حکومت کی صفوں میں بپا ہونے والے انتشار پر قابو پانے کیلئے بغاوت کے مقدمے کی شکل میں جوابی حملہ ناکام ہو گیا۔ 
اس سے قبل اعلیٰ عسکری قیادت سے اپوزیشن کے رہنمائوں اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر کی ملاقاتوں کا انکشاف کر کے اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے غبارے سے ہوا نکالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان ملاقاتوں کے انکشاف کا مقصد بقول حکومت‘ اپوزیشن کی منافقت اور دوغلی پالیسی کو عوام کے سامنے رکھنا اور انہیں یہ باور کرانا تھا کہ ایک طرف اپوزیشن فوج پر تنقید کرتی ہے اور دوسری طرف وہ خفیہ طور پر فوج کے سربراہ کے ساتھ ملاقات کرتی ہے۔ ان میں سے ایک ملاقات کا تعلق گلگت بلتستان کی سیاسی صورت حال پر چیف آف آرمی سٹاف اور وفاقی حکومت کے ارکان سمیت (سوائے وزیر اعظم کے) تمام اہم سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کے درمیان مشاورتی اجلاس سے تھا۔ اس اجلاس کو خفیہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے نمائندوں نے عسکری قیادت کی خواہش پر شرکت کی تھی؛ البتہ قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے اور مسئلے کی نزاکت کے پیشِ نظر شرکا نے اس اجلاس کی کارروائی اور سفارشات کا کھلے عام ذکر نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا‘ مگر اجلاس میں شریک حکومت کی ایک اتحادی پارٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے اسے دنیا کی نظروں سے اوجھل‘ اپوزیشن کی طرف سے فوج کے ساتھ رابطے کی ایک مثال کے طور پر پیش کر کے نئے اپوزیشن اتحاد کو ڈس کریڈٹ کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے‘ حالانکہ مخصوص ٹی وی چینلز سے چند جانے مانے اینکر پرسن اور ''ماہرین‘‘ کے ذریعے اس انکشاف کو ایک دھماکے کے طور پر پیش کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اس ''انکشاف‘‘ نے پی ڈی ایم کی پرواز سے پہلے ہی اس کے پر کاٹ دئیے ہیں۔ اس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے نون لیگ کے اہم رہنما اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر کی سپہ سالار سے اگست میں دو ملاقاتوں کا انکشاف کیا گیا اور کہا گیا کہ ان ملاقاتوں‘ جن میں سے ایک میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے‘ ملک کے سیاسی حالات کے علاوہ نواز شریف اور مریم نواز پر بھی بات چیت ہوئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ دعویٰ نہیں کیاکہ ان ملاقاتوں میں نون لیگ کے رہنما نواز شریف یا مریم نواز کیلئے کوئی ریلیف کی درخواست کی تھی؛ تاہم پی ٹی آئی حکومت نے ان ملاقاتوں کو نون لیگ کی طرف سے خفیہ ملاقات کے ذریعے این آر او مانگنے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ کچھ دنوں تک اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز میں ان ملاقاتوں کے سیاسی مضمرات اور اپوزیشن پارٹیوں‘ خصوصاً پی پی پی اور نون لیگ کے کردار پر تبصرے نشر ہوتے رہے اور حکومتی ارکان کی تمام تر توجہ اسی پر مبذول رہی‘ لیکن اسی اثنا میں آل پارٹیز کانفرنس نے جس تیزی کے ساتھ اپنے آپ کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں ڈھالا اور احتجاجی جلسوں کے عبوری شیڈول کا اعلان کیا‘ حکومت‘ جس کی صفوں میں پہلے ہی کھلبلی مچی ہوئی تھی‘ اور بھی حواس باختہ ہو گئی اور اس حواس باختگی کے عالم میں اس نے اپوزیشن کی تحریک کو بھارتی ایجنڈے سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الزام تراشی کی اس مہم میں وزیر اعظم لیڈ رول ادا کر رہے ہیں۔ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے خود کہا کہ انہیں سو فیصد یقین ہے کہ نواز شریف کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔
میرے خیال میں غداری کا مقدمہ اس توقع کے ساتھ درج کیا گیا تھا کہ نواز شریف کا بھی وہی حشر ہو گا جو الطاف حسین کی متحدہ کا 22 اگست کے خطاب کے بعد ہوا تھا‘ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت بھول گئی کہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ نواز شریف ایک ایسی پارٹی کے سربراہ ہیں‘ جس کی آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بڑی گہری جڑیں ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے عوام پی ٹی آئی کی حکومت کے کہنے پر نواز شریف کو دوسرا الطاف حسین کیسے تسلیم کر لیں جبکہ الطاف حسین کے سابقہ قریبی ساتھی عمران خان کی کابینہ کے رکن ہیں۔
وفاقی حکومت خصوصاً وزیر اعظم کے متضاد بیانات سے اپوزیشن کو اخلاقی تقویت مل رہی ہے اور حکومت کی صفوں میں کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا ہے‘ مثلاً ایک بیان میں وزیر اعظم نے پی ڈی ایم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ''ڈاکو‘‘ اکٹھے ہو گئے ہیں‘ لیکن یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ پی ڈی ایم میں شامل ہونے والی ایک جماعت چند ماہ قبل تک حکومت کا حصہ تھی۔ کیا اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس وقت ڈاکو نہیں تھے؟ اسی طرح وزیر اعظم اگر اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں تو انہیں وزیر اور مشیر کی حیثیت سے بیٹھے ہوئے ایسے لوگ نظر آئیں گے ‘ جنہیں کچھ عرصہ قبل وہ خود ڈاکو کہہ چکے ہیں۔ احتسابی ادارے کے بارے میں اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ ریمارکس کے بعد اس ادارے کی غیر جانبداری اور احتسابی عمل کی شفافیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس لئے پی ٹی آئی کے احتساب اور کرپشن کے خلاف جنگ پر مبنی بیانیے میں کوئی جان نہیں رہی۔ سب سے اہم یہ کہ ابھی تو پی ڈی ایم کے اعلان کردہ جلسوں میں سے ایک بھی جلسہ منعقد نہیں ہوا۔ جب یہ جلسے ملک کے طول و عرض میں منعقد ہوں گے اور اس کے نتیجے میں جو سیاسی فضا پیدا ہو گی‘ تو اس سے پی ٹی آئی حکومت کیسے نمٹے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved