تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     10-10-2020

افغانستان‘ کیا انخلا ہو گا؟

چونکا دینے والا ایک اور ٹویٹ بالآخر دیکھنے / پڑھنے کو مل گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اس خواہش کا اظہار کیا کہ ''افغانستان میں موجود باقی ماندہ بہادر فوجیوں کی واپسی کرسمس تک ہو جانی چاہیے‘‘۔ اس سے چند ہی گھنٹے قبل ان کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے آئندہ برس کے اوائل تک افغانستان میں امریکی افواج کم کرکے 2500 تک کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لاس ویگاس میں نواڈا یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے او برائن کا کہنا تھا کہ بالآخر افغان خود ہی ایک معاہدے، ایک امن معاہدے، کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کی رفتار سست ہے، اس میں مشکل سے پیش رفت ہورہی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ضروری قدم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکیوں کو اپنے گھر واپس آجانے کی ضرورت ہے۔
امریکی صدر کے اس اعلان نے پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں افغانستان سے افواج کے انخلا کی حتمی تاریخ دینے سے دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکراتی عمل، جو تاحال ابتدائی مراحل میں ہے،پر براہ راست اثر پڑ سکتا ہے۔ بالخصوص طالبان نے تاحال تشدد میں کمی، یعنی بڑے حملوں میں کمی پر رضا مندی ظاہر نہیں کی؛ چنانچہ جلد بازی میں افواج کا انخلا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ افراتفری میں حساس نوعیت کا فوجی ساز و سامان چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ پینٹاگون نے صدر ٹرمپ کے بیان پر اب تک کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ وزیرِ دفاع مارک ایسپر سے جمعرات کو پینٹاگون میں ایک تقریب کے دوران افغانستان سے فوجی انخلا سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ مارک ایسپر کے ترجمان‘ جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک ملے اور امریکی سینٹرل کمان نے صدر ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی اور وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس حوالے سے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا جائے‘ جبکہ ایک فوجی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کی ٹویٹ محض ''ابتدائی لفظ‘‘ ہے‘ تاہم ہر کوئی افغانستان سے فوجی انخلا کو تیز ہوتے دیکھ رہا ہے۔فوجی عہدیدار نے مزید بتایا کہ صدر ٹرمپ کا آفس افغانستان سے فوجی انخلا سے متعلق پینٹاگون کی پالیسی ٹیم کی ہدایات کا منتظر ہے تاکہ مزید گائیڈ لائنز فراہم کی جا سکیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ ہفتے واشنگٹن پوسٹ میں لکھے ایک مضمون میں منصوبہ بندی کے بغیر افغانستان سے انخلا نہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی کیونکہ ان کے خیال میں اس سے صورتحال بگڑ بھی سکتی ہے۔
اس وقت تک امریکی پالیسی کے خدوخال اور ارادے بہت واضح ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ زیادہ تر افواج کو واپس لانے کا تہیہ کر چکے ہیں، ضروری فوجی ساز و سامان کی افغانستان سے منتقلی شروع ہو چکی ہے اور افغان صدر پر دبائو ڈالنے کی غرض سے ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز یہ ٹویٹ بھی داغ ڈالا کہ زیادہ تر فوجی دسمبر کے اختتام سے پہلے ہی واپس بلا لیے جائیں گے۔ صدرٹرمپ کا یہ اعلان امریکی صدارتی انتخابات سے تقریباً ایک ماہ قبل سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ''لامتناہی امریکی جنگیں‘‘ ختم کرنے کے اپنے وعدے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ بات بہر حال واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ نے ٹویٹ کرکے کوئی حکم دیا ہے یا وہ محض اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔ ٹرمپ صدارتی انتخابات میں دوبارہ میدان میں ہیں۔ وہ افغانستان میں اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کا اظہار کرتے رہے ہیں کیونکہ یہ ان کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے، حالانکہ اس وقت ہزاروں امریکی فوجی عراق‘ شام اور افغانستان میں موجود ہیں۔اس برس فروری میں قطر میں طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے تاریخی معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اگر طالبان دہشت گردی ختم کرنے کی ضمانت دیتے ہیں تومئی 2021 ء تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے باہر نکل آئیں گی۔ اس معاہد ے کے بعد طالبان نے جنگ بندی کرنے اور اقتدار میں شراکت کے فارمولے پر افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ ایک انتہائی اقدام ہے‘ جس کی سب سے بڑی وجہ صدر اشرف غنی کا 29 فروری کے دوحہ معاہدے کو ماننے سے انکار ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات ایک نیا قدم ہے جبکہ طالبان کا اور امریکہ کا اصرار ہے کہ افغان دھڑوں کی بات چیت دوحہ معاہدے کا تسلسل ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے مذاکراتی عمل اسی مسئلے پر تعطل کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تمام تر نظریں صدر اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں پر ہیں کہ آیا امریکی حکومت کے واضح اعلان کے باوجود وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے ہیں یا نہیں۔ غالباً وہ تاحال 3 نومبر کے امریکی صدارتی الیکشن کے انتظار میں تھے، اور ان کی توقع تھی کہ شاید ٹرمپ دوبارہ نہ جیت پائیں، لیکن وہ بھول گئے کہ اگر ٹرمپ ہار گئے تو بھی 20 جنوری تک وہ وائٹ ہائوس میں ہی رہیں گے۔ اس وقت تک کم از کم اڑھائی ہزار مزید فوجی امریکہ واپس پہنچ چکے ہوں گے اور اگر نئے صدر نے افغانستان سے نہ نکلنے کا فیصلہ کیا، جو کہ امریکی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی بھی خواہش ہے، تو کیا افغانستان دوبارہ ہزاروں کی تعداد میں افواج اور ساز و سامان بھیجنا اتنا آسان ہو گا؟ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب ہار گئے تو بھی وہ اپنے جانشیں یعنی جوبائیڈن کیلئے (کم از کم افغانستان کی حد تک) کانٹوں کی سیج چھوڑ کر جائیں گے۔
دوسری طرف امریکہ اور افغانستان نے طالبان رہنمائوں پر مزید دبائو ڈالنے کے لیے مسلسل پاکستان سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد اور امریکی دفتر خارجہ کے بیانات سے قطع نظر ، حقیقت یہ ہے کہ قریبی ہمسائے کے طور پر پاکستان سے ایسی توقعات ایک فطری عمل ہے۔ 50 ہزار سے زائد افراد کا سرحد کے آر پار جانا ، ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔دوسری بات افغان حکومت پر لازم ہے کہ طالبان سے تشدد میں کمی کے مطالبے کے ساتھ اپنی افواج کو بھی طالبان یا مشتبہ طالبان ٹھکانوں پر حملے کم کرے۔تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور یک طرفہ مطالبہ کارگر ثابت نہیں ہو گا؛ تاہم حالیہ دنوں افغانستان کے صوبہ سمنگان‘ زابل اور غزنی میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان بڑی جھڑپوں کی خبریں آئی ہیں‘ جس کے بعد دو طرفہ لڑائی میں شدت کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق وہ اپنی بساط کے مطابق طالبان پر ہر ممکن حربہ استعمال کر رہے ہیں حتیٰ کہ کئی افغان طالبان کو مع اہل و عیال پاکستان سے جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں امریکی افواج کے سربراہ سکاٹ ملر کے تازہ ترین دورہ پاکستان کا بنیادی مقصد بھی طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکراتی عمل کے تعطل سے پیدا ہونے والی پیچیدگی کا جائزہ لینا اور افغانستان سے افواج کے انخلا سے جڑے معاملات پر مفاہمت تھی کیونکہ حساس نوعیت کے معاملات پر مفاہمت تھی کیونکہ حساس نوعیت کا ساز و سامان پاکستان ہی کے راستے واپس جاتا ہے اور عین ممکن ہے بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق پاکستان کو بھی اس قیمتی ساز و سامان کا کچھ حصہ مل جائے۔ ایک بات واضح ہے کہ صدر ٹرمپ جنہوں نے خود کو ''جنگ مخالف‘‘ لیڈر کے طور پر ثابت کیا ہے ، اب امریکہ سے باہر پولیس مین کا کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں اور ہر حال میں امریکی فوجیوں کی واپسی اور بقول ان کے ''بے سود مگر مہنگی جنگوں‘‘ کا خاتمہ چاہتے ہیں، اسی میں شاید پاکستان کا طویل المیعاد مفاد مضمر ہے بشرطیکہ پاکستانی قیادت خود کو اقتصادی چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے اصلاحات کے ذریعے تیار کر سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved