ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ بولا ''کل تو چھٹی ہے پرسوں میں آپ کے دفتر ملاقات کے لیے آؤں گا‘‘۔ ''ضرور! لیکن کل تو چھٹی نہیں ہے‘ ساری مارکیٹیں کھلی ہیں‘‘ میں نے کہا۔ ''چھٹی ہی سمجھیں‘ نری خواری ہے کل دکانوں پر جانا۔ ایک عدد جلوس یا ریلی ہے اور ایک جلسہ بھی۔ میں کئی سال کے کڑوے تجربوں کے بعد ایسے موقع پر دکان اور دفتر نہیں جاتا۔ آپ جانتے ہیں میرا دفتر شہر کے مرکز میں ہے اور اسی علاقے میں یہ سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے سرکاری اور مارکیٹوں کی چھٹی ہو یا نہ ہو۔ کام کچھ نہیں ہو سکتا۔ کل گھر پر ہی رہ کر خواری سے بچوں گا‘‘۔
اس کی بات ٹھیک تھی۔ یہ تجربے میرے بلکہ ہم سب کے بھی تھے۔ ہر سال ان تجربوں میں نئے تجربات کا اضافہ ہوجاتا تھا‘ لیکن کل مجھے بہت سے ایسے کام تھے جو گھر پر نہیں کیے جا سکتے تھے اس لیے میرا تو دفتر جانا بہت ضروری تھا؛ چنانچہ بدھ سات اکتوبر کو جب میں صبح دس بجے کے قریب مال روڈ پر واقع اپنے دفتر کے لیے گھر سے نکلا اور نہر سے فیروز پور روڈ پر مڑا تو ذہن میں کاموں کا ایک ہجوم تھا جو آج ہی نمٹانے تھے۔ خوشگوار دن تھا جسے ناخوشگوار بننے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ میں چوک قرطبہ سے ذرا آگے بڑھا ہی تھاکہ ٹریفک کا بہاؤ رکنا شروع ہوگیا۔ یہ اب روز کا معمول ہے کہ چوک قرطبہ سے آگے مزنگ کے علاقے میں ٹریفک پھنسی رہتی ہے۔ یہاں سڑک تنگ ہے۔ تجاوزات زیادہ ہیں اور ریڑھیوں اور خوانچے والوں کی وجہ سے ٹریفک بہت مشکل سے گزرتی ہے لیکن اصل مسئلہ اس سے آگے جین مندر پر ہے‘ جہاں اورنج ٹرین اور میٹروبس کا سنگم ہے اور یہ شہر بھر میں واحد نقطہ ہے جہاں یہ دونوں بڑے منصوبے بغل گیر ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد ان کی راہیں جدا جدا ہیں۔ اورنج ٹرین کا کام کسی طرح مکمل ہوکر ہی نہیں دیتا۔ روز کوئی سڑک بلاک کی گئی ہوتی ہے اور کوئی مشین کھدائی میں مصروف ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ کئی سال سے دیکھ رہے ہیں۔ پہلے میٹرو بس کے لیے اور اب اورنج ٹرین کے لیے۔ جین مندر کو اب مقام نہیں مسئلہ کہنا چاہیے۔ وہ مسئلہ جو کسی طرح حل ہی نہیں ہوتا۔ یہاں ٹریفک رکتی ہے تو پیچھے میلوں تک ٹریفک جام ہوجاتی ہے اور چوک قرطبہ تک گاڑیوں اور بسوں کی قطار لگ جاتی ہے۔ جو لوگ اس روٹ سے بچ سکتے ہیں وہ کسی اور طرف نکل جاتے ہیں لیکن مسئلہ ان کا ہے جو اس علاقے میں رہائش یا دکانیں یا دفتر رکھتے ہیں۔ وہ کہاں جائیں اور کدھر جائیں؟ دوسرے راستے بھی مسائل سے خالی نہیں اور ان سے گزرنا ایک الگ آزمائش ہے۔
اس دن میں یہی سمجھاکہ ایسی ہی کسی کھدائی کی وجہ سے راستہ یا کوئی سڑک بند ہے۔ چیونٹی کی رفتار سے رینگتی گاڑی جین مندر پہنچی تو ہم نے دیکھا کہ ٹریفک پولیس نے بڑے بڑے کنٹینر رکھ کر پرانی انارکلی کی طرف جانے کا راستہ مسدود کر رکھا تھا۔ ہونے کو کئی ٹریفک وارڈنز بھی وہاں موجود تھے لیکن کسی پلاننگ اور نظم و ضبط کے بغیر۔ معلوم ہوتا تھا کہ انہیں خود معلوم نہیں ہے کہ کرنا کیا اور ٹریفک کو کس طرف موڑنا ہے۔ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں اس چوک پر پہنچ کر حیران پریشان کھڑی ہو جاتی تھیں کہ اب کیا کریں؟ جس طرف جانا تھا وہ راستہ تو بند ہے‘ اور کوئی بتانے والا نہیں کہ یہ سب کیوں ہے اور متبادل راستہ کیا ہے۔ ایک دوسرے سے گتھم گتھا گاڑیاں بغیر کسی مدد کے اپنا راستہ خود بنا کر لوئر مال کی طرف پہنچیں۔ ہمیشہ سے اس چوک کے سگنل پر گداگر مرد اور عورتیں کھڑے ہوتے ہیں۔ وہیل چیئر پر بیٹھا ایک ہٹا کٹا جوان فقیر ہر گاڑی کے راستے میں اپنی وہیل چیئر لاکر کھڑی کردیتا ہے اور ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔ کسی طرح اس چوک سے گزر کر سیکرٹریٹ تک پہنچے۔ آگے ایوان عدل ہے جو چھوٹی عدالتوں کا مرکز ہے۔ اندر احاطے میں جگہ نہ ہونے کے باعث نیز سکیورٹی وجوہ کی بنا پر موٹر سائیکلوں کی پارکنگ لوئر مال پر کی جاتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں سڑک کے بیچوں بیچ پارکنگ اڈے پر کھڑی تھیں۔ ایک طرف کی تین چوتھائی سڑک اس پارکنگ کے قبضے میں تھی۔ یہ پارکنگ کس طرح بنائی گئی؟ اس کی کس نے اجازت دی؟ کچھ پتہ نہیں لیکن موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں والے بھی اپنی جگہ حق بجانب ہیں۔ جنہیں یہاں کام ہے وہ کہاں اپنی سواریاں کھڑی کریں؟ لوئر مال پر ایوان عدل کی دوسری جانب ایسی بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں اور بہت سی جگہ انہوں نے بھی گھیر رکھی تھی۔ صرف یہیں نہیں لوئر مال اور مال روڈ کے سنگم پر بھی یہ گاڑیاں موجود تھیں۔ سالہا سال سے یہ منظر روز دکھائی دیتا ہے لیکن کوئی مسئلہ حل کرنے والا نہیں۔ سب دیکھتے اور گزر جاتے ہیں۔
خدا خدا کرکے اپنے مال روڈ کے دفتر پہنچا جو کمرشل بلڈنگ کے مقابل ہے۔ دیکھا تو موبائل کے سگنل نہیں تھے۔ پتہ چلا کہ اس علاقے کے سارے موبائل بند ہیں۔ اس دوران اگر بجلی چلی جائے‘ جو یہاں عام بات ہے‘ تو آپ انٹرنیٹ سے بھی محروم ہوگئے۔ لینڈ لائن فون خراب ہوگیا تو پوری دنیا سے کٹ کر رہ گئے۔ اس علاقے میں صرف دفتر یا دکان پر آنا اتنا بڑا عذاب ہے تو آپ سمجھ لیں کہ رہائش کا مطلب کیا ہوگا۔ کوئی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔ ٹریفک پولیس اوپر کے احکامات کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ حکام بالا جلوس کے منتظمین کو، منتظمین انتظامیہ کی نااہلی کے شاکی ہیں لیکن سب کے پیدا کردہ ملے جلے مسائل کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ تقریباً پورا شہر ایک مصیبت سے گزرتا ہے اور تقریباً روزانہ ہی گزرتا ہے۔ کچھ مسئلے چند دنوں کے ہیں جو ہر کچھ دن کے بعد لوٹ کر آتے ہیں۔ کچھ مستقل مسئلے ہیں جو روز اپنی جگہ موجود ہوتے ہیں اور پورا سال موجود رہتے ہیں۔ عوام جو یہ مصیبت روز بھگتتے ہیں، اس منظر کا حصہ ہیں اور وہ بھی مسائل بڑھانے میں اپنا اپنا حصہ حسب توفیق شامل کرتے رہتے ہیں۔
اسی سڑک سے اور انہی راستوں سے گزر کر، وزرائ، سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، صوبائی سیکرٹریٹ پہنچتے ہیں۔ وہ تمام افسران جو یہ مسائل حل کرنے کے ذمے دار ہیں کیا انہیں یہ دکھائی نہیں دیتا؟ ہم کتنے سال سے یہ باتیں سن رہے ہیں اور خبریں پڑھ رہے ہیں کہ شہر کے مختلف علاقوں میں پارکنگ پلازے بنائے جائیں گے۔ حال ہی میں یہ خبریں پھر شائع ہوئی‘ لیکن عراق سے تریاق کب آئے گا۔ کچھ معلوم نہیں۔
پارکنگ پلازا اس علاقے کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پارکنگ پلازا کن جگہوں پر بنیں گے اور وہ مہنگی زمین کیسے خریدی جائے گی؟ کم وسائل اور زیادہ مسائل میں پارکنگ پلازا ترجیحات میں کس نمبر پر آئے گا‘ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتاکہ سیکرٹریٹ کی زمین‘ جو حکومت کی اپنی ملکیت ہے‘ پر یہ پلازا بنادیا جائے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ سیکرٹریٹ سے ملحقہ اور سامنے کی سڑکوں پر جوصوبائی سرکاری دفاتر ہیں، ان میں یہ پارکنگ پلازا بنا کر ان دفاتر کو شہر کے کسی اور حصے میں منتقل کردیا جائے؟ کم از کم زمین کی قیمت تو ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ جو دفاتر اس علاقے سے کسی اور جگہ جائیں گے، وہ بھی سکھ کا سانس لیں گے۔ یقین کیجیے اس پورے علاقے میں روز آنا جانا سو مسئلوں کے برابر ایک مسئلہ ہے اور یہ بات ہے تو لاہور کی‘ لیکن دراصل ہر بڑے شہر کی ہے۔ ہر شہر میں ایسے علاقے ہیں جن میں یہی مسائل سالہا سال سے چلے آرہے ہیں ۔ نسلوں کی نسلیں مر مٹ جاتی ہیں، یہ مسائل مرنے مٹنے کا نام نہیں لیتے۔ نہ مرتے ہیں نہ بتاتے ہیں کہ یہ آب حیات کہاں سے پی کر آئے ہیں؟ یہ عمر خضر کہاں سے لائے ہیں؟