قوم کا مستقبل سنوارنے نہ نکلے تو مجرم ہوں گے: نواز شریف
مستقل نا اہل، سزا یافتہ، اشتہاری اور مفرور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''قوم کا مستقبل سنوارنے نہ نکلے تو مجرم ہوں گے‘‘ جو کہ ہم جیسے صاف لوگوں کے لیے بے حد ضروری ہے اور پیشتر اس کے کہ اس صاف شفاف دامن پر واقعی کوئی داغ لگ جائے ، قوم کا مستقبل سنوار لینا چاہیے جو اگرچہ میں پہلے ہی کافی سنوار چکا ہوں؛ تاہم اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ بھی نکال کر قوم کے سامنے سرخرو ہو جائوں جبکہ انصاف کے سامنے تو ہو ہی چکا ہوں اور اب میرا شمار بھی بستہ الف اور ب کے شرفا میں ہونے جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن کا مقصد صرف اپنی چوری کو بچانا ہے: فیصل جاوید
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کا مقصد صرف اپنی چوری کو بچانا ہے‘‘ اگرچہ چوری اور جان بچانا فرض ہے؛ تاہم جو ہم بھی کرتے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتے ہیں اس لیے اپوزیشن کو اس فریضے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کام بھی کرنا چاہیے کیونکہ حکومت کو گرانا کوئی کام نہیں ہے اور کام چوری کسی صورت بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے جبکہ کوئی اچھی حکومت تو خود ہی گرنے کے لیے تیار رہتی ہے اور اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتی ہے، اس لیے اپوزیشن کو اس تردد میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اچھی اپوزیشن کبھی وقت ضائع نہیں کرتی اور دیگر کاموں کے لیے اسے بچا کر رکھتی ہے۔ آپ اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
عمران خان کے گھبرانے کا وقت آ چکا ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے گھبرانے کا وقت آ چکا ہے‘‘ اور ہماری جدوجہد کا مقصد بھی حکومت کو گھبراہٹ سے دو چار کرنا ہے۔ ویسے اگر ان کی حکومت کو گرا سکتے ہوتے تو بہت پہلے گرا چکے ہوتے اور اس طرح سندھ حکومت کے حوالے سے ہم بھی کافی عرصے سے گھبراہٹ میں مبتلا ہیں حالانکہ حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے، ماسوائے احتساب کے، کیونکہ فردِ جرم لگنا شروع ہو گئے ہیں اور ہم نے بھی گھبراہٹ کا مزہ چکھنا شروع کر دیا ہے ۔آپ اگلے روز وڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
ٹھگوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے
جتن شروع کر دیے: فیاض چوہان
وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''ٹھگوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے جتن شروع کر دیے‘‘ حالانکہ ٹھگوں کا کام صرف ٹھگی لگانا ہوتا ہے جبکہ عوام کو بیوقوف صرف اہلِ اقتدار بنایا کرتے ہیں اور یہ ان کا حق بھی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن اپنا کام کرے اور ہمیں اپنا کام کرنے دے جبکہ ہم ان کے کام میں دخل نہیں دیتے تو انہیں بھی اپنے کام ہی سے کام رکھنا چاہیے اور اپنے خلاف مقدمات کا بھی خوش دلی سے مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ جب ہماری باری آئی تو ہم بھی خندہ پیشانی سے مقدمات کا سامنا کریں گے اور اگر ہماری باری نہیں آتی تو یہ قدرت ہی کا کوئی کرشمہ ہو گا۔ آپ اگلے وز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آئین کی بالادستی کیلئے سڑکوں پر آئیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''آئین کی بالادستی کے لیے سڑکوں پر آئیں گے‘‘ کیونکہ آئین نے یہ درخواست ہم سے متعدد بار کی ہے اور ہم اپنی مصروفیات کے باعث اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکے ہیں، لیکن اب آئین کی حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی؛ چنانچہ اب ہم نے اسے تسلی دی ہے کہ فکر نہ کرے، ہم اپنی بالادستی کے ساتھ ساتھ اس کی بالادستی کو بھی بحال کر کے چھوڑیں گے جبکہ ہمارا زور حکومت کو گرانے ہی پر ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کے گرتے ہی آئین کی بالادستی خود بخود ہی قائم ہو جائے گی اور خاکسار کا دال دلیا بھی چلتا رہے گا۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف وہ باتیں کر رہے ہیں جو
بھارتی چیف نے کیں: بابر اعوان
وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف وہ باتیں کر رہے ہیں جو بھارتی چیف نے کیں‘‘ حالانکہ دوسروں کی باتوں کو دہرانا کوئی اچھی بات نہیں ہے جبکہ اس سے ملتی جلتی باتیں وہ خود بھی کر سکتے تھے، اور ایک اشتہاری اور مفرور مجرم کی باتوں میں زیادہ اثر ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کو اپنے فضائل کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے جبکہ عدالت نے ان کی تصویر ہر تھانے میں چسپاں کرنے کا حکم دے کر بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے کیونکہ جگہ جگہ اتنی تصویروں کے چسپاں ہو جانے سے تو آدمی ہیرو بن جاتا ہے اگرچہ پہلے بھی ان کی حیثیت اور شہرت کسی ہیرو سے کم نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
در و دیوار اندھیرے میں ہیں سارے میرے
بُجھ گئے شام سے ہی چاند ستارے میرے
تازہ تر رکھتے ہیں دن رات مجھے سر تا سر
یہی آپس میں الجھتے ہوئے دھارے میرے
ان میں میرا بھی مسافر کوئی ہو سکتا ہے
کشتیاں آن لگی ہیں جو کنارے میرے
اس لڑائی میں تو بس میں ہی بچا ہوں شاید
سبھی ساتھی ہوں کہ دشمن‘ گئے مارے میرے
اس میں دلچسپیاں اوروں کی بھی کیوں ہیں اتنی
ورنہ جھگڑے تو سراسر ہیں تمہارے میرے
رات بھر رہتا ہے یوں میرا اندھیرا روشن
میرے چاروں طرف اُڑتے ہیں شرارے میرے
ایک دن اس کا نتیجہ بھی نکلتا کوئی
اک خبر روز جو اُڑتی رہی بارے میرے
سب نے دیکھا مجھے شہرت کی بلندی پہ یہاں
دیکھے اب کوئی اترنے کے اشارے میرے
کہیں اپنا بھی کم و بیش ہو ظاہر کہ‘ ظفرؔ
دیکھیے ہوتے ہیں کس روز نتارے میرے
آج کا مقطع
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اُصول اُس نے‘ ظفرؔ
کتنا چالاک تھا، مارا مجھے تنہا کر کے