تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     10-10-2020

تفسیر تبیان القرآن کی خصوصیات

بھارت سے ہمارے ایک عالم علامہ محمد حنیف خان رضوی نے تفسیر تبیان القرآن کی خصوصیات لکھ کر بھیجنے کی فرمائش کی، میں نے اس پر تفصیل کے ساتھ لکھا، قارئین کی افادیت کے لیے کالم کی گنجائش کے پیشِ نظر اس کی تلخیص درج ذیل ہے:
تبیان القرآن علامہ غلام رسول سعیدی کی مایہ ناز تفسیر اور عظیم کارنامہ ہے، یہ قرآن کریم کی ایک مبسوط اور جامع تفسیر ہے، مصنف نے تقریباً دس سال کی مدت میں اسے مکمل کیا، یہ تفسیر بارہ ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے، تیرھویں جلد میں اشاریہ ہے اور اس کا ترجمہ ''نور القرآن‘‘ کے نام سے الگ بھی چھپ چکا ہے، اس کے حاشیے میں ''انوارِ تبیان القرآن‘‘ کے نام سے تبیان القرآن کا تفسیری خلاصہ ہے، اسے علامہ عبداللہ نورانی نے مرتّب کیا ہے۔ تفسیر تبیان القرآن اور انوارِ تبیان القرآن کے درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، یہ تفسیر ہندوستان سے بھی شائع ہو چکی ہے اور روئے زمین پر جہاں جہاں اردو دان طبقہ موجود ہے‘ وہاں یہ تفسیر بھی یقینا موجود ہے۔ 
تبیان القرآن سے پہلے قرآنِ کریم کے جو اردو تراجم شائع ہوچکے تھے، اُن میں بعض تَحتَ اللَّفْظ ہیں، نہ ان میں سلاست و روانی ہے اور نہ اردو روز مرّہ اور محاورے سے پوری مطابقت ہے، بعض میں سلاست تو ہے، لیکن یہ تراجم متنِ قرآنِ کریم سے مکمل ہم آہنگ نہیں ہیں۔ قرآنِ کریم کے تراجم کے حوالے سے بلاشبہ امام احمد رضا قادری کا ترجمہ ''کنز الایمان‘‘ ایک سنگِ میل ہے، اس میں متنِ قرآنِ کریم کی پوری رعایت بھی ہے، سلاست بھی ہے اور ناموسِ الوہیت، ناموسِ رسالت و ناموسِ مقدّساتِ دین کی پاسداری بھی ہے؛ البتہ چند الفاظ اُس دور کے روزمرّہ کے مطابق ہیں، لیکن موجودہ دور کے اردو خوان طبقے کو ان کا سمجھنا دشوار ہے، جیسے: الغاشیہ: 22 میں ''مُصَیْْطِر‘‘ کا ترجمہ ''کڑوڑا‘‘، حٰم السجدہ: 5 میں ''وَفِیْ اٰذَانِنَا وَقْرٌ‘‘ کا ترجمہ: ''اور ہمارے کانوں میں ٹینٹ ہے‘‘، لکھا ہے، یہ لفظ آج کی روز مرّہ اردو میں رائج نہیں ہے، عبس:31 میں ''وَفَاکِہَۃً وَأَبّا‘‘ کا ترجمہ: ''اور میوے اور دوب‘‘، التکویر: 4 میں ''وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ‘‘ کا ترجمہ: ''اور جب تھلکی اونٹنیاں چھُوٹی پھریں‘‘، الجن: 9 میں ''شِہَابًا رَّصَداً‘‘ کا ترجمہ: ''آگ کا لوکا‘‘، نوح :11 میں ''یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً‘‘ کا ترجمہ: ''تم پر شراٹے کا مینہ بھیجے گا‘‘ کیا ہے، وَغَیْرہ۔ الغرض ہوسکتا ہے لغت میں یہ الفاظ مل جائیں اور امامِ اہلسنت کے زمانے میں بریلی میں روز مرّہ بول چال میں بولے جاتے ہوں، لیکن اب ان الفاظ کو پوری معنویت کے ساتھ سمجھنے والے لوگ شاید ہی ملیں۔
اردو کے جدید تراجم میں علامہ عبدالحکیم شرف قادری کا ترجمہ ''انوار الفرقان‘‘ بلاشبہ ادبیت کا شاہکار ہے، لیکن کئی جگہ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ترجمہ متنِ قرآن کی گرفت سے نکل چکا ہے، میری نظر میں'' تفسیرِ تبیان القرآن ‘‘ و ''ترجمہ نور القرآن‘‘ کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:
(1) ترجمہ آج کی رائج الوقت اردو زبان کے تمام تقاضوں اور معیارات پر پورا اترتا ہے، سلاست و روانی کے باوجود یہ متنِ قرآنِ کریم سے جڑا ہوا ہے، اس کی گرفت سے باہر نہیں نکلا۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو عربی زبان جیسی گہرائی اور گیرائی کی حامل ہو، ایک ایک لفظ کے درجنوں اور بیسیوں معانی ہوں اور ایک ایک معنی کے لیے درجنوں الفاظ ہوں، نیز عربی زبان کی فہم کے لیے جتنے معاون علوم و فنون ہیں، اتنے دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ہیں۔ اس لیے محض اتنا کافی نہیں ہوتا کہ کسی لفظ کا جو ترجمہ کیا گیا ہے، وہ عربی لغت میں موجود ہے، یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ سیاق و سباق کیا ہے، اُس لفظ کا اطلاق کس ذات پر ہوا ہے اور متعدد معانی میں سے کون سا معنی اُس ذات کے شایانِ شان ہے، انہی امور کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے بعض مترجمین کے تراجم سے بے ادبی کا شائبہ پیدا ہوا۔
امامِ اہلسنّت نے ترجمۂ قرآن میں جس شِعار کی بنیاد ڈالی اور اُسے کمال تک پہنچا دیا، ہماری نظر میں علامہ سعیدی نے اُسے مزید زینت بخشی ہے، دیگر تراجم سے مقابلہ کرتے ہوئے ہم کسی ترجمے کو ''اَکمل واَتم‘‘ قرار دے سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب اس سے آگے مزید تحسین، اِکمال اور اِتمام کی گنجائش نہیں رہی، جیسے جیسے انسان کے مشاہدات و تجربات اور علم آگے بڑھتا جائے گا، کائنات کے بارے میں قدرت کے سربستہ رازوں کے نئے نئے گوشے کھلیں گے تو قرآنِ کریم کی تفہیم وتفہُّم کے نئے امکانات پیدا ہوں گے اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری وساری رہے گا۔ 
(2) تفسیرِ تبیان القرآن کے منظرِ عام پر آنے سے پہلے ہمارے علم میں عربی زبان سمیت دنیا کی کسی زبان میں کوئی ایسی تفسیر نہیں ہے کہ جس میں تفسیر القرآن بالحدیث اس انداز سے کی گئی ہو کہ ہر حدیث کا حوالہ اصل ماخَذ اور رقم الحدیث کے ساتھ دیا گیا ہو، اس کے بعد اگر یہ شعار آگے بڑھتا ہے تو اس کا اعزاز بلاشبہ علامہ صاحب کو جاتا ہے۔ جب تفسیر تبیان القرآن لکھی جا رہی تھی، اُس وقت تک بیروت سے بخاری شریف نمبرنگ کے ساتھ نہیں آئی تھی، علامہ صاحب نے اپنی ضرورت کے لیے ایک نسخے کی نمبرنگ اپنے شاگردوں کے ذریعے کرائی تھی۔
ایک مرتبہ لاہور میں مجھے ایک سکالرکی تفسیر پر گفتگو کرنے کے لیے بلایا گیا، وہاں درجنوں پی ایچ ڈی سکالرز اور کئی شیوخ الحدیث موجود تھے۔ میں نے تفسیر القرآن بالحدیث کے حوالے سے تبیان القرآن کی یہ خصوصیت بیان کرتے ہوئے چیلنج کے طور پر کہا: ''اگر کسی کے علم میں میرے دعوے کے ردّ میں کوئی تاریخی شہادت ہو تو ضرور مجھے مطلع کرے، لیکن آج تک کسی نے میرے دعوے کا ردّنہیں کیا‘‘، میں نے کہا: ''اختلافی مسائل میں آپ لوگ اپنی طرف سے اہلسنّت کی طرف بعض عقائد و معمولات منسوب کر کے اُن کا ردّ شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ علمی شعار یہ ہے کہ باحوالہ عبارت درج کی جائے اور پھر اُس پر کلام کیا جائے، ہم یہی کرتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ''امامِ اہلسنت نے لکھا ہے: ''بشریتِ مصطفیﷺ کا علی الاطلاق انکار کفر ہے‘‘، ''عالم الغیب علی الاطلاق ‘‘صرف اللہ تعالیٰ کے لیے رَوا ہے۔ رسول اللہﷺ عَزِیْز بھی ہیں اور جَلِیْل بھی ہیں، لیکن چونکہ عُرف میں عزَّوَجَلَّ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہوگیا ہے، اس لیے مُحَمَّدٌ عَزَّوَجلَّ کہنا جائز نہیں ہے، حالانکہ معنوی اعتبار سے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ امامِ اہلسنت نے اللہ تعالیٰ کی علومِ غیبیہ کی چھ خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''ایسا علم کوئی ایک ذرّے کی بابت بھی غیراللہ کے لیے مانے تو کفر ہے‘‘۔
(3) علامہ صاحب نے اپنی تفسیر میں متقدمین سے بعض مسائل میں اپنے دلائل کے ساتھ اختلاف بھی کیا ہے، کسی کی بات اپنی ذات میں حرفِ آخر قرار نہیں دی جا سکتی، ترجیحی دلائل کی روشنی میں متقدمین کے علمی ذخائر کو پرکھاجاتا رہے گا، اجتہادی مسائل میں اُن سے اتفاق بھی ہو گا اور بعض مسائل میں اختلاف بھی ہو گا، علامہ صاحب بھی اس سے مبرّا نہیں ہیں۔ ہر ایک کو حق ہے کہ دلائل کی روشنی میں اُن سے اتفاق کرے یا اختلاف کرے، یہ اصحابِ علم کا کام ہے کہ دلائل کی کسوٹی اور میزان پر مختلف علمی و فقہی نظریات کو پرکھیں اور اُن کی درجہ بندی کریں، یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں اکابر متقدمین کا ایک طبقہ وہ ہے جنہیں ''اصحابِ ترجیح‘‘ کہا جاتا ہے۔ پس صرف اختلاف برائے اختلاف اور عناد و حسد نہ ہو، حقیقت پسندی سے کام لیا جائے۔ علامہ صاحب نے مخالفین کا ردّ کرتے ہوئے کہیں بھی سُوقیانہ اور معیار سے گرا ہوا اندازِ بیان اختیار نہیں کیا۔ آپ نے کلامی ابحاث کے ساتھ ساتھ فقہی ابحاث بھی کی ہیں اور پوری دیانت کے ساتھ دوسرے مسالک کے موقف نقل کر کے دلائل کے ساتھ اُن سے اختلاف کیا ہے۔
(4) بطنِ مادر میں نطفہ قرار پانے کے بعد ولادت تک جَنین جن مراحل سے گزرتا ہے، قرآنِ کریم نے ان کو جابجا تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، علامہ صاحب نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں کہ آج جدید سائنس بھی اس شعبے میں قرآن کی تصدیق کر رہی ہے۔ سورۃ الزلزال کی تفسیر کرتے ہوئے زمین کی ساخت اور زلزلوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ قرآن کریم نے ستاروں اور بروج کا ذکر کیا ہے، علامہ صاحب نے ان کے بارے میں بھی گراں قدر معلومات فراہم کی ہیں۔
(5) آپ نے اپنی تفسیر میں تمام تفاسیر، شروحِ حدیث، کتبِ سیرت اور کتبِ فقہ کے حوالہ جات دے رکھے ہیں، لیکن آپ کے پیشِ نظر جو تفاسیر زیادہ رہیں، وہ امام رازی کی تفسیرِ کبیر، علامہ آلوسی کی روح المعانی اور علامہ قرطبی کی احکام القرآن ہیں، نیز دوسرے مسالک کے معاصرین کی تفاسیر کو بھی پیشِ نظر رکھا، اُن کی زَلّات کا تعاقب کرتے ہوئے دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو بیان کیا ہے۔
(6) تفسیر تبیان القرآن کی تکمیل کے بعد آپ نے ''تفسیر تبیان الفرقان‘‘ لکھی، اس کی چار جلدیں اُن کی زندگی میں چھپ چکی تھیں اور پانچویں جلد زیرِ تصنیف تھی، اس تفسیر کا بنیادی مقصد منحرفین، ملحدین، منکرینِ حدیث اور اباحتِ کُلّی کے نظریات کے حاملین کا ردّ کرنا تھا اور بعض مسائل میں آپ نے اس کا حق ادا کر دیا، لیکن آپ اپنی زندگی میں سورۂ یٰس تک تفسیر لکھ پائے تھے، بعد کی جلدیں ہم مکمل کرا رہے ہیں۔
(7) علامہ صاحب کسی زمانے میں درسِ نظامی کے روایتی مدرّسین کی طرح مشکل پسند تھے، ثقیل فنّی الفاظ و اصطلاحات استعمال کرتے تھے، ''توضیح البیان‘‘ اس کی نمایاں مثال ہے، لیکن بعد میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ قرآن کی تفسیر اور حدیث کی شرح لکھنے کا بنیادی مقصد دین کا ابلاغ ہے، لہٰذا اُسے سہل اور عام فہم ہونا چاہیے، اُس میں ابلاغ کی صلاحیت زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے، قاری کے ذہن پر بار محسوس نہ ہو، بلکہ ہر لفظ دل ودماغ میں اترتا چلا جائے، اس لیے آپ نے اردو روز مرّہ و محاورہ اور ادبیت کی چاشنی کو برقرار رکھتے ہوئے آسان اندازِ بیان کو ترجیح دی اور اس میں وہ کامیاب رہے۔
(8) عربی زبان بالخصوص کلامِ الٰہی کی جملہ خصوصیات کا دنیا کی کسی زبان کے کسی بھی ترجمے میں حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے، ورنہ یہ کلام مُعجز بیان نہ رہتا۔ سو تراجم میں مفہوم کو واضح کرنے کے لیے بعض مقامات پر ترجمے کے درمیان بین القوسین تفہیم کو سہل بنانے کے لیے الفاظ لکھے جاتے ہیں تاکہ قاری کے لیے ترجمہ سمجھنا آسان ہو جائے، علامہ صاحب نے بھی جابجا اپنے ترجمے میں اس شِعار کو اختیار کیا ہے، لیکن ضرورت کی حد تک، اس کی بہتات نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved