تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-06-2013

لرزشیں

میں اسحق ڈار صاحب کی قابلیت سے بہت مرعوب تھا۔ یہاں تک سمجھتا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ میں مالیاتی امور پر‘ ان سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ لیکن حالیہ بجٹ میں انہوں نے جو تجربات کر ڈالے ہیں‘ انہیں دیکھ کر تو اس بچے کا خیال آتا ہے‘ جو اپنے کھلونے کو کھول کر بیٹھ جائے اور پھر دوبارہ جوڑنے کی کوشش میں مزید الجھتا چلا جائے اور کھلونے کے کل پرزے بکھرتے ہی رہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ جو بنا بنایا بجٹ انہیں مل گیا تھا‘ اسی کو پڑھ دیتے اور اپنی جان یہ کہہ کر چھڑا لیتے کہ ہمارے پاس وقت نہیں تھا‘ ہمیں جلدی میں وزارت خزانہ کا تیار شدہ بجٹ پڑھنا پڑ گیا ہے لیکن آگے چل کے ہم‘ اس میں تبدیلی کے لازمی تقاضے پورے کرتے رہیں گے۔ ان کی اس بات میں وزن ہوتا ۔ انتخابات میں ملے ہوئے تازہ تازہ مینڈیٹ کی طاقت ان کے پیچھے تھی۔ عوام بھی اپنے نئے لیڈروں کی مشکلات کو سمجھ کر ان کا ساتھ دیتے اور اس کے ساتھ نوازشریف قوم سے خطاب کر کے‘ اپنے روایتی انداز میں عوام کی تائید اور اعتماد حاصل کرتے اور ایک سال کا گریس پیریڈ حاصل کر کے‘ اچھی کارکردگی دکھانے کے لئے وقت حاصل کر لیتے۔ خداجانے ڈار صاحب کو کس نے یہ مشورہ دیا کہ وہ کسی تیاری کے بغیر‘ ایک بنے بنائے مالیاتی ڈھانچے کو ادھیڑ کے بیٹھ جائیں اور پھر سلجھانے کی جتنی بھی کوشش کریں‘ وہ الجھتا ہی چلا جائے۔ بجٹ کے معاملے میں نئی حکومت کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس میں کسی کا قصور نہیں‘ صرف جلد بازی نے پھنسا دیا اور ایسا پھنسایا کہ حکومت کی جو درگت سال دو سال کے بعد بننے والی تھی‘ ابھی سے بننا شروع ہو گئی۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ آئی ہوئی حکومت‘ 10دن کے اندر اندر مخالفانہ عوامی تحریک کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ دوسری طرف اس پر میڈیا یلغار کر دے اور تیسری طرف اپنی غیرمتوقع انتخابی شکست کے دبائو میں آئی ہوئی‘ اپوزیشن اچانک پھرتی اور توانائی محسوس کرنے لگے اور بجٹ کے ردعمل کا سامنا کرتی حکومت پر ہلہ بول کے اسے پھر سے‘ پیر جمانے کی مہلت نہ لینے دے۔ ڈار صاحب کو شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایک فیصد سیلز ٹیکس‘ بازار کے پورے نظام کو اتھل پتھل کرکے رکھ دے گا۔ مارکیٹوں پر کنٹرول کے معاملے میں پاکستان پہلے ہی انتہائی ناکام اور ناکارہ ہے۔ کوئی ضلعی‘ صوبائی یا وفاقی انتظامیہ‘ بازار کے نرخوں پر کنٹرول کرنے کے قابل نہیں۔ جس دکاندار کا دل چاہتا ہے‘ وہ ہر دن‘ اپنی مرضی کا ریٹ مقرر کر کے‘ چیزیں فروخت کرتا ہے۔ جب کوئی کمپنی‘ کسی بھی وجہ سے‘ اپنی مصنوعات کے نرخوں میں اچانک اضافہ کرتی ہے‘ تو کوئی اس سے پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ اب تو یہاں تک ہونے لگا ہے کہ بیشتر کمپنیوں نے اپنی مصنوعات پر نرخ چھاپنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ عام طور پر قیمتوں کی خالی جگہوں پر یا تو ہاتھ سے لکھ دیا جاتا ہے یا مہر کے ذریعے قیمت درج کر دی جاتی ہے۔ بازار کو اتنی آزادی نیم مہذب معاشروں میں بھی نہیں دی جاتی۔نرخوں پر کنٹرول تو پاکستان سے کئی افریقی ملکوں میں زیادہ نظر آتا ہے۔ وہاں کے بازاروں میں عموماً اشیائے ضرورت کے نرخ باقاعدہ لکھے ہوئے اور دکانوں پر آویزاں دکھائی دیتے ہیں اور عموماً پورے شہر کی مارکیٹوں میں نرخ یکساں ہوتے ہیں۔ یہاں تو ایک ہی چیز کا بھائو‘ شاہ عالم مارکیٹ میں الگ ہے‘ گلبرگ میں الگ اور ڈی ایچ اے میں علیحدہ۔ حد یہ کہ رجسٹرڈ کمپنیوں کی بنی ہوئی دوائیں بھی مختلف نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔ ایسی تجارتی مارکیٹیں‘ جہاں پر دکانداروں کی من مانیاں چلتی ہوں‘ وہاں کسی ایسے حکومتی اقدام سے ڈرنا چاہیے‘ جس کا فائدہ اٹھا کر بازار والے‘ عوام پر نرخوں کے ایک نئے اضافے کا ہتھوڑا چلا دیں۔ اس ایک فیصد اضافی سیلز ٹیکس نے‘ پاکستان کے عام شہری کے بجٹ کو یوں تہس نہس کر ڈالا ہے کہ بیوروکریٹ اور حکمران اس کا اندازہ ہی نہیں کر پا رہے۔ مگر وہ خاطر جمع رکھیں۔ سیلز ٹیکس میں اس ایک فیصد نے کیا کیا جلوے دکھا دیئے ہیں؟ چند روز میں ان کی آنچ بجٹ بنانے والوں کے گھروں تک بھی پہنچ جائے گی اور ڈار صاحب کو بھی سمجھ آ جائے گی‘ جنہوں نے بڑی معصومیت سے کہا ہے کہ ’’ہم نے تو کھلے بکنے والے دودھ دہی پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔ ٹیکس کی چھوٹ تو صرف ڈبہ بند دودھ پر ختم کی گئی ہے اور صرف ایک فیصد سیلز ٹیکس بڑھایا ہے۔‘‘ ہمارے ماہرین معیشت اور مالیات اتنی معمولی بات بھی نہیں سمجھ پائے کہ بازاروں میں قیمتوں کی سطح‘ پانی کی طرح ہموار رہتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ڈبے میں بند دودھ کا ریٹ بڑھا دیا جائے اور کھلا بکنے والا دودھ‘ سستا رہے۔ ہمارے وزیرخزانہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دودھ پر ٹیکس کی چھوٹ کے خاتمے اور سیلز ٹیکس میں ایک فیصد کے اضافے نے‘ دودھ کی اصل قیمت 17فیصد بڑھا دی ہے اور جب دودھ کی قیمت 17 فیصد بڑھ گئی تو کیا کھلا دودھ اور کیا ڈبہ بند دودھ؟ قیمت‘ ہر قسم کے دودھ کی بڑھ جائے گی اور وہ بڑھ چکی ہے۔دودھ درجنوں اقسام کی اشیائے خورونوش میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بسکٹ میں بھی ہوتا ہے۔ ٹافی میں بھی ہوتا ہے۔ مٹھائی میں بھی ہوتا ہے۔ مختلف سویٹ ڈشز میں بھی ہوتا ہے۔ آئس کریم میں بھی ہوتا ہے۔ آپ گنتے چلے جایئے بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں‘ جوانوں‘غرض ہر عمر کے لوگوں کی خوراک میں ‘ دودھ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے اور یہ بھی یاد رکھیے کہ نرخوں میں اضافہ کرتے وقت کاروباری طبقہ یہ نہیں دیکھتا کہ کونسے دودھ کا ریٹ کم ہوا اور کونسے کا زیادہ؟ وہ سب سے زیادہ قیمت والے دودھ کی بنیاد پر اشیا کے نرخ بڑھائے گا ۔ ڈار صاحب نے بڑی معصومیت میں ایک فیصد سیلز ٹیکس کہا ہے لیکن دودھ کی قیمت میں 17فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ اضافہ مختلف اشیا کے نرخوں میں کیسے کیسے اضافے کی بنیاد بنے گا؟ اس کی جھلکیاں بازاروں میںنظر آنا شروع ہو گئی ہیں اور قیمتوں میں اضافے کی لہر ایک شے تک محدود نہیں رہتی۔ وہ بازار میں موجود ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اثراندازی بھی شروع ہو چکی ہے۔ سبزی‘ دوائوں اور جوتوں پر تو صرف ایک فیصد سیلز ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔ مگر قیمتوں میں جو چھلانگیں لگائی جا رہی ہیں‘ ان کا ایک فیصد سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مہنگائی کی لہر تمام اشیائے صرف کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا ڈرامہ تو اور بھی سنسنی خیز ہے۔ پہلے تو سیلز ٹیکس اور آمدنی پر لگائے گئے ٹیکسوں میں اضافہ کر کے عام آدمی کی آمدنی پر چھاپہ مار دیا گیا۔ یعنی جو جتنا کما رہا تھا‘ اس کی آمدنی اس سے کم ہو گئی۔ بازار میں مہنگائی ہو گئی‘ آمدنی میں کمی آ گئی۔ بے چینی تو پیدا ہونا تھی۔ کسی سیاسی جماعت یا پیشہ ورانہ تنظیم کا ردعمل‘ سامنے آنے سے پہلے ہی‘ عام شہری تڑپ کر احتجاج کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ احتجاج کی لہروں میں تیزی پیدا ہوتے دیکھ کر حکومت کو اندازہ ہوا کہ معاملہ تو زیادہ بگڑ جائے گا۔ چنانچہ جلدی سے ایک کمیٹی بنا کر اعلان کیا گیا کہ وہ تنخواہوں میںاضافے کے سوال پر سفارشات پیش کرے گی۔ ظاہر ہے اس مبہم سے اعلان کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہونا تھا؟ احتجاجی جذبات مزید بھڑکنے لگے۔ پھر 20جون کی تاریخ دے کر کہا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات بجٹ منظور ہونے سے پہلے تیار ہو جائیں گی۔ لیکن احتجاج پھر بھی بڑھتا رہا‘ تو آج یعنی 15تاریخ کو ہی صبح سویرے وزیرخزانہ کو میڈیا پر آ کر اعلان کرنا پڑا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 7 سے 10 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن جناب ڈار صاحب کا یہ شاٹ بھی غلط لگ گیا۔ یہ جو انہوںنے تنخواہوں پر نئے نئے ٹیکس لادے ہیں‘ ان کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی وہ آمدنی بھی برقرار نہیں رہی‘ جو پہلے انہیں حاصل ہو رہی تھی۔ مثلاً گریڈ 15 کا ملازم پہلے اپنی تنخواہ کا پوائنٹ 5ٹیکس میں دے رہا تھا۔ نئے نظام کے تحت اسے اب اپنی تنخواہ کا پوائنٹ 10 ٹیکس میں دینا ہے۔ لہٰذا عملاً اس کی تنخواہ کم کر دی گئی اور خرچ بڑھا دیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں کون ہے‘ جو احتجاج نہ کرتا؟ لیکن اب بھی جتنی تنخواہ بڑھائی گئی ہے‘ حساب کتاب لگانے پر پتہ چلے گا کہ حقیقی آمدنی میں پھر بھی کمی آ گئی۔تنخواہ پر سرکاری ملازم جتنا ٹیکس ادا کرے گا‘ اس کے بعد‘ اس کی تنخواہ یا تو وہی رہ جائے گی جو پہلے سے لیتا آ رہا ہے یا اس میں ایک دو فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ جبکہ مہنگائی کی جو لہر پیدا ہوئی ہے‘ وہ پانچ چھ فیصد اضافے تک جائے گی۔ بجٹ بناتے وقت‘ ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے کہ منڈی کے توازن کو درہم برہم نہ کیا جائے۔حالیہ بجٹ نے پرانے توازن کو چھیڑ دیا ہے۔اب یہ توازن مارکیٹ فورسز ہی دوبارہ قائم کر سکیں گی۔مارکیٹوں میں ٹھہرائو اب آتے آتے ہی آئے گا۔مارکیٹ فورسز‘ قیمتوں میں توازن اور ٹھہرائو بہت دھیرے دھیرے لایا کرتی ہیں اور جب اس توازن اور ٹھہرائو کے ساتھ چھیڑخوانی کر دی جائے‘ تو پھر لرزشیں دیر تک جاری رہتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved