امریکا میں اب وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو کسی بھی منتشر معاشرے میں ہوا کرتا ہے۔ ایک طرف بے مثال ترقی ہے‘ دنیا بھر کی سہولتیں امریکیوں کو میسر ہیں‘ معاشرہ مجموعی طور پر مادّی سہولتوں سے قابلِ رشک حد تک مزیّن اور آراستہ ہے‘ ایک دنیا جن چیزوں کو ترستی ہے وہ امریکیوں کو بہت آسانی سے میسر ہیں‘ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر پھر بھی امریکی معاشرے میں شدید انتشار پایا جاتا ہے۔ یہ انتشار غیر فطری ہے نہ بلا جواز۔ کم و بیش ایک صدی سے امریکا نے دنیا کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کوئی بھی سپر پاور جو گل کھلایا کرتی ہے وہی امریکا نے بھی کھلائے ہیں۔ باقی دنیا کے وسائل پر قبضہ کرکے اپنی سرزمین کو دنیا بھر کی سہولتوں سے بہرہ مند کرنا امریکی قیادت کا بنیادی مطمحِ نظر رہا ہے۔ سابق سوویت یونین کے ابھرنے تک امریکا بھی ابھر اور پنپ چکا تھا۔ دنیا دو سپر پاورز میں تقسیم ہوگئی۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد امریکا زیادہ طاقتور ہوکر ابھرا اور یوں سوویت یونین کی کمزوریوں کے مترشح ہونے کی ابتدا ہوئی۔ دوسری جنگِ عظیم تک سوویت یونین کی کمزوریاں مزید نمایاں ہوچکی تھیں اور اس جنگ کے خاتمے پر صرف امریکا ہر اعتبار سے قابلِ رشک حد تک مضبوط حالت میں تھا۔ اس کی پیداواری قوت برقرار تھی جس کا اُس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
1940ء کے عشرے کے اواخر میں سرد جنگ شروع ہوئی جو امریکا کے ہاتھوں کبھی کبھی گرم جنگ میں بھی تبدیل ہوتی رہی۔ سوویت یونین کی طاقت تھی تو سہی مگر محدود۔ یہ سپر پاور ایک خاصے خطے تک محدود تھی۔ ''آزاد دنیا‘‘ کا نعرہ لگانے والا امریکا سوویت یونین کو محدود تر کرنے اور باقی ماندہ ''آزاد دنیا‘‘ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں کامیاب رہا۔ اس 'نیک کام‘ میں یورپ نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ یورپ اور امریکا نے مل کر مغربی تہذیب کو اُس کے ''نقطۂ عروج‘‘ تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس نام نہاد عروج نے کتنوں کو زوال سے دوچار کیا ہے‘ یہ نکتہ کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ہر سپر پاور کی طرح امریکا نے بھی یورپ کے ساتھ مل کر اپنا محل باقی اقوام کی قبور پر تعمیر کیا۔ دونوں نے مل کر دنیا بھر کے خطوں کے معدنی وسائل جی بھرکے لُوٹے ہیں۔ بعض خطوں کو دانستہ عدم استحکام سے دوچار رکھا ہے تاکہ وہاں کے لوگ کبھی معیاری انداز سے جینے کے قابل ہو ہی نہ سکیں۔ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ مسلم ممالک کو تباہی سے دوچار رکھنے پر بھی امریکا نے غیر معمولی توجہ دی ہے۔ اس معاملے میں کل تک یورپ اس کا ساتھی تھا‘ اب وہ اپنی راہ کسی حد تک الگ کرچکا ہے۔ امریکا نے کمزور اقوام کو جس بے دردی اور سفّاکی سے کچلا ہے‘ اُس پر قدرت اُسے کبھی معاف نہیں کرسکتی۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن میں معاملات بگاڑ کر ان تمام ممالک کو شدید ترین تباہی سے دوچار کرنے سے قبل امریکا نے جنوب مشرقی ایشیا کے ملک ویتنام اور جنوبی امریکا میں پاناما، نکارا گوا اور دیگر ممالک کو بھی شدید نوعیت کی خرابیوں سے دوچار کیا۔ ویتنام میں امریکا نے جو کچھ کیا‘ وہ تاریخ کے ماتھے کا بہت بڑا داغ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب قدرت نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر سپر پاور اپنے ہی بوجھ سے گرتی ہے‘ کوئی نہ کوئی قوم بہانہ ضرور بنتی ہے مگر حقیقی زوال تو سپر پاور خود اپنی ہی طاقت سے کشید کرتی ہے۔ امریکا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
دو دن قبل امریکا میں خانہ جنگی کی سازش کا انکشاف ہوا ہے۔ ایف بی آئی نے بتایا ہے کہ ریاست مشی گن کی گورنر گریچن وٹمر کو یرغمال بنانے اور اعلیٰ پولیس افسران کے قتل کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد ریاست میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ کام ایک سفید فام عسکریت پسند گروپ نے کیا۔ 6 افراد گرفتار کیے گئے ہیں، اُن سمیت 13 افراد پر گورنر کو یرغمال بنانے کی سازش اور سہولت کاری کی فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔ مشی گن کی گورنر کو یرغمال بناکر خانہ جنگی چھیڑنے کی جس سازش کا انکشاف ہوا ہے اُس کے تیار کرنے والوں کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے حوصلہ افزائی کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ مئی میں جب کورونا وائرس کی وبا روکنے کے لیے دیگر امریکی ریاستوں کی طرف مشی گن میں بھی لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تب اس سفید فام گروپ نے شدید احتجاج کیا تھا اور سڑکوں پر آکر معاملات خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اس پر ''مشی گن کو آزاد کراؤ‘‘ کا ٹویٹ کیا تھا!
امریکا میں سفید فام آبادی اب اقلیت میں تبدیل ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی امریکا سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں امریکا بھر میں سفید فام شدید عدمِ تحفظ کے احساس سے دوچار ہیں۔ یہ بھی فطری امر ہے کیونکہ کم و بیش چار صدیوں کے دوران امریکا میں سفید فام نسل نے دیگر نسلوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں۔ اب یہ خدشہ پنپ رہا ہے کہ اگر دیگر نسلیں سفید فام امریکیوں کو اقلیت میں بدلنے میں کامیاب ہوگئیں تو صدیوں تک جھیلے گئے مظالم کا بدلہ لیں گی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سفید فام نسل کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کے پیشِ نظر معاشرے کو بکھرنے سے بچانے کے لیے کچھ مثبت کرنے کے بجائے امریکا کے برتری پسند سفید فام سیاستدان خرابیوں کے شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ فطری اصول کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ قدرت کا یہ اصول تاریخ سے ثابت شدہ ہے کہ سپر پاور اپنے بوجھ سے گرتی ہے۔ اس بوجھ کی ایک نمایاں علامت ڈونلڈ ٹرمپ اور اُنہی کے قبیل کے برتری پسند سفید فام سیاستدان ہیں۔
معاملات کو سمجھتے ہوئے اُن کی درستی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے رفقا کار اپنی طرزِ فکر و عمل سے مزید خرابیاں پیدا کر رہے ہیں۔ سفید فام نسل کی برتری کا نعرہ لگانے والوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ ان کی پیٹھ تھپتھپارہے ہیں۔ یہ عمل معاشرے میں انتشار کا گراف بلند کر رہا ہے۔ کورونا کی وبا روکنے کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران بھی صدر ٹرمپ کا رویہ انتہائی حیرت انگیز تھا۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر مطلوب سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ امریکی معاشرے میں سفید فام نسل کے لیے امکانات محدود تر ہوتے جارہے ہیں مگر اس کے باوجود سفید فام سیاست دانوں کی خود سری اور سرکشی کا گراف نیچے نہیں آرہا۔ تعداد میں کم رہ جانے پر بھی اگر سفید فام امریکی ملک کے وسائل پر قابض و متصرف رہنے کی کوشش کریں گے اور دیگر نسلوں کے لوگوں کے حقوق غصب کرنے کی راہ پر چلتے رہیں گے تو ایسی خرابیاں پیدا ہوں گی جو امریکا کو تباہ کرکے دم لیں گی۔
یورپ بہت حد تک ساتھ چھوڑ چکا ہے۔ یہ حقیقت امریکی قائدین کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ یورپ نے طے کرلیا ہے کہ ہر معاملے میں امریکا کا ساتھ نہیں دیا جائے گا۔ چین کو ایک حقیقت کی حیثیت سے تسلیم نہ کرنے کی امریکی روش پر بھی یورپ نہیں چلنا چاہتا۔ ایسے میں امریکی معاشرے کو مزید انتشار سے دوچار کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سیاہ فام امریکی اب کسی بھی معاملے میں نیچا دکھائے جانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں حقیقی مفہوم میں برابری کا درجہ ملے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ انتظامی مشینری اب بھی سفید فام امریکیوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ اس سے معاشرے کی تقسیم بڑھ رہی ہے اور رہی سہی کسر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سیاستدان پوری کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا عمل تیز کردیا ہے۔ جارج بش سینئر اور جارج بش جونیئر نے جو بیج بوئے تھے‘ وہ اب تناور درخت میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ سفید فام امریکیوں کی واضح برتری کا دور رخصت ہو رہا ہے مگر خیر! اس عمل کو روکا نہیں جاسکتا کیونکہ قدرت ہر حال میں اپنا کھیل تو کھیل کر ہی رہے گی۔