اکتوبر کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس ایک مہینے کے دوران قتل کی دو وارداتیں ایسی ہوئیں، جنہوں نے مستقبل پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے، اور ان سے ابھی تک سو فی صد نجات ممکن نہیں ہو پائی ہے۔ قیام پاکستان کے چار سال بعد اس ماہ کی 16 تاریخ کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں (جسے بعد ازاں اُن کے نام سے موسوم کر دیا گیا تھا) گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ لیاقت علی خان محض ایک وزیر اعظم یا سیاست دان نہیں تھے، وہ تحریک پاکستان کے دوسرے بڑے رہنما تھے۔ قائد اعظمؒ کے بعد اُن کی شخصیت سب سے قد آور اور محترم تھی۔ وہ مسلسل کئی برس تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے تھے، اور اُنہی کی انتظامی صلاحیتوں نے مسلم لیگ کو ایک تنظیم کے طور پر کھڑا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ان کا قتل پاکستانی سیاست کا قتل ثابت ہوا، اور اقتدار میں نوکر شاہی کا عمل دخل بڑھتا چلا گیا۔ بونے اپنے آپ کو جن سمجھنے لگے، انہوں نے نہ صرف جسدِ سیاست کو تار تار کیا، بلکہ اپنے پائوں پر بھی کلہاڑی ماری، اور خود بھی بے ننگ و نام ہو گئے۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے سات سال بعد جنرل محمد ایوب خان نے بحکم میجر جنرل سکندر مرزا صدرِ پاکستان اقتدار پر قبضہ کر لیا، اور اجتماعی زندگی کی بساط اُلٹ ڈالی۔ 9 سال کی محنت اور مشاورت کے بعد 23 مارچ 1956ء کو پاکستان کو اپنا دستور نصیب ہوا تھا۔ اس دن پاکستان نے تاجِ برطانیہ سے مکمل طور پر اعلانِ لا تعلقی کیا، اور 1935ء کے ایکٹ کو، جو عبوری آئین کے طور پر رو بہ عمل تھا، ختم کر کے اپنے منتخب نمائندوں کا تیار کردہ آئین اپنایا۔ گورنر جنرل کا منصب ختم ہوا، اور سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ دستور ساز اسمبلی سے یہ دستور منظور کرانے میں وزیر اعظم چودھری محمد علی کے زیر قیادت پاکستان مسلم لیگ اور شیر بنگال مولوی فضل الحق کی کرشک سرامک پارٹی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں عوامی لیگ کے رہنما حسین شہید سہروردی نے بھی اس پر مہر توثیق ثبت کر دی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمائندوں کے اتفاق رائے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس کی اساسی دستاویز نصیب ہو گئی، لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ صدر سکندر مرزا کی ہوسِ اقتدار آئین کے کوزے میں بند نہ رہ سکی۔ انہوں نے اسے سبوتاژ کرنے کے منصوبے بنانا شروع کیے، تاکہ وہ لا محدود اختیارات حاصل کر کے (بزعمِ خود) قوم کی قسمت بدل ڈالیں۔ ان حضرت نے ماہِ اکتوبر کی 7 تاریخ کو (قیام پاکستان کے گیارہ اور لیاقت علی خان کے قتل کے سات سال بعد، 1958ء میں) کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کو ''حکم‘‘ دیا کہ وہ اقتدار سنبھال لیں۔ سکندر مرزا کو دستور نے یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ اس کو منسوخ یا معطل کر ڈالیں، لیکن انہوں نے بندوق سے ساز باز کر کے طاقت حاصل کر لی۔ جنرل ایوب خان ان کا حکم بجا لائے، انہوں نے مڑ کر نہیں پوچھا کہ جناب، آپ! کس قانون کے تحت یہ حرکت فرما رہے ہیں؟ صدر اور کمانڈر ان چیف پاکستانی قوم کی اجتماعی ذہانت پر پانی پھیر کر مختارِ مطلق بن بیٹھے۔ سکندر مرزا جیسا کایاں شخص یہ بھول گیا کہ اس کی طاقت دستور کی کتاب میں پوشیدہ ہے۔ یہ کتاب پھاڑ ڈالی جائے گی تو وہ کٹی پتنگ بن کر رہ جائے گا۔ ٹھیک بیس دن بعد سکندر مرزا کے ساتھ وہی ہوا، جو اس طرح کے کوتاہ اندیش جاہ طلبوں کے ساتھ تاریخ کرتی چلی آئی ہے۔ گن پوائنٹ پر ان سے استعفیٰ لے کر برطانیہ روانہ کر دیا گیا... پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا... وہاں ایک ہوٹل کے منیجر کے طور پر کام کر کے یہ حضرت پیٹ کی آگ بجھاتے رہے۔ جب دُنیا سے رخصت ہوئے تو بھی وطن کی مٹی نصیب نہ ہوئی۔ انہوں نے بڑی نخوت اور حقارت کے ساتھ 7 اکتوبر 1958ء کو وزیر اعظم سر فیروز خان نون کے نام خط میں تحریر کیا تھا کہ اگر دستور نافذ رہا، تو پاکستان باقی نہیں رہے گا، اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ دستور منسوخ کر کے اقتدار سنبھال لیں، یعنی پاکستان کے لیے ''آبِ حیات‘‘ کا اہتمام کر ڈالیں۔ سکندر مرزا کی جگہ جنرل ایوب خان نے اپنی تاج پوشی کر لی، کچھ عرصے بعد وہ فیلڈ مارشل بن گئے۔ اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کا یہ انعام انہوں نے اپنے سینے پر سجا لیا۔
اس کے بعد دُنیا نے دیکھ لیا کہ دستور کو منسوخ کرنے کا یہی اقدام پاکستان کو دو لخت کرنے کا سبب بن گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی صوابدید کے مطابق ایک آئین لکھوایا، اور طاقت کے بل پر اسے نافذ کر دیا۔ اس کا آغاز ہی اس فقرے سے ہوتا تھا کہ ''مَیں فیلڈ مارشل ایوب خان قوم کو یہ آئین دے رہا ہوں‘‘... پاکستان کی اجتماعی ذہانت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اسمبلیوں کا براہِ راست انتخاب ختم کر کے بالواسطہ انتخاب کا طریقہ اپنایا گیا۔ بالغ رائے دہی کو خیر باد کہہ دیا گیا۔ صدارتی نظام نافذ کر کے ایوب خان اپنے آپ کو بلا مقابلہ صدر بھی منتخب کرا گزرے۔ اب پاکستان میں وہ کشمکش شروع ہو گئی جس سے وہ نا آشنا تھا۔ نظم اجتماعی پر تنازع اُٹھ کھڑا ہوا، اور قوم کے بڑے حصے نے فردِ واحد کے دیئے گئے دستور کو اپنی توہین سمجھ کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ گویا ایک ایسی ''خانہ جنگی‘‘ شروع ہو گئی، جس میں توانائی ضائع ہوتی گئی۔ قوم اپنے آپ سے اُلجھ کر اپنے آپ کو زیر کرنے میں لگ گئی۔ ایک دن آیا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی ترقی تمام ہوئی، عوامی بغاوت کے سامنے ان کا اقتدار بے بس ہو گیا، اور وہ اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کے مطابق بھی اپنی قومی اسمبلی کے سپیکر کو اقتدار منتقل نہ کر پائے۔ ان کی کم ہمتی ا ور کوتاہ نظری نے اقتدار پھر کمانڈر ان چیف کی جھولی میں ڈال دیا۔ اپنے پیش رو سکندر مرزا کے راستے پر چلتے ہوئے انہوں نے اپنے کمانڈر کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دے ڈالی۔ جنرل یحییٰ خان تو منتظر بیٹھے تھے، بھاگم بھاگ ایوانِ صدر پر قابض ہو گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل میں جانے کا محل نہیں، انہوں نے 1956ء کا دستور بحال کرنے کے بجائے نیا دستور بنوانے کے لیے نئی دستور ساز اسمبلی بنانے کا اعلان کیا، اور نتیجتاً ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے منتخب رہنما دستوری خاکے پر متفق نہ ہوئے، طاقت کے نشے میں چُور یحییٰ خان نے فوجی کارروائی کر ڈالی۔ شیخ مجیب الرحمن گرفتار ہوئے، ان کی پارٹی پر پابندی لگائی گئی، لیکن متحدہ پاکستان کی قسمت میں کوئی دوسرا دستور نہ لکھا جا سکا۔ دو ٹکڑوں میں بٹ کر مغربی پاکستان (آج کے پاکستان) کے نمائندوں نے ایک ایسی دستاویز پر اتفاق کر لیا جو آج بھی نافذالعمل ہے۔ کئی ہچکولوں اور صدموں کے باوجود اس دستوری خاکے پر پاکستانی ریاست استوار ہے۔ جو راستہ سکندر مرزا نے ریاست کے استحکام اور بقا کے لیے چنا تھا، وہی اسے دو لخت کرنے کا سبب بن گیا۔ سکندر مرزا کا راستہ تباہی کا راستہ ثابت ہوا؎
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)