تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     11-10-2020

صدر ٹرمپ کو کورونا بیماری: چہ معنی دارد؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کورونا ہونے کے کیا معنی ہیں؟ بہت سے معنی ہیں۔ پہلا، اس سے قطع نظر کہ کوئی شخص کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، وہ بیماری اور موت سے مبرا نہیں ہے۔ ٹرمپ دنیا کے سب سے طاقتور آدمی ہیں، کیونکہ وہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر ہیں۔ کسی بھی قوم کے وزیر اعظم کے پاس اتنے آئینی اختیارات نہیں ہوتے جتنے امریکی صدرکے پاس ہیں۔ کورونا نے ثابت کیا ہے کہ وہ صدر اور جھاڑو دینے والے کے مابین فرق نہیں کرتا ہے۔ دوسرا، کورونا نے ٹرمپ کی بیباکی کو پنکچر کر دیا ہے۔ کورونا کچھ بھی نہیں ہے، اس سے کیوں ڈرتے ہو، پوری دنیا میں امریکی صحت کی دیکھ بھال بہترین ہے۔ ٹرمپ کا تکبر کورونا کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے حریف جو بائیڈن کا مذاق اڑایا تھا‘ جس کے بارے میں بائیڈن نے ایک عوامی ٹی وی مباحثے میں بات کی تھی۔ کورونا نے یہ ثابت کیا ہے کہ قائدین‘ چاہے وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، کو اپنا طرز عمل برقرار رکھنا چاہئے تاکہ عام عوام ان کی پیروی کر سکیں۔ یہ لاپروائی بھارت سے چار پانچ گنا چھوٹے امریکہ میں 2 لاکھ 10 ہزار افراد کی موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تیسرا، امریکہ جیسے امیر اور ترقی یافتہ ملک میں، لوگوں کے اعتماد کی سطح بہت زیادہ ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ساحلوں، ہوائی جہازوں، میٹرو ریلوں اور سڑکوں پر بھی، لوگ بغیر کسی ماسک کے چکر لگاتے ہیں، ایک دوسرے سے جسمانی فاصلہ نہیں رکھتے ہیں اور ہوٹلوں میں قربت میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ وہ اپنے قائدین کی پیروی کرتے ہیں۔ چوتھی چیز جو خود ٹرمپ کے متعلق ہے۔ بدھ کے روز انہیں ہلکا بخار ہوا تھا اور سانس لینے میں دشواری تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے بدھ اور جمعرات کو بھی مہم جاری رکھی۔ دو دن بعد جمعہ کے روز انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ان کے بارے میں ڈاکٹروں اور ان کے نوکروں کی اطلاعات مماثل نہیں ہیں۔ پھر بھی، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی اگر وہ ڈاکٹروں کے مشورے کے خلاف انتخابی میدان میں جاتے ہیں۔ پانچویں چیز کی قطعی تصدیق ہو جاتی ہے یعنی‘ صدارتی انتخابات میں ان کی شکست۔ اس کی تصدیق ان کو کورونا سے ہوتی ہے۔ بائیڈن اس وقت ان سے 13 پوائنٹس آگے ہیں۔ اگر ٹرمپ کچھ دن ہسپتال میں رہے تو وہ پیچھے رہ سکتے ہیں۔ امریکہ میں ابھی سے اس کا اندازہ لگانا شروع ہو گیا ہے کہ ٹرمپ کہیں کورونا کی وجہ سے اس صدارتی انتخاب سے ہی باہر نہ ہو جائیں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے!
چین مخالف چوکڑی؟ 
امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت‘ ٹوکیو میں ہونے والے اس چار رکنی گروپ کا اجلاس حیران کن تھا۔ ان چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک دوسرے سے ملاقات کی اور چاروں نے بحرالکاہل کے خطے میں امن و سلامتی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ یہ چوکڑی امریکہ کے اقدام پر بنائی گئی ہے۔ جس طرح امریکہ نے نیٹو اور سینٹو ملیشیا کو سوویت یونین کے خلاف کھڑا کیا تھا، اب وہ یہ چاہتا ہے کہ وہی چکر ویو چین کے خلاف شروع کیا جائے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دماغی مشق ہے۔ صدر بارک اوباما ہنری کسنجر کے خواب کو آگے بڑھانا چاہتے تھے اور ایشیاء میں چین کو خصوصی اہمیت دینا چاہتے تھے۔ ابتدائی طور پر ٹرمپ کا رویہ یکساں تھا، لیکن تجارت کے معاملے میں چین کا سخت موقف ٹرمپ کا مسئلہ بن گیا۔ ٹرمپ نے پہلے چین کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا، لیکن پھر چین پر کورونا کی وبا کا الزام لگا کر انہوں نے اس کے خلاف کھلی جنگ کا آغاز کر دیا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ چین کو سبق سکھایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے ٹوکیو اجلاس میں چین پر شدید الزامات عائد کیے۔ انہوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کا نام لے کر کہا کہ اس کے استحصال، بد عنوانی اور ظلم کی بھرپور مخالفت کی جانی چاہئے۔ انہوں نے ہانگ کانگ اور تائیوان کے خلاف ہونے والے مبینہ چینی مظالم کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے 'ہندوستان بحرالکاہل کے خطے‘ (The Indo-Pacific region) کو چینی دبائو سے آزاد کرنے کا نعرہ بھی لگایا۔ انہوں نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے لداخ میں ہونے والے انکائونٹر کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے چین میں کورونا کی وبا کا تمام تر الزام بھی عائد کیا‘ لیکن باقی تین ممالک کے وزرائے خارجہ کی تقاریر میں ان میں سے کسی نے چین کا نام تک نہیں لیا۔ ان میں سے کوئی چین سے بھڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ان کی تقاریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انڈوپیسیفک ریجن میں قانون کی حکمرانی چلنی چاہئے اور سمندری راستے سب کے لئے کھلے ہونے چاہئیں۔ جب یہ چاروں وزرائے خارجہ جاپان کے نئے وزیر اعظم یوشیحید سوگا سے ملنے گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا۔ دوسرے الفاظ میں، اس چوکڑی کے باقی تین ارکان امریکی فٹ پاتھ پر پھسلنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی وجہ سے کورونا دور میں ہوئی اس حالیہ میٹنگ میں کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ ہاں، چینی حکومت نے امریکی موقف کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی تنظیموں کو کسی اور قوم کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے باہمی تعاون بڑھانے پر اصرار کرنا چاہئے۔
بہار: اقتدار نشانہ ہے، اتحاد تو بہانہ ہے! 
بہار کے انتخاب کے بعد کس کی حکومت بنے گی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر دونوں بڑے اتحاد محفوظ اور مستحکم ہوتے تو ان میں سے ایک حکومت تشکیل دے سکتا تھا‘ ایک نتیش کمار اور دوسرا لالو پرساد کا۔ لیکن اب بہار میں چار اتحاد بن چکے ہیں۔ نتیش کمار کے اتحاد میں جے ڈی یو اور بی جے پی ہے اور لالو کے اتحاد میں راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ لالو کے بیٹے تیجشوی یادو کی سربراہی میں لڑے جانے والے ان انتخابات میں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومت بنائیں گے کیونکہ اب بہار کے عوام چار بار کے وزیر اعلیٰ نتیش سے بور ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بڑے بڑے وعدے کیے تھے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔ مرکز میں بی جے پی حکومت کی متعدد پالیسیاں عام لوگوں کو اس قدر پریشان کر چکی ہیں کہ اس کا اثر بہار کے انتخابات میں بھی نظر آئے گا۔ آر جے ڈی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نتیش پر کسی کو بھروسہ نہیں ہے کہ وہ کب کس سے ہاتھ ملا لیں گے؟ انہوں نے 2013 میں بی جے پی سے تعلقات توڑے، آر جے ڈی سے ہاتھ ملا کر 2015 کا الیکشن لڑا اور پھر بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے۔ آر جے ڈی کے ان دلائل کے خلاف مضبوط ترین آہنی دیوار اگر کوئی ہے تو وہ نریندر مودی کی شبیہ ہے۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ وہ اپنی سیٹیں مودی کے نام پر جیتے گی۔ بہار کے لوگ بی جے پی کو اتنی نشستیں جتوائیں گے کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ اس سے ظاہر ہے کہ تب وزیر اعلیٰ بھی ان کی اپنی پارٹی کا ہو گا‘ لیکن وہ ابھی ایسا کوئی دعویٰ نہیں کر رہی ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد یہ اتحاد کیا شکل اختیار کرے گا‘ یہ بھی معلوم نہیں ہے۔ کون سی جماعت کس سے علیحدہ ہو گی اور دوسروں سے ملے گی، کچھ معلوم نہیں۔ ابھی رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی نتیش کی مخالفت کر رہی ہے لیکن بی جے پی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس نے خود کو آزاد رکھا ہے۔ انتخابات کے بعد، جس کا پلڑا بھاری ہو گا وہ اس کی گود میں بیٹھ جائے گا۔ کانگریس اور بی جے پی بہار یا ہندوستان میں کہیں بھی اتحاد نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی دوسری پارٹی موقع کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے گی، کیونکہ اقتدار ہی ان پارٹیوں کے لئے برہم ہے، اتحاد تو متھیہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved