تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-10-2020

سرخیاں، متن، دو کتابیں، حبیب احمد اور یاسمین سحر

بات استعفوں تک نہیں جائے گی، پہلے ہی
حکومت چھوڑ دیں گے: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''بات استعفوں تک نہیں جائے گی، پہلے ہی حکومت چھوڑ دیں گے‘‘ جبکہ استعفوں پر پہلے ہی کوئی رضا مند نہیں ہو رہا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ استعفوں کے بعد الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات کرا دے گا اور ان سیٹوں سے بھی جائیں گے‘ لہٰذا کسی کو پاگل کتے نے نہیں کاٹا ہے کہ سو پاپڑ بیل کر جیتی ہوئی سیٹیں چھوڑ دے اور مستقل طور پر فارغ ہو کر بیٹھ جائے‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ خواہ مخواہ ہمارے استعفوں کا انتظار نہ کرے اور ہمارا بھرم رکھتے ہوئے گھر چلی جائے کیونکہ اسے کیا فرق پڑتا ہے اس نے تو پھر آ جانا ہے، کم از کم ہمارا بھرم تو رہ جائے کہ ہمارے پاس اب یہی تو رہ گیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
پیپلز پارٹی نا اہل ہونے کے ساتھ کرپٹ بھی ہے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی نا اہل ہونے کے ساتھ کرپٹ بھی ہے‘‘ اگرچہ قابلیت کے بغیر کرپشن نہیں ہو سکتی اور اس کے عمائدین نے اسی ضمن میں جس ہُنر مندی کا ثبوت دیا ہے، کرپشن کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے، اگرچہ ہم بھی کچھ ایسے نا اہل نہیں اور اپنی بساط کے مطابق دال دلیا کرتے رہتے ہیں ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
جبکہ وہاں ہر چھوٹا بڑا مولوی مدن ہے اور ہم تو ان کے آگے طفلِ مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں جسے سبق ہی یاد نہیں رہتا جبکہ ان لوگوں نے سارا سبق طوطے کی طرح رٹ رکھا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بیان دے رہے تھے۔
خان کے جانے کا کائونٹ ڈائون شروع : مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے جانے کا کائونٹ ڈائون شروع ہو چکا ہے‘‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کائونٹ ڈائون کرنے والے کافی نالائق واقع ہوئے ہیں کہ الٹی گنتی کی بجائے سیدھی گنتی شروع ہو گئی ہے جبکہ تحریک بھی ایک اچھے خاصے پہاڑ کی طرح نظر آ رہی ہے کیونکہ ہر احتجاجی کو پیسوں کے علاوہ قیمے والے نان کھلانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے اور ہمارے کارکن پولیس کے ڈنڈے کھانے میں بھی یقین نہیں رکھتے اور اس کے علاوہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جیل میں بھی سب کو عام قیدیوں کے ساتھ بیرکوں میں رکھا جائے گا ۔ آپ اگلے روز وزیراعظم کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہی تھیں۔
سارے بیروزگار سیاستدان اکٹھے ہو چکے ہیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''سارے بیروزگار سیاستدان اکٹھے ہو چکے ہیں‘‘ اور بجائے اس کے کہ یہ ہماری روزگار سکیم سے فائدہ اٹھاتے، بیروزگاری میں مزید اضافہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں لگے ہوئے ہیں ‘حالانکہ انہیں نہایت آسان شرائط پر قرضہ بھی دستیاب ہے جس کی شرح سود بھی نہ ہونے کے برابر ہے ‘جبکہ ان کے لیے لنگر خانے بھی خاص ہیں اور پناہ گاہیں بھی اور ہم نے ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کا اہتمام کر رکھا ہے اور اگر یہ چاہیں تو انہیں مرغیوں اور کٹوں کی سہولت بھی بہم پہنچائی جا سکتی ہے، انہیں اور کیا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں انصاف لائرز فورم سے خطاب کر رہے تھے۔
حکمران 23 دسمبر سے پہلے ہی بھاگ جائیں گے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''تحریک شروع کر دی ہے، حکمران 23 دسمبر سے پہلے ہی بھاگ جائیں گے‘‘ کیونکہ میں نے خود دیکھا ہے کہ ان کے ایک وزیر بازار سے جوگرز خرید رہے تھے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس لیے تحریک شروع کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور حکومت کے تحریک سے بھی پہلے بھاگ جانے کا ایک ریکارڈ قائم ہو جائے گا اور ان کا احتساب کا سارا پروگرام دھرے کا دھرا رہ جائے گا جس کے لیے ہماری تگ و دو شروع ہونے والی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے قائد لندن سے واپس آ کر ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں گے اور اس طرح دما دم مست قلندر ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز حمزہ شہباز سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دو کتابیں
دونوں اخباری کالموں کے مجموعے ہیں۔ پہلی محمد اظہار الحق کی تصنیف ''میری وفات‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اسے دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے چھاپا ہے۔ انتساب زینب خان، حمزہ حق، تیمور معاذ اور زرمین حسان کے نام ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر، مختصر تعارف، تصانیف اور اعزازات کا ذکر ہے۔ حرفِ آغاز کے عنوان سے پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے۔ مصنف نے ان تحریروں کو کالم قرار دیا ہے نہ مضامین بلکہ صرف لکھتیں۔
دوسری کتاب ''گمنام گائوں کا آخری مزار‘‘ کے نام سے ہے‘ جس کے مصنف رئوف کلاسرا ہیں۔ اسے بُک کارنر جہلم نے چھاپا ہے اور یہ وہ تحریریں ہیں جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں۔ انتساب اس طرح ہے ''میرے گائوں جیسل کلاسرا کے کمہار چاچا میرو کے نام، چاچا میرو ہی گمنام گائوں کے آخری مزار کا ہیرو ہے‘‘۔ پیش لفظ مصنف کا بقلم خود ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور ان کے قلم سے کتاب کی تعارفی تحریر ہے۔ کتاب کہانیوں کے انداز میں لکھی گئی ہے۔
اور، اب آخر میں کچھ شعر و شاعری:
جز ہمارے بھی بہت سوں کا گزارہ نہیں ہے
شب نہیں ہے تو کوئی چاند ستارہ نہیں ہے
لوگ کہتے ہیں یہ منحوس عمل ہوتا ہے
سو اسی واسطے پیچھے سے پکارا نہیں ہے
آ کے دیکھا تو محبت بھی نہ بے حد نکلی
ہم تو سنتے تھے سمندر کا کنارا نہیں ہے
جون کی دھوپ میں بھی یہ تر و تازہ ہی رہا
پیار پر صرف دسمبر کا اجارہ نہیں ہے
وقت کی بات نہ کر، یہ تو مسافر ٹھہرا
یہ تمہارا بھی نہیں ہے جو ہمارا نہیں ہے
یہ بھی کیا کم ہے کہ احباب نے افسوس کیا
چھوڑ یہ بات کہ سولی سے اتارا نہیں ہے
پیار بنیادی ضرورت ہے کوئی شوق نہیں
دل دھڑکتا ہے تو جز سانس گزارا نہیں ہے (حبیب احمد)
٭...٭...٭
ایک ہی شعر تم پہ کہنا تھا
کتنے صفحات بھر دیئے میں نے
پکڑ رہے ہو یہ میرا ہاتھ میں چھڑا نہیں رہی
گھڑی تمہاری وقت ایک سا بتا نہیں رہی
پھر اس کے بعد تمہیں پیار کرنے والی تھی
یہی گھڑی دو گھڑی میں نے غصہ کرنا تھا
زندگی دیکھ کیسی عجلت میں 
تو نے کچھ فیصلے کرائے ہیں
یہ ملاقات حادثاتی ہے
آپ گنتی میں اس کو مت لائیں (یاسمین سحر)
آج کا مطلع
نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے
یہ گھر بہار کی راتوں میں بے چراغ پڑا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved