اپنے محترم‘ عوامی‘ (اور زور دے کر کہتا ہوں) جمہوری حکمرانوں سے زیادہ شکایتیں کرنا بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے‘ مگر کیا کریں وطنِ عزیز کی سلامتی‘ امن‘ یکجہتی اور استحکام کے خوابوں کا سلسلہ ٹوٹا نہیں۔ کالم لکھنے کے لئے ابھی کاغذ قلم سنبھال ہی رہا تھا کہ ایک دانشور دوست کا فون آ گیا۔ انہوں نے کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد یاد کیا تھا۔ دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ خود پر جو گزر رہی ہو یا گزر چکی ہو‘ اس کو چھوڑ کر وہ معاشرے اور عوام کے دکھوں میں گھرے رہتے ہیں‘ ہر وقت فکر مند‘ پریشان اور ایک انجانے خوف میں مبتلا نہ جانے کیا کیا سوچتے رہتے ہیں۔ ابتدائی کلمات کے بعد ملک کی صورت احوال کے بارے میں تبصرہ ''حالات گمبھیر ہیں‘‘ سے شروع کیا اور وہیں پہ ختم کر دیا۔ سب کچھ ہمارے سامنے اتنا واضح ہے کہ کسی سے مزید بحث و تکرار کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بات بڑھانی ہو‘ وقت ضائع کرنا مقصود ہو یا فون کو کان کے ساتھ لگائے رکھنے کا چسکا ہو تو ہر قسم کے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں‘ ایسا کیونکر ہے؟ کون ذمہ دار ہے؟ کیا ہو گا؟ واقعی بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی ہے؟ کیا سیاسی اکھاڑہ تیار ہے؟ اور کیا اکھاڑ پچھاڑ میں مہارت و نام رکھنے اور شہرت پانے والے اترنے ہی والے ہیں؟
مشاہدہ یہ ہے کہ کہیں بھی اور جب بھی آپ یہ سوال اٹھائیں گے‘ سیاسی لڑائی کا آغاز ہو جائے گا۔ کمزور دل اور طرزِ کہنہ پہ چلنے کا عادی خطرات سے بچنے کی تدابیر سوچتا رہتا ہے۔ خاموشی سے بہتر کوئی اور گُر کسی نے ابھی تک دریافت نہیں کیا۔ آزما کے دیکھ لیں۔ بس کہنے والا جو کچھ کہنے پہ مصر ہے‘ اسے کہنے دیں۔ بات ٹالنا ہو تو تار‘ کھمبے‘ درخت‘ دیوار یا جو بھی چیز سامنے ہو‘ اس پر بیٹھے یا دور فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی طرف اشارہ کر دیں اور بات ٹالنے کی کوشش کریں‘ موضوع بدلنے کی۔ یہ بات میں نے محبتیں‘ دوستیاں اور رشتے قائم رکھنے کی غرض سے کی ہے کہ تقسیم ہمارے معاشرے میں پہلے ہی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہر آدمی حالات سے متاثر لڑائی جھگڑے پہ آمادہ نظر آتا ہے۔ اس بے کنار سیاسی اور سماجی تقسیم کے کئی پہلو ہیں اور ان میں سے کوئی بھی بارودی سرنگ ثابت ہو سکتا ہے۔ برداشت‘ ہم آہنگی اور باہمی احترام کے اچھے زمانوں میں جو سیاسی تبادلہ خیال ہوا کرتا تھا‘ اب اسے مقابل کو حقیر ثابت کرنے اور نیچا دکھانے کے ہتھیار کے طور پر بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ ‘ یورپ اور بھارت میں بھی دانشور سیاسی و سماجی تقسیم اور اس سے معاشرے میں پھیلتی ہوئی زہریلی نفرتوں کا تذکرہ اپنی تحریروں میں کر رہے ہیں۔ اس کا ذمہ دار خاکسار اور دنیا میں پھیلے دیگر سیاست کے طالب علم قومی قیادت کو قرار دیتے ہیں۔ ہمارے ''جمہوری‘‘ رہنمائوں کی زبان‘ کلام اور لہجہ رواداری کا نہیں رہا۔ اب جائز اختلاف اور متبادل رائے بھاری‘ ناگزیر اور کڑوی محسوس ہوتی ہے۔ امریکی صدارتی انتخاب میں تو تقسیم اور نسلیت کے موضوعات پر بحث دانش گاہوں میں نہیں بلکہ سیاست کے کھلے میدانوں اور دور درشنوں کی سکرینوں پر نمایاں ہے۔ لبرل طبقات کا خیال ہے کہ امریکی قوم کو تقسیم کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ قوموں اور معاشروں میں کشیدگی اور نفرت کے بیج بونے کا گھنائونا دھندا عوام نہیں سیاست کے کھلاڑی کرتے ہیں۔
جب ہم سیاسی رہنمائوں کو رہنما صرف سمجھتے نہیں بلکہ بناتے بھی ہیں‘ اور انہیں عزت و احترام کے ساتھ اقتدار کے گھوڑوں پر سوار کرتے ہیں تو توقع یہ ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں امن‘ استحکام‘ ترقی اور خوش حالی کے لئے اپنے آپ کو وقف رکھیں گے۔ جمہوری معاشروں کی حد تک میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ قومی اور عوامی مفاد کے خلاف کچھ کرنے کا شائبہ بھی ابھرے تو عوام ایسی سیاسی قیادت کی جڑیں اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ ہمارے جیسی سیاست کر کے وہ میدان میں جم نہیں سکتے۔ یہاں بھی وہ وقت دور نہیں جب پسے ہوئے عوام جاگ اٹھیں گے اور دنگا‘ فساد کی سیاست کرنے والوں کا پھر کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔ جمود آج کے دور میں ممکن ہی نہیں‘ رفتار سست ہو سکتی ہے۔ اس کان پھاڑ دینے والے شور و غل کے ماحول میں بھی دور رس تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔ سیاست کے اپنے پر نہیں ہوتے‘ اوپر اٹھنے اور اڑنے کے لئے سماجی‘ سائنسی اور اقتصادی طاقت کا سہارا ضروری ہے۔ کچھ نہیں ہوا‘ کچھ نہیں ہو گا‘ کچھ نہیں ہو سکتا جیسے اعلامیے تاریخی حرکیات‘ شواہد اور حقائق کے مطابق نہیں ہیں۔
ظلم تو یہ ہے کہ معاشرے میں کھلم کھلا سیاسی فساد پھیلانے والے‘ مصلح اور عوامی ہونے کے دعوے دار ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ سیاست مل بیٹھنے سے‘ مل کر کام کرنے سے اور اپنی توانائیوں کو ملک کی بہتری اور لوگوں کی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے وقف کرنے سے ممکن ہوتی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ بالکل‘ ہمارا مقصد تو صرف یہی ہے‘ یہ تو دوسرے ہیں‘ جو کچھ بھی نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں سیاست میں یہ فرق اپنی سچائی خود گھڑتا اور منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ جن کے خلاف کرپشن کے بے پناہ اور بے کنار الزامات ہیں‘ کیا واقعی وہ سیاسی ''انتقام‘‘کی بنا پر ہیں؟ اور کیا یہ سچ ہے کہ جو حکومت میں اس وقت شامل ہیں‘ وہ کرپشن میں ملوث نہیں رہے؟ اگر انصاف جانب داری کے پلڑوں میں تُلے گا تو نتیجہ جانب داری ہی ہو گا‘ جو اس وقت سیاست کے بند کمروں سے نکل کر سماج کے ہر حلقے میں پھیل چکی ہے۔ یہ مرض اس حد تک بڑھ جائے‘ تو پھر رواداری اور استحکام معاشرے سے معافی مانگ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔
سیاست کا پہلا اور آخری اصول ایک ہی ہے‘ قانون کی حکمرانی۔ انصاف‘ ہم آہنگی اور استحکام تقریروں اور لمبی باتوں سے قائم نہیں ہوتے۔ قانون کی اصطلاح فطرت سے بنی ہے۔ آئینِ فطرت کا تعلق صرف کائنات کے مادی حقائق سے ہی نہیں‘ انسانی حرکیات اور معاشروں کی ساخت اور ارتقا سے بھی ہے۔ ہم کائنات میں استحکام دیکھتے ہیں۔ یہ سیارہ اپنے مدار پر‘ اپنے وقت کے لحاظ سے‘ اپنی رفتار اور اپنی سمت میں چلتا ہے۔ نہ جانے کب سے نہ رفتار کم ہوئی اور نہ ہی رخ بدلے۔ استحکام ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ طلوع اور غروبِ آفتاب کے اوقات کل کے لئے تیار ہوں گے۔ قانون اور ربط نے فطرت میں یقین اور یکسانیت پیدا کر رکھی ہے۔ مغرب کی ترقی کی راہ دستور نے طے کی ہے کہ ان کے جدیدیت پسند مفکروں نے سیاسی اور سماجی حرکیات کا زار پا لیا تھا۔ کیا اس سے پہلے دنیا کی دیگر تہذیبوں میں دستور کی روایت نہیں تھی؟ بالکل تھی۔ جدید معاشروں کی تشکیل سے پہلے مذاہب نے قانون کا تصور دیا کہ اس کے بغیر ہم آہنگی‘ استحکام اور ترقی ممکن ہی نہیں تھی۔
دستور اور قانون نہ ہوں‘ یہ کمزور ہوں یا کمزور کر دئیے جائیں‘ تو پھر طاقتور لوگوں کی مرضی‘ منشا اور مفاد ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں ایسے مہربان ہر شعبے اور ہر کارِ حیات سے آئے اور ایک بوسیدہ اور متروک بادشاہی تصور ''میں قانون ہوں‘‘ جمہوری اور ترقیاتی لبادوں میں لپیٹ کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی رہی۔ ہمارے سب طاقتور ماضی اور وقت کے موجود ''مدار‘‘ میں رہ کر قانون کے مطابق چلنے میں گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں کہ لوٹ کھسوٹ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ نہ جانے کب سے یہ قوم بحرانوں کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ نکلنے کا راستہ قانون‘ احتساب اور جواب دہی میں ہے۔ بات تو چل نکلی ہے‘ لوٹ مار کرنے والے پھر وہیں جائیں گے جہاں خزانے چھپا رکھے ہیں۔ ہم سوئے رہے تو وقتاً فوقتاً ہمیں اپنی ''رہنمائی‘‘ سے سرفراز کرتے رہیں گے۔