تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     12-10-2020

پبلک ہیلتھ اور سیاست کاری

وبا‘ بلا اورامتحان آجائے تو پورا سماج ہی اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اجتماعی‘ قومی ذمہ داری کے اس احساس کو کووڈ 19 نے ساری دنیا میں ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے‘ لیکن ان کا کیا کیا جائے جو یہ مانتے ہی نہیں کہ کورونا بھی کوئی بیماری ہے۔ ایک تیسرا طبقہ بھی تو ہے جس کا خیال تھا کہ سب کچھ بند کر دیا جائے۔ شہر‘ قصبے‘ دکانیں‘ فیکٹریاں‘ محلے‘ فارمیسی اور ہسپتال بھی۔ 22 کروڑ لوگوں کے پورے ملک میں 100 فیصد کرفیو لگا ہو یا پھر بے رحمانہ لاک ڈائون۔ ایسا زوردار لاک ڈائون جس کا تجربہ مودی نے دہلی سے چنائے تک کر لیا اور ہمارے اپنے صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ صاحب نے لانڈھی سے لاڑکانہ تک ایسا ہی تجربہ دہرا ڈالا۔ مودی جانے اور اس کا کام جوکہ اب ساری دنیا میں بھارت کے لیے تماشا بن چکا ہے۔ اپنے ہاں سمارٹ لاک ڈائون کا مذاق اُڑانے والوں نے کراچی کے پانچ ڈسٹرکٹ میں سمارٹ لاک ڈائون کی منی یا مائیکرو قسم ڈھونڈ نکالی‘ لیکن جس حکومت اور انتظامیہ نے کورونا وائرس کی دوسری لہر کو روکنے کے لیے مائیکرو سمارٹ لاک ڈائون کراچی کے شہریوں پر لاگو کیا ہے اُسی حکومت اور انتظامیہ نے خود اپنے صوبے کے کارکن اکٹھے کرکے سمارٹ لاک ڈائون کے پڑوسی ڈسٹرکٹس کے اندر ماسک ڈائون کرکے سیاسی ریلی نکالی۔ اس ریلی کو آدھا دن تک شہر کراچی کی سڑکوں پر بے وجہ گھسیٹا گیا۔ فنِ حکمرانی کا ایسا بے مثال ماڈل ایک علیحدہ سے عالمی ریکارڈ کہلائے جانے کے قابل ہے۔ آدھے شہرِ کراچی میں لوگوں کو گھر سے باہر آنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ آدھے شہر میں لوگوں کو گھروں سے بلا کر کرائوڈ بڑھانے کے لیے سرکاری وسائل استعمال ہوتے رہے۔ اب اس شہر کے شہری اتنا پوچھنے کا تو حق رکھتے ہیں کہ سندھ میں 13 سال سے برسر اقتدار پی پی پی نے کس تھرمامیٹر کے ذریعے سے معلوم کیا کہ کراچی کا آدھا شہر کووڈ 19سے متاثر ہوگیا ہے اور باقی آدھا شہر کورونا فری زون بن چکا ہے۔
اب آیئے ذرا اسلام آباد کی طرف جہاں پہ این سی او سی نے آئی سی ٹی کی انتظامیہ کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں کورونا کی دوسری لہر پر تفصیلی بریفنگ سُنی‘جس میں بتایاگیا تھا کہ شہر کے 10سکول کورونا پازیٹو میں اَپ ٹرینڈ کی وجہ سے سیل کر دیئے گئے ہیں۔ سمارٹ لاک ڈائون لگانے اور مانیٹر کرنے کے لیے پولیس حرکت میں آگئی ہے۔ پارک اور کمرشل ایریاز میں ماسک پہنانے کے لیے پٹرولنگ ٹیمز بن گئی ہیں۔ شہر کے اے سی ڈی سی‘ شاپنگ مال اورمیرج ہال چیک کر رہے ہیں۔ کچھ کو سیل کیا گیا‘ جبکہ کچھ پر جرمانہ عائد کیا۔ مغربی اسلام آباد ایریا کے سیکٹر ز G-9اور G-10میں سمارٹ لاک ڈائون پھر سے لگایا گیا ہے۔نواز شریف کے اشتہاری ہونے کے حکم نامے پر ڈھول بجانے کی طرز پر اسلام آباد کی مارکیٹوں میں انتظامیہ شور مچائے گی اور کریک ڈائون کرے گی۔ ایسی شریفانہ حرکت کو فوجداری قانون کی زبان میں''اشتہارِ شور و غوغا‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ 
خواتین و حضرات ‘یہ ہیں پاکستان کے دومرکزی شہروں سے حاصل ہونے والے سرٹیفائیڈ سرکاری اعدادو شمار۔یہ فِگرز بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا کا خطرہ نہ تو ٹلا ہے اور نہ ہی کہیں واپس چلا گیا ہے‘بلکہ کئی طرف سے بے احتیاطیوں کی وجہ سے یہ خطرہ ابھی تک ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ قوم کو اس وبا کی مصیبت سے نکالنے کے لیے سندھ کی حکومت اور پنجاب کی اپوزیشن نے ایک ایسا اعلیٰ منصوبہ پیش کیا ہے جس کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مے فیئر اپارٹمنٹس میں بیٹھ کر نواز شریف صاحب پاکستان کے گلی کوچوں میں کورونا کے خلاف نئی جنگ چھیڑ رہے ہیں۔ تین ‘ چار دن بعد کورونا کو بھگانے کے لیے اس منصوبے کا افتتاح گوجرانوالہ میں ہو گا‘ جہاں پر سندھ کی حکومت (پی پی پی) خیر سگالی کے طور پر اور پنجاب کی اپوزیشن (مسلم لیگ نون) اپنے کارکنوں کے کندھے ایک دوسرے سے ملوا کر MSLDیعنی مائیکرو سمارٹ لاک ڈائون کا عملی مظاہرہ کریں گی۔ 
گوجرانوالہ کے شہریوں کے لیے ایک اور بڑی خوش خبری یہ ہے کہ سندھ کی حکومت اور پنجاب کی اپوزیشن کے اس مشترکہ پروجیکٹ کے ذریعے پنجاب‘کے پی‘اسلام آباد‘سندھ‘اے جے کے اور ہو سکا تو جی بی سے لوگ گوجرانوالہ بسوں‘ ویگنوں اور ٹرکوں پر لاد کر لائے جائیں گے۔ آدھا دن یا پونا دن یہ بن بلائے مہمان پورے شہر میں گھومیں پھریں گے‘پارکوں میں جائیں گے‘مارکیٹوں سے کھابے کھائیں گے ‘پھر کھلے عام اور گلیوں میں باقی نیچرل ضروریات پوری کریں گے۔ اس سارے عرصے میں ووٹ کو عزت دینے اور آئین کی بالا دستی کیلئے کووڈ19 احتراماً ان سب سے دور تماش بین بن کر کھڑا رہے گا‘ بالکل ویسے ہی جیسے ''قائد ِانقلاب‘‘ جناب نواز شریف صاحب کے دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز احتیاطاً ووٹ کو عزت دینے والے اس جلسے سے سات سمندر دور رہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اتحادی سیاست کے گُرو اور پی پی پی کے شریک چیئر مین بھی احتیاطاً ہی اس ووٹ کو عزت دینے کی بھیڑ میں شامل ہونے سے گریز کریں گے۔
اگلے روز سوشل میڈیا پہ غیر حاضر انقلاب کے مفرور قائد نواز شریف صاحب کی ایک انقلابی میڈیا ٹاک کا ویڈیو کلپ لندن سے وائرل ہوا۔ کلپ کے کانٹینٹ کی طرف جانے سے پہلے اس پر ایک شہری کا ظالمانہ کمنٹ آپ سے لفظ بہ لفظ شیئر کرتا ہوں۔شہری نے کہا: ''حکومت میں تھے تو اردوان بن گئے‘جیل میں گئے تو منڈیلا بن گئے‘ملک سے بھاگ نکلے تو امام خمینی بن گئے۔بڑے میاں صاحب ‘خدا کا واسطہ ہے ایک بار پاکستانی شہری بن کر دیکھ لیں‘انقلاب شہری ہی لے کر آتے ہیں‘‘۔
پارک لین لندن میں پاکستانی رپورٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف صاحب نے فرمایا : ''میرے نوجوانو!میرے بچو!تم نے ڈرنا بالکل نہیں۔ باہر سڑک پر نکلو۔ یہ زیادہ سے زیادہ تم سے کیا کرسکتے ہیں؟ تم لوگوں کو گرفتار کرلیں گے۔گھبرانے والی کوئی بات نہیں ۔جیل جانے سے ہرگز ڈرنا نہیں ہے‘‘۔ بعض کم علم لوگ نوازشریف صاحب کے اس تازہ فرمان ِشاہی پر خواہ مخواہ دو سوال اُٹھا رہے ہیں۔
پہلا سوال یہ کہ نوا ز شریف صاحب نوجوانو اور میرے بچو کہہ کر کس کو سڑک پر آنے کے لیے بلا رہے تھے؟اپنے دونوں بیٹوں کو؟اپنے بھتیجے کو؟یا پھر لندن والے داماد کو؟ظاہر ہے یہ ایک بے معنی سوال ہے ‘ بلکہ بہت ہی بے معنی۔ نواز شریف صاحب کے یہ فرسٹ بلڈ ریلیشن والے بچے اُن کے ساتھ ہی عدالتی مفرور ہیں اور مے فیئر میں خیریت سے ہیں اور پاکستان میں انقلاب کی خیریت چاہتے ہیں‘ اس لیے ظاہر ہے قائدِ انقلاب صاحب سڑک پر آنے‘کورونا کو شکست دینے اور انقلاب لانے کا مطالبہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر غریبوں کے بچوں سے کر رہے ہیں۔
دوسرافضول سوال یہ اُٹھایا جارہا ہے کہ اگر جیل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور بہادر لوگ جیل سے گھبراتے شبراتے نہیں ہیں تو پھر نواز شریف صاحب واپس آکر عدالتی قید کا باقی حصہ جیل میں کیوں نہیں کاٹ لیتے؟ اس سوال کا جواب بہت آسان ہے اور وہ یہ کہ جس خاندان نے اتنی زیادہ قربانیوں کے ذریعے قوم کے لیے اپنے آشیانے دبئی‘جدّہ‘لندن ‘امریکہ وغیرہ میں بنائے ہیں‘وہ ان لوگوں کے لیے واپس آکر جیل کیوں چلے جائیں جن کے پاس امریکہ‘ جدّہ‘ دبئی اور لندن کے ویزے ہی نہیں ہیں۔ ایئر ٹکٹ خریدنے کے لیے خرچہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لیے یہ انقلاب پبلک ہیلتھ سیکٹر میں سیاست کاری کے ذریعے سے برپا ہو رہا ہے‘جس کے لیے تھرڈ پارٹی سے رینٹ اے کرائوڈ اور قیادت بالکل مفت میں ملے ہیں۔
دل‘ جگر‘ نظر سب تماشائی
تیرے جانے سے کیا بہار آئی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved