مولانا اشرف علی تھانوی کے نام اور مقام سے ایک زمانہ واقف ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں دو ہی حضرات کو حکیم الامت کہہ کر پکار اگیا، ایک حضرت مولانا اور ایک علامہ اقبال… دونوں کی دنیا اپنی تھی۔ مولانا تھانوی مفسر تھے، مقرر تھے، عالم تھے، صوفی اور پیر تھے۔ ان کے باقاعدہ مریدوں کا حلقہ قائم تھا، لیکن علامہ اقبال ایک اور ہی دنیا کے باسی تھے، جدید تعلیم پائی، فلسفی کے طور پر مشہور ہوئے او رشاعر کے طور پر اپنا سکہ چلایا۔ نہ پیری کا دعویٰ کیا، نہ کسی کو بیعت کی اجازت دی، نہ کوئی خلیفہ مقرر کیا، لیکن ان کے الفاظ نے مسلمان قوم میں ایک نیا جوش و خروش بھر دیا۔ اسے ایک نئی منزل کا نشان دے دیا۔ ان دونوں حضرات کا تحریک پاکستان سے گہرا تعلق ہے، مولانا تھانوی نے بھی متحدہ قومیت کے تصور کو کبھی قبول نہ کیا، ان کے حلقے کے علماء نے پاکستان کو حقیقت بنانے کے لئے تن اور من کی بازی لگادی… مگر یہ تفصیل پھر کسی وقت سہی۔ مولانا بلا کے واعظ تھے۔ ان کی خوش بیانی سننے والوں کو مسحور کردیتی، دور دور سے لوگ کھنچے چلے آتے اور دل کا دامن بھر لیتے… ان کا یہ واقعہ برسوں پہلے پڑھا تھا کہ ایک بار وعظ کی ایک محفل میں جاتے ہوئے یہ خیال گزرا کہ میں کتنا بڑا مقرر ہوگیا ہوں۔ اپنی اس صلاحیت پر دل ہی دل میں ناز کررہے تھے۔ دوسرے علماء کے مقابلے میں اپنی برتری کا احساس بھی شاید پیدا ہوگیا ہو… امتیاز کے نشے میں سرشار جلسہ گاہ میں پہنچے، منبر پر بیٹھے، عربی خطبہ پڑھا، اردو تقریر کا آغاز کرنے لگے تو پتہ چلا کہ الفاظ تو ذہن سے غائب ہوچکے ہیں۔ کچھ توقف کیا، پھر عربی خطبہ پڑھا اور تقریر کو ازسر نو شروع کرنے کی کوشش کی تو پھر یہی اطلاع ملی کہ کوئی لفظ ذہن کے کسی گوشے‘ کونے میں موجود نہیں۔ کوئی مضمون سوجھ رہا تھا، نہ خیال… بڑے سٹپٹائے کہ یہ کیا ہوا۔ دل کڑا کر کے ایک بار پھر عربی خطبے کی طرف متوجہ ہوئے اسے کچھ طول بھی دیا ہوگا، لیکن سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرکے کوئی لفظ ادا نہ کرپائے۔ دلوں کو کھینچنے والے الفاظ تو کیا، بغدادی قاعدے کے حروف بھی یاد نہیں آرہے تھے۔ ناچار گویا ہوئے کہ صاحبو، یہاں آتے ہوئے راستے میں اپنی خطابت پر کچھ نازاں سا ہوگیا تھا۔ لگتا ہے یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی، اس نے قوت گویائی سلب کرلی ہے۔ نہ کوئی خیال سوجھ رہا ہے، نہ لفظ زبان پر آرہا ہے۔ اس لئے معاف کیجئے آج تقریر نہیں کرسکتا… یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے… اپنے رب کے حضور گڑ گڑائے ہوں گے، آنسو بہائے ہوں گے کہ بعدازاں ان کی صلاحیت ان کو لوٹا دی گئی۔ قومی اسمبلی میں جاوید ہاشمی کی تقریر سن کر یہ قصہ بار بار یاد آیا ہے ۔ جاوید بلند پایہ مقرر ہیں۔ لفظوں کا استعمال خوب جانتے ہیں۔ زبان کے ساتھ ساتھ قلم پر بھی قدرت حاصل ہے۔ جیل میں لکھی گئی ان کی دو کتابیں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرچکی ہیں۔ ڈائری زیر طبع ہے، چھپ کر سامنے آئے گی تو ‘‘زندانی لٹریچر‘‘ میں یہ بھی ایک اضافہ ثابت ہوگی۔ وہ طالب علمی ہی کے زمانے میں اپنی تقریری صلاحیتوں کو منوا چکے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی یونین کے سیکرٹری رہے، صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ان کی پرجوش تقریریں آج بھی لاہور کی فضائوں میں گونجتی ہیں۔ آغا شورش کاشمیری نے انہیں منظوم ہدیۂ تحسین پیش کرکے ان کی ٹوپی میں ایک بڑے سے پر کا اضافہ کردیاتھا۔ وہ تقریر کو اشعار سے مزین نہیں کرپاتے لیکن شعری ذوق رکھتے ہیں۔ اردو ادب ضرورت سے کچھ زائد ہی پڑھ لیا ہوگا ۔ مفاد کی سیاست نہیں کرتے، بھائو تائو ان کی سرشت میں نہیں ہے۔ جذباتیت غالب آ سکتی ہے، لیکن ’’مفادیت‘‘ نہیں۔ غلط فیصلہ کرسکتے ہیں، غلط قدم اٹھا سکتے ہیں لیکن بدنیتی کی بنیاد پر نہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی بہادری ہے۔ آنکھیں بند کرکے چھلانگ لگا سکتے ہیں لیکن آنکھیں کھول کر چیخ پکار نہیں کرتے۔ اپنے کئے کی سزا (یا جزا) بھگتنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ نوازشریف سے ان کو خصوصی رشتہ رہا ہے۔ ان کی قیادت میں طویل اننگ کھیلی ہے اور ان کے قائم مقام کے طور پر پرویز مشرف کا عذاب جھیلا ہے۔ ناکردہ گناہی میں پانچ سال جیل بھگتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں وہ سینئر نائب صدر تھے اور کارکنوں میں نوازشریف کے بعد کسی اور شخص کو وہ عزت حاصل نہیں تھی جو ان کو تھی۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کا اعلان کیا تو بہت سوں کو چکرا دیا… تحریک انصاف میں ان کا سفر ناخوشگوار نہیں رہا۔ اس کے صدر منتخب ہوئے اور چیئرمین عمران خان کے بعد کارکنوں میں ان ہی کی محبوبیت اور مقبولیت دیکھنے میں آتی رہی ۔ جاوید نے 2008ء کے انتخاب میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں سے کامیابی حاصل کی تھی، ان کی اس کامیابی کو مسلم لیگ ن کے حلقے ، ان کی ذاتی نہیں بلکہ جماعتی کامیابی سمجھتے تھے …اور بعض تو طعنہ بھی دے گزرتے تھے۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ ملتان اور اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو ان کا اطمینان دیدنی تھا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو یہ پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ اس کی مدد کے بغیر جیت سکتے ہیں۔ تحریک انصاف والے اس کو اپنی جیت قرار دے لیں تو یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ جاوید ہاشمی کی جماعت نے قومی اسمبلی کی تیس نشستیں جیتی تھیں، لیکن انہیں نوازشریف کے مقابلے میں ’’وزیراعظم‘‘ بننے کے لئے کھڑا کردیاگیا۔ انجام ہر ایک کو معلوم تھا لیکن پھر بھی مقابلہ ہورہاتھا…جب نوازشریف کو قومی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت نے اپنا وزیراعظم چن لیا تو ان کے حریف بھی ان کے بعد تقریر کے لئے پکارے گئے ۔ مخدوم امین فہیم نے اپنا رنگ باندھا اور جاوید ہاشمی اپنا رنگ لے کر آئے۔ پہلا جملہ ہی یہ سرزد ہوگیاکہ ’’میاں نوازشریف کل بھی میرے لیڈر تھے اور آج بھی ہیں‘‘ … سننے والوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ تحریک انصاف کے صدر کو یہ کیا ہوگیا۔ کہنا وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ نوازشریف آج ملک بھر کے وزیراعظم ہیں میں بھی ان کو اپنا وزیراعظم سمجھتا ہوں… یا کہتا ہوں، لیکن کہہ کچھ اور گزرے۔ تقریر ختم ہوئی تو بھونچال آگیا۔ تحریک انصاف کے جیالے حرکت میں آگئے۔ سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو گیا، تبصرہ نگاروں اور کالم نگاروں نے آسمان سر پر اٹھالیا… جاوید ہاشمی کو دھچکا پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن پھر پیچھے ہٹنا پڑا۔ اپنے الفاظ واپس لئے اور اپنے ناقدوں کو خاموش کرانے میں لگ گئے… ان پر طرح طرح کی پھبتیاں کسی گئیں۔ دوست کالم نگار بھی چڑھ دوڑے ۔ جگہ جگہ پوچھا جارہا ہے کہ یہ ہو اکیا ہے ؟ لگتا ہے کہ جاوید ہاشمی اپنی انتخابی کامیابی پر دل ہی دل میں اترا رہے ہوں گے، کچھ اپنی پیٹھ بھی تھپکی ہوگی، اپنی صلاحیتوں پر ناز بھی کیا ہوگا۔ الفاظ عطا کرنے والے نے انہیں اپنے وجود کا احساس دلا دیا۔باغی سے تازہ بغاوت خود اپنے خلاف سرزد ہوگئی۔ اگر مولانا تھانوی کے الفاظ غائب ہوسکتے ہیں تو جاوید ہاشمی کے الفاظ خلط ملط کیوں نہیں ہوسکتے؟ طرح طرح کے نکتے ڈھونڈنے والے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی کسی سے اور کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ ’’میں‘‘ کا کیڑا کسی بھی دماغ میں گھس سکتا ہے اور کسی کا بھی سرنیچا کرکے دکھا سکتا ہے۔ اس لئے، صاحبو، اپنی اپنی’’میں‘‘ پر قابو پائو، یہ تمہیں بھی نیچا دکھا سکتی ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved