تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-10-2020

بے ہنگم زندگی اور بدگوئی کا عذاب

شہرِ قائد کا ماحول اب اِس دنیا کا نہیں رہا۔ بہت کچھ تھا جو پسندیدہ تھا مگر نہیں رہا اور دوسرا بہت کچھ ہے‘ جو کسی بھی درجے میں پسندیدہ نہیں مگر یوں ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک دور تھا کہ زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ سیکھنے کے لیے اس شہر سے اکتسابِ فیض کرنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ شہر کا مجموعی ماحول اس قدر شائستہ تھا کہ شہر سے باہر کے لوگ دیکھ کر حیران ہوتے تھے۔ علم و فن سے دلچسپی عام تھی اور لوگ عمومی سطح پر قدرے بلند ہوکر زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ شہر کے بعض علاقے علم و فن کے حوالے سے نمایاں تھے۔ ان علاقوں میں شعر و سخن کی باتیں ہوتی تھیں، علم و فضل کے حصول پر توجہ دی جاتی تھی۔ عمومی گفتگو میں لوگ علمی موضوعات چھیڑتے تھے اور کسی نہ کسی درجے میں اِن موضوعات کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ افسوس کہ وہ ماحول نہ رہا، وہ زمانہ گزر گیا۔ اور جو کچھ رہ گیا ہے اُس کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے دل ہی دُکھتا ہے۔ دُکھنا ہی چاہیے کہ اب ہمارے نصیب میں جو کچھ بچا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے عمومی اجتماعی مفاد کا نہیں۔ معاملات صرف خرابیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پیچیدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحول میں بیزاری اور بے حسی نمایاں ہے۔ کوئی بھی تھوڑی سی توجہ سے اندازہ لگاسکتا ہے کہ فضا میں مایوسی کا تناسب بہت زیادہ ہے‘ گویا لوگوں کا اپنے ہی وجود پر یقین نہیں رہا۔
کسی بھی معاشرے میں جب حالات بگڑتے ہیں تو حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کے حواس بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ حواس باختگی بڑھتی جاتی ہے اور یہ عمل زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اگر تادیر برقرار رہے تو فہم و خرد سے کام لینے والوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے اور وہ لوگ واضح اکثریت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو زندگی کا معیار بلند کرنے پر کسی بھی حوالے سے یقین رکھتے ہیں نہ کوئی اُمید۔
کراچی اِس وقت ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہے جس میں بیزاری اور بے حسی نمایاں ہے۔ علم و فن سے لگاؤ خطرناک حد تک کم ہوچکا ہے۔ عمومی سطح پر ایسی باتیں کم ہی سُنائی دیتی ہیں جن سے اندازہ ہو کہ لوگ معاشرے سے کچھ بلند ہوکر جینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ زندگی کا معیار بلند کرنے والے معاملات پر گفتگو کرنا اب لوگوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ گفتگو تو تب ہو جب ایسا سوچا جائے۔ جب معیاری زندگی بسر کرنے کا سوچا ہی نہیں جارہا تو گفتگو کس مد میں ہو۔
سرِدست کراچی کی فضا میں آکسیجن کم اور شکوے شکایتیں زیادہ نظر آتے ہیں۔ جب کسی ماحول میں زندگی سے تنگ آئے ہوئے افراد کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہے تب ایسا ہوتا ہے۔ کراچی چونکہ پاکستان کا حصہ ہے اس لیے جو کچھ پورے ملک میں ہے‘ وہی کراچی میں بھی ہے۔ باقی ملک کا عام آدمی جن مسائل سے دوچار ہے اُنہی مسائل سے کراچی کا عام آدمی بھی دوچار ہے۔ پورے ملک میں جو مایوسی اور بیزاری پائی جاتی ہے وہی کراچی میں بھی ہے۔ زندگی جب مسائل سے نبرد آزما رہنے میں گزر رہی ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ تو کسی بھی درجے میں حیرت انگیز بات نہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس وقت باقی ملک کے مقابلے میں کراچی میں عمومی طرزِ زندگی زیادہ پیچیدہ ہے۔ لوگ بے ذہنی کو بروئے لاتے ہوئے جینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ سوچنے کی عادت ترک کردی گئی ہے۔ جب سوچ ہی کو پروان نہ چڑھایا جائے تو معاملات بہتر انداز سے عمل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ بدگوئی صرف حالات کے ستائے ہوئے افراد کا نہیں بلکہ ان کا بھی وتیرہ بن گئی ہے کہ جو بظاہر اچھی مالی حیثیت کے مالک ہیں مگر عادت سے مجبور ہیں یعنی شائستگی اور شعور کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
شہرِ قائد میں نئی نسل جس انداز سے جی رہی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ رشک تو کیا ہو‘ قابلِ قبول اور قابلِ ذکر بھی نہیں۔ نئی نسل کی پوری توجہ صرف ایک امر پر مرکوز ہے... وہ یہ کہ زندگی جیسی نعمت کو کسی نہ کسی طور ضائع کردیا جائے یعنی ٹھکانے لگادیا جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قبیح عمل میں تیزی آتی جارہی ہے۔ عمر کا بہترین حصہ یوں ضائع ہوتے دیکھ کر ہر اُس انسان کو دکھ ہونا چاہیے جس کے دل میں بالعموم پوری قوم کا اور بالخصوص نئی نسل کا درد پایا جاتا ہے۔
کراچی میں ایک زمانے سے رات رات بھر جاگنے کا رجحان برقرار ہے۔ یہ رجحان اب اس حد تک پروان چڑھ چکا ہے کہ اِس سے ہٹ کر زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے دوران اُن کا حال کورونا کے مریضوں سے بھی بدتر رہا جو رات بھر گھر سے باہر، دوستوں کے ساتھ بتیانے کے عادی ہیں! شہر بھر میں رات بھر کھلے رہنے والے چائے پراٹھے کے ہوٹل نئی نسل کو پُرسکون نیند سے دور کرنے میں نمایاں طور پر گھناؤنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ چند برس پہلے معاملہ یہ تھا کہ بیس بائیس سال تک کے نوجوان ہوٹلوں پر دکھائی دیتے تھے۔ اب پندرہ سولہ سال کے لڑکے بھی رات بھر ہوٹلوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ رجحان اس قدر پنپ چکا ہے کہ والدین بھی بے بس سے دکھائی دے رہے ہیں۔ نئی نسل منشیات کی عادی ہو اِس سے کہیں بُری چیز تو یہ ہے کہ وہ رات بھر جاگ کر وقت اور توانائی ضائع کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔ رات کی پُرسکون نیند سے محروم رہنے والے عملی زندگی کے لیے بہت حد تک ناموزوں و ناکارہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس وقت کراچی میں لاکھوں نوجوانوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ راتیں جاگ کر گزارنے کی خصلت کے باعث دن بھر کام کرنے کی بھرپور صلاحیت سے محروم رہتے ہیں۔
غیر فطری انداز سے زندگی بسر کرنے والے معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ عذاب کیا کم تھا کہ اب بدگوئی بھی زندگی کا حصہ ہوکر رہ گئی ہے۔ راتوں کو جاگنے والوں کے چہرے نُچڑ سے جاتے ہیں۔ پنجاب اور ملک کے دیگر دیہی علاقوں میں شام کو جلد کھا پی کر رات کے ابتدائی حصے ہی میں سو جانے کی پختہ عادت پائی جاتی ہے، یہ عادت زندگی کو متوازن رکھتی ہے۔ جلد سونے والے جلد بیدار بھی ہوتے ہیں۔ اور فی زمانہ سویرے بیدار ہونا بھی اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ہے۔ جو رات گئے تک کسی جواز کے بغیر گھروں سے باہر رہیں وہ اللہ کی اس نعمت سے کس طور بہرہ مند ہوسکتے ہیں؟
کراچی میں نئی نسل اخلاقیات کے لحاظ سے جس بحرانی کیفیت کا شکار ہے اُس کی ذمہ داری بہت حد تک والدین پر عائد ہوتی ہے جنہیں بظاہر اولاد کی تعلیم سے کچھ غرض رہی ہے نہ تربیت سے۔ بے شعوری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی عادت ایسی پروان چڑھی ہے کہ والدین اب اولاد کے لیے کچھ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پرورش یعنی کھانے پینے اورکپڑے لَتّے کا انتظام کردینا ہی کافی ہے۔ یقینا اتنا کافی نہیں ہے۔ اولاد کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے والدین کو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ ڈھنگ سے جینا بچوں کا کھیل نہیں‘ یہ ہنر ہے جو سیکھنا پڑتا ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ اپنے معمولات بھی درست کریں اور بچوں کو بھی ڈھنگ سے جینے کے اطوار سکھانے پر متوجہ ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved