گزشتہ دنوں کراچی میں ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی سرِ راہ وفات کی خبر آئی ۔ وہ برسوں پرانے ماڈل کی کار کو خود ڈرائیو کررہے تھے کہ آخری وقت آن پہنچا۔ دل نے مزید کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے۔ یہ جنرل مظفر حسین عثمانی تھے۔ 12اکتوبر1999ء کے اہم کردار۔ تب وہ کراچی کے کورکمانڈر تھے اور کراچی وہ ایئر پورٹ تھا جہاں سری لنکا سے آنے والے جہاز کو لینڈ کرنا تھا‘ جس میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف تھے‘ پرواز کے دوران ہی جن کی برطرفی کاوزیر اعظم اعلان کرچکے تھے۔
''کارگل‘‘ کے حوالے سے وزیر اعظم اور آرمی چیف میں پیدا ہونے والی بدمزگی اور بداعتمادی موجود تھی۔ اگرچہ شہبازشریف اور چودھری نثارعلی خان اعتماد کی بحالی کے لیے ہر کوشش کرگزرے تھے ۔ اس میں بڑے میاں صاحب (محمد شریف مرحوم) کی کاوش شامل تھی۔ لیکن وہ جو کہا جاتا ہے۔
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
تو یہاں بھی یہی معاملہ تھا۔ ہاتھ تو مل گئے تھے‘ دل نہیں ملے تھے۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ پہلا وار کون کرتا ہے؟ جنرل مشرف سری لنکا روانگی سے قبل تمام ضروری اقدامات کرگئے تھے۔ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز ‘ کور کمانڈر راولپنڈی جنرل محموداوروائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل علی جان اورکزئی ان کے معتمد ترین رفیق تھے۔ جنرل(ر) شاہد عزیز کی کتاب '' یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں ساری تفصیل موجود ہے۔ کرنل (ر)اشفاق حسین کی کتاب ''Witness to Blunder‘‘بنیادی طور پر کارگل کے مس ایڈونچر پرہے۔ 12ا کتوبر 1999ء اس کا آخری باب ہے‘ جسے کرنل نےThe Longest Dayکاعنوان دیا ہے۔ کرنل اشفاق حسین کی ساری سروس مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کی ہے‘ وہ بریگیڈیئر(ر) صولت رضا کے کولیگ تھے۔ صولت رضا بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے‘اشفاق حسین کرنیلی میں ریٹائر ہوگئے۔ اشفاق عسکری ادب کا بڑا نام ہے۔ ان کا اپنا خاص اسلوب ہے۔ جنٹلمین بسم اللہ ،جنٹلمین الحمد للہ،جنٹلمین اللہ اللہ اورجنٹلمین سبحان اللہ ان کی معروف اور مقبول کتابیں ہیں۔ ''فاتح سبونہ‘‘ میجر شبیر شریف شہید(نشانِ حیدر) پر معرکہ آرا کتاب ہے۔
12اکتوبر 1999ء کو کرنل اشفاق کراچی میں تھے۔ وہ اس روز کے نازک ترین لمحات کے عینی شاہد ہیں۔12اکتوبر کی کارروائی کو جنرل مشرفCounter Quo کہتے تھے۔ آرمی چیف کی برطرفی کا وزیر اعظم کا حکم ان کے خیال میں QUOتھا۔ جنرل عزیز اور جنرل محمود گالف کھیل رہے تھے‘ جب انہیں چیف کی برطرفی کی خبر ملی۔ دونوں جنرل محمود کے گھر پہنچے۔ جنرل پرویز مشرف نے کراچی کے ہوائی اڈے پر اترنا تھا اور ترپ کے پتے کور کمانڈر جنرل عثمانی کے ہاتھ میں آگئے تھے۔ جنرل عزیز نے جنرل عثمانی کو فون کیا۔ جنرل عثمانی کا جواب تھا کہ جنرل مشرف جو ہدایات دے گئے تھے ‘ اُن پر عملدرآمد کیا جائے‘‘۔ اس کے بعد جنرل عثمانی کو ''نئے آرمی چیف ‘‘ جنرل ضیا الدین کا فون آیا کہ وہ ایئر پورٹ پر جنرل مشرف کو ریسیو کریں ''سابق ‘‘ آرمی چیف کو پورے پروٹوکول کے ساتھ آرمی ہائوس لائیں( جہاں آرمی چیف کراچی میں قیام کے دوران ٹھہرتے ہیں)۔ انہیں ایئر پورٹ پہنچنا ہی تھا‘ راستے میں تھے کہ جنرل محمود کا دوبارہ فون آیا۔ اس یقین دہانی کے بعد کہ جنرل عثمانی ان کے ساتھ ہیں ‘ انہوں نے راولپنڈی میں کارروائی کا آغاز کردیا تھا۔ جنرل عثمانی نے ملیر گیریژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل افتخار کو فون پر ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر ایئر پورٹ پہنچیں‘اپنے فوجی دستوں کو حرکت میں لائیں اور ایئرٹریفک کنٹرول کا چارج سنبھال لیں۔ اس دوران جنرل عثمانی بھی ایئر پورٹ پہنچ گئے تھے۔ ایئر ٹریفک کنٹرولر یوسف عباس نے بتایا کہ انہیں ہدایت ہے کہ جنرل مشرف کا طیارہ نواب شاہ بھجوائیں۔ جنرل افتخار نے ایئر کنٹرولرسے کہا کہ وہ پائلٹ سے ان کی بات کروائیں۔ پائلٹ ثروت حسین سے ان کی بات ہوئی تو پتہ چلا کہ دبئی جانے کی ہدایت کی گئی تھی‘ لیکن جہاز میں اتنا ایندھن موجود نہ تھا؛ چنانچہ انہیں نواب شاہ جانے کے لیے کہا گیا اور وہ اب نواب شاہ کے راستے میں تھے۔ جنرل افتخار نے پائلٹ کو نواب شاہ کی بجائے کراچی آنے کے لیے کہا۔ پائلٹ کی اطلاع پر جنرل مشرف کاک پٹ میں آگئے۔ انہوں نے کنٹرول ٹاور میں موجود جنرل افتخار کی آواز پہچان لی‘ لیکن مزید احتیاط کے طور پر ان سے اپنے کتوں کے نام پوچھے: ''ڈاٹ اینڈ بڈی‘سر!‘‘ جنرل مشرف مطمئن ہوگئے اور پوچھا: جنرل عثمانی کہاں ہیں؟ جنرل افتخار نے بتایا کہ وہ بھی ایئر پورٹ پر ہیں اور حالات کنٹرول میں ہیں۔ جنرل مشرف نے پائلٹ سے کراچی اترنے کو کہا۔ قائد اعظم انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے بعدسب سے پہلے جو شخص باہر آیا وہ جنرل مشرف تھے‘ جنرل عثمانی نے انہیں سلیوٹ کیا۔ مشرف ابھی تک گومگو کی کیفیت میں تھے۔ انہوں نے جنرل عثمانی سے پوچھا کہ ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ ہیں‘ کیا وہ بھی طیارے سے باہر آسکتی ہیں؟ جنرل عثمانی نے اپنے سٹاف افسر میجر ظفر کو ہدایت کی وہ جائیں اور چیف صاحب کی اہلیہ کو لے آئیں۔ جنرل عثمانی جنرل مشرف کو لے کر وی آئی پی لائونج میں آگئے۔ جنرل مشرف واش روم میں گئے‘ واپس آئے اور نشست سنبھالی تو جنرل عثمانی نے مذاقاً کہا:مجھے ہدایت ملی ہے کہ آپ کو گرفتار کرلیا جائے‘‘۔ جنرل مشرف پریشان ہوگئے۔ جنرل عثمانی مسکرائے اور کہا: سربے فکر رہیں۔ حالات قابو میں ہیں‘‘ ۔ دونوں باہر آئے۔جنرل مشرف گاڑی میں بیٹھے جنرل عثمانی نے ساتھ والی سیٹ سنبھالی۔ جب وہ کور(5)ہیڈ کوارٹر کی طرف روانہ ہوئے تو گاڑی پر چیف آف آرمی سٹاف کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ جنرل عثمانی نے جنرل عزیز اور جنرل محمود سے رابطہ کیااور بتایا کہ چیف بخیریت وعافیت ہیں۔ جنرل ضیا الدین کو حراست میں لے لیاگیا۔ انہیں بتایا گیا کہ اب بھی جنرل پرویز مشرف ہی چیف آف آرمی سٹاف ہیں۔ جنرل ضیا الدین کو ویسٹریج راولپنڈی میں بریگیڈ111لے جایا گیا جہاں وہ660روز قید تنہائی میں رہے۔
اور اب جنرل مشرف کے قوم سے خطاب کی کہانی‘ کرنل اشفاق کی زبانی: معلوم ہوا کہ جنرل پرویز مشرف قوم سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ ٹی وی کی بندنشریات کھل گئی تھیں۔ اب قوم کو جنرل صاحب کے خطاب کی اطلاع دینا تھی‘ لیکن سوال یہ تھا کہ اس کے لیے سلائیڈ پر کیا لکھا ہو؟ ''چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘‘؟ لیکن ابھی تک کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ ہم نے ہدایت کی کہ سلائیڈ پر صرف یہ لکھا ہوگا کہ چیف آف آرمی سٹاف قوم سے خطاب کریں گے۔ ہم ریٹائرنگ میں گئے‘ جہاں جنرل مشرف دوسرے افسران کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جنرل عثمانی نے تمام کور کمانڈروں سے جنرل مشرف کو فون پر بات کروادی تھی اور وہ اپنی کمان نئے سرے سے قائم کر چکے تھے۔ رات کے ایک بج کر چالیس منٹ ہوئے تھے جب جنرل صاحب کی تقریر کی ریکارڈنگ مکمل ہوئی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا تقریرسے قبل قومی ترانہ بجایا جائے گا؟ رات دو بج کر45منٹ پر تقریر قومی ترانے کے بغیر نشر ہوئی۔ جنرل صاحب‘ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی بجائے ''چیف ایگزیکٹو‘‘ بن گئے تھے۔ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی کراچی کور(5)نے حکومت کی تبدیلی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ جنرل مشرف کو جنرل عثمانی کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا‘ لیکن اقتدار کے کھیل کے اپنے قواعدہوتے ہیں۔بعد ازاں جنرل عثمانی کو ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ دیا گیا اور 2002ء میں وہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔