تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     14-10-2020

سڑک بند کرنے پرروک

سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایسا فیصلہ دیا ہے جس کی وجہ سے اب انتہا پسند ہندوئوں سمیت تمام مظاہرین اور احتجاجیوں کو سنبھل کراحتجاج کرنا پڑے گا۔ شاہین باغ میں ہمسایہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کے بارے بنائے گئے قانون کے خلاف کئی ہفتوں تک دھرنا جاری رہا۔ اگر کورونا کی وبا کا خطرہ نہ ہوتا تو سینکڑوں شاہین باغات ہندوستان میں پھل پھول جاتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ قانون بہت احمقانہ تھا۔ وہ ہمسایہ ممالک کے مسلمان مہاجرین کے سوا سب کا خیرمقدم کرتا تھا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ مہاجرین میں مذہب اور ذات کی تفریق کیوں؟سپریم کورٹ نے بھی کسی احتجاج ‘ دھرنے اور جلوس کی مخالفت نہیں کی ہے۔ انہوں نے آئین میں دی گئی آزادیٔ اظہارِ رائے کی بھی مکمل حمایت کی ہے ‘ لیکن انہوں نے ایسے مظاہروں ‘ دھرنوں اور جلوسوں کو غلط قرار دیا ہے ‘ جو عام لوگوں کی زندگیوں کی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاہین باغ کی ہڑتال کی وجہ سے دہلی میں ایک مصروف سڑک مکمل طور پر تعطل کا شکار ہوگئی ۔ تین چار مہینوں تک لوگوں کو بہت چکر لگا کر اپنی منزل تک جانا پڑا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ شاہین باغ کے دھرنے کا کوئی مستقل رہنما نہیں تھا اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی وجہ سے مختلف اقسام کے لوگ وہاں جمع تھے۔ یہاں ہڑتال شروع کرنے والی خواتین کو خیمے میں محدود کردیا گیا تھا ‘ لیکن لوگوں نے سڑکوں پر ہر جگہ اپنے اڈے بنالیے تھے۔ سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ‘ جس کے تحت اس نے مقدمے کو پہلے ہی دن معلق چھوڑدیا تھا۔ اس کا ماننا ہے کہ حکومت کو ایسی ہڑتالوں کے خاتمے کیلئے فوری طور پر سرگرم ہونا چاہئے۔ اس طرح کے احتجاج کو زیادہ دیر تک نہیں رہنے دینا چاہئے۔شاہین باغ کا نعرہ لگانے والی خواتین کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں جنتر منتر جانے کی اجازت نہیں دی اور شاہین باغ میں ان کے پاس 500 میٹر سے زیادہ کا دائرہ نہیں تھا۔ پولیس کے محاصرے کی وجہ سے وہاں سڑک بلاک ہوگئی تھی۔ہمارا مقصد لوگوں کاراستہ روک کر انہیں مشکل میں ڈالنا نہیں تھا۔ انہوں نے عدالت کے فیصلے کے احترام کی بات بھی کی ہے ‘ لیکن بہتر ہوتا اگر عدالت ایسے مظاہروں پر پابندی لگاتی‘ ساتھ ہی مذہبی جلسوں‘جلوسوں ‘ کتھاؤں اور ناچ گانوں کے پروگراموں کے بارے میں بھی کچھ کہتی جو کئی ہفتوں تک جاری رہتے ہیں اور عوامی سطح پر چلتی سڑکوں‘ چوراہوں اور بازار وں کاراستہ بندکردیتے ہیں۔
بھارت میں ٹی آر پی کا غلط استعمال
ہندوستان کے ٹی وی چینلز کی حالت زار پر میں نے کچھ دن پہلے لکھا تھا کہ جب میں نے 50 سال قبل پہلی بار امریکہ میں ٹی وی دیکھا تھا تو ایک امریکی خاتون نے مجھے بتایا تھا کہ یہ فول باکس یعنی بے وقوف بنانے والاباکس ہے۔ میں اسے نہیں دیکھتی ہوں‘ اب ہندوستان میں کچھ ٹی وی چینلز جس طرح رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اس سے امریکیوں کا یہ فول باکس ہمارے لئے شاک باکس یعنی تکلیف دینے والاباکس کہلائے گا۔ممبئی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تین ایسے ٹی وی چینلز کو پکڑا ہے جنہوں نے اپنے ناظرین کو ظاہر کرنے کیلئے دھوکہ دہی کرکے غلط کام کیے ہیں۔ تینوں ٹی وی چینلز پر الزام ہے کہ انہوں نے جعل سازی کرکے اپنے ناظرین کو بڑھاچڑھاکرپیش کیا اور اس دھوکہ دہی کے ذریعے انہوں نے بڑی رقم کمائی۔ واضح رہے کہ جس چینل کے دیکھنے والوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی ہے ‘ اتنے ہی زیادہ اشتہار انہیں ملتے ہیں۔ وہ ایجنسی جس کے ذریعے ان چینلز نے یہ دھوکہ دہی کی ‘ پولیس نے اس کے ملازمین کے قبضے سے 28 لاکھ نقد رقم برآمد کی ہے۔ یہ رقم ان ناظرین کو دی جانی تھی جو اپنے ٹی وی بکس کو خاص چینل کیلئے چوبیس گھنٹے کھلارکھتے ہیں ‘ چاہے وہ انہیں دیکھیں یا نہ دیکھیں۔ ایسے بہت سے ناظرین کو خاص ٹی وی چینل دیکھنے کیلئے بطوررشوت 700‘ 500‘ 400 روپے ہر ماہ دیے جاتے تھے۔ انگریزی ٹی وی 'ریپبلک‘ بہت سے ایسے گھروں میں چوبیس گھنٹے دیکھاجارہاتھا جس میں کوئی انگریزی نہیں جانتا تھا۔ اس سازش کا ان ناظرین نے خود انکشاف کیا ہے۔ ممبئی پولیس نے ان چینلز کے مالکان کو گرفتار کرلیا ہے۔ 'ریپبلک ٹی وی‘ کے مالک ارنب گوسوامی کا کہنا ہے کہ 'ریپبلک ٹی وی‘پر الزامات جھوٹے ہیں۔ ان چینلز پر دفعہ 120 ‘ 409 اور 420 لگائی جائیں گی اور اگر الزامات ثابت ہوگئے تو انہیں سات سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ مشتہر ین بھی ان چینلز سے اپنی رقم کی وصولی کیلئے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔ یہ صحافت پر بہت بڑا بدنما داغ ہے۔
خوشی غمی کا پیمانہ
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان پر ایک بڑی بحث چل رہی ہے کہ اگر دنیا میں سب سے زیادہ مطمئن مسلمان ہیں تو ہندوستان کے مسلمان ہیں۔ یہ بات کسی مسلم رہنمایاقائدکی طرف سے کہی جاتی توبات کچھ اور ہوتی۔ آج سے لگ بھگ 10 سال پہلے ‘ جب دبئی میں میری ایک تقریر کے دوران اچانک میرے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ ہمارے مسلمان دنیا کے سب سے اچھے مسلمان ہیں ‘ تب مجھے سامعین میں بیٹھے بہت سے عرب شیخوں کے چہروں پر شدید تناو ٔدیکھ کر دلیل دینا پڑی کہ اسلام کے نئے نظریہ کے ساتھ ساتھ ‘ ہزاروں سالوں کی ہندوستانی ثقافت ان کی شریانوں میں سرایت کر چکی ہے۔ ان دونوں کا ملاپ انہیں بہترین مسلمان بنا دیتا ہے‘ لیکن موہن بھاگوت کی دلیل کی بنیاد دوسری ہے اور وہ بھی قابلِ غور ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہندوستان میں ہندوستانی مسلمان اقلیت ہیں۔ ذرا ان کا موازنہ ان ممالک کے مسلمانوں سے کرو جہاں وہ اقلیت میں نہیں۔ عیسائی ‘ بودھ ‘ یہودی اور کمیونسٹ ممالک میں بھی مسلمان رہ رہے ہیں۔ پچھلے 50 سالوں میں مجھے ایسے درجنوں ممالک میں تعلیم حاصل کرنے اور رہنے کا موقع ملا ہے۔ میں ان کی مقامی زبانیں بھی جانتا ہوں۔ ان کے ساتھ بہت ملاقاتیں اور بات چیت ہوئی ہے۔ میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ جہاں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں ‘ ان کی زندگی مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ مسلمانوں کی پسماندگی اور غربت ہے ‘ لیکن ایک بڑی وجہ ان ممالک کی اکثریت کے مابین گہری نفرت اور بیگانگی ہے۔ میں نے سوویت یونین کی متعدد مسلم ریاستوں کا دورہ کیا‘ وہاں میں نے دیکھتا کہ روسی آقاؤں کے ذریعے ازبک ‘ تاجک ‘ قازک ‘ کرغیز اور ترکمانوں کو غلام بنایاگیا۔ فرانسیسی مسلمانوں پر مختلف پابندیوں کا ذکر کرچکاہوں۔ 1501ء میں سپین کی مہارانی ازابیلا نے یا تو وہاں کے 5‘6 لاکھ مسلمانوں کامذہب تبدیل کرا یا یاجلا وطن کردیا یا انہیں ہلاک کردیا۔ جاپان میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان ہیں ‘ لیکن وہاں تبدیلی مذہب پر گہری نظر ہے۔ ان غیر مسلم ممالک میں کبھی بھی کوئی سربراہ مملکت مسلمان نہیں ہوا ہے ‘ لیکن ہندوستان واحد غیر مسلم ملک ہے جس میں بہت سے صدور ‘ نائب صدور اور گورنرز ‘ وزرااور وزرائے اعلیٰ مسلمان رہے ہیں۔ تعجب کی بات نہیں کہ ہندوستان کا وزیر اعظم بھی کسی دن مسلمان ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان میں اوسطاً مسلمان بہت خوش ہیں۔ ان کی حالت بھی ایک غریب ہندو یا عیسائی یا سکھ جیسی ہے۔ کسی کی بدحالی اس کے مذہب کی وجہ سے نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved