تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     14-10-2020

خواتین اضطراب کا شکار کیوں؟

کچھ واقعات اور سانحات زندگی بدل کر رکھ دیتے ہیں اور یہی موٹروے ریپ کیس کے بعد ہوا کہ ہر عمر کی خواتین پریشانی کا شکار نظر آتی ہیں۔ ڈر‘ خوف اور پریشانی نے بہت سی خواتین کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ معاشرہ ان کیلئے کتنا غیر محفوظ ہے۔ ہر کوئی فکرمند ہے کہ نجانے کب اور کہاں کسی درندے کا سامنا کرنا پڑ جائے کیونکہ ایک دم سے ریپ کیسز میں شدت آ گئی ہے۔ اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے‘ یہاں کی پولیس اور امن و امان کی صورت حال‘ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کافی بہتر ہے۔ خواتین آرام سے امورِ زندگی انجام دیتی ہیں مگر موٹروے سانحے کے بعد سے ہر کوئی بے چینی محسوس کر رہا ہے۔ میں اور میری بہن‘ ایک روڈ پر سفر کر رہے تھے، سڑک پر ٹریفک بہت کم تھی کہ اچانک ایک گاڑی ہمیں فالو کرنے لگی، گاڑی میں بیٹھا مرد کچھ اشارے بھی کر رہا تھا لیکن ہم اس کی طرف دیکھنے سے کتراتے رہے۔ ہم نے سوچا کہ ہو سکتا ہے یہ خواتین کو ہراساں کرتا ہو‘ کوئی چور ہو‘ جو خواتین سے موبائل اور پرس وغیرہ چھین لیتا ہو۔ میں نے اپنی بہن سے کہا کہ تم کوئی دوسر راستہ اختیار کر لولیکن یکایک وہ اپنی گاڑی ہماری گاڑی کے بالکل آگے لے آیا اور اونچی آواز میں بولا: باجی آپ کی سائیڈ کا دروازہ ٹھیک سے بند نہیں۔ ہم حیران و پریشان رہ گئے کہ ہم تو اس کو چور‘ ریپسٹ اور نجانے کیا کیا سمجھ رہے تھے اور وہ ہمیں حادثے سے بچانا چاہتا تھا۔ ایک سانحے نے ہماری سوچ کتنی بدل دی ہے کہ ہم سب پر شک کرنے لگے ہیں۔ خیر‘ اس شخص کو شکریہ کہا اور گاڑی کا دروازہ ٹھیک طرح سے بند کر لیا۔ بعد میں ہم سوچتے رہے کہ ہوگیا ہے ہمیں، خدا کا شکر بھی ادا کیا کہ کسی بدتمیز شخص سے پالا نہیں پڑا اور ہم حادثے سے بھی بچ گئے۔
یہ صورتحال‘ یہ بے چینی، فکرمندی اور غیریقینی بہت سی خواتین بھی محسوس کر رہی ہیں۔ بہت سی خواتین ٹیکسی سروس نہیں لے رہیں، بہت سی اکیلے سفر کرنے سے کترا رہی ہیں۔ معمر خواتین ہوں‘ ورکنگ لیڈیزہوں‘ سکول‘ کالج جانے والی بچیاں ہوں یا کوئی اور‘ ایک انجانا خوف سب کو لاحق ہے کہ نجانے کب کیا ہو جائے۔ ان کو اردگرد موجود تمام لوگوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ موقع پا کر ان پر حملہ آور ہو جائیں گے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے، بہت سے لوگ اچھے بھی ہیں‘ جو دوسری خواتین کو بھی وہی عزت اور وقار دیتے ہیں جو اپنے گھر کی خواتین کو دیتے ہیں، لیکن صورتحال یہ ہے کہ خواتین ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں کہ مرچوں والا سپرے کہاں سے ملے گا، کرنٹ لگانے والا آلہ کس دکان پر دستیاب ہے؟ کیا اسلحہ خرید لیں؟ لائسنس کیسے ملے گا؟ کیا ہمیں گاڑی میں ڈنڈا رکھ لینا چاہیے؟ کیا پرس میں چاقو ہونا چاہیے؟ کیا ہمارے لئے معاشرہ محفوظ ہے؟ یہ سب باتیں سوچ کر خواتین تذبذب کا شکار ہیں۔
سانحات ہم پر منفی اثر مرتب کرتے ہیں اور ہم خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال موٹروے ریپ کیس کے بعد بھی پیدا ہوئی ہے اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ایسے دالخراش واقعات پیش آ چکے ہیں‘ جیسے کراچی میں پانچ سالہ بچی کو ریپ کے بعد جلا کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دینا یا چارسدہ میں ڈھائی سال کی بچی کو ریپ کے بعد ایسے قتل کرنا کہ اس کی لاش ہی مسخ کردینا، جن سے تکلیف اور بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں ریپ کا ایک واقعہ نربھا کیس کے نام سے مشہور ہوا‘ جس میں چلتی ہوئی بس میں لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، اسی طرح حالیہ دنوں میں ایک ٹورسٹ کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا، ایک واقعے میں ایک 86 سالہ دادی کا ریپ کیا گیا، جو کیس آج کل سب سے زیادہ زیر بحث ہے وہ ہاتھرس کیس ہے جس میں نچلی ذات کی ایک لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو اب لوگ ریپستان کہنے لگے ہیں۔ کیا ہم بھی اس طرف بڑھ رہے ہیں؟ ہم ایک اسلامی مملکت کے باسی ہیں‘ کیا ہوگیا ہے ہمیں؟ ہمارے مذہبی اور معاشرتی اقدار کیوں یکایک مفقود ہونے لگے ہیں؟ کیوں ہم دین اور اخلاقیات سے اتنے دور ہو گئے ہیں کہ معاشرے کے مرد‘ ہر عورت اور بچے پر حملہ آور ہونے لگے ہیں۔ اس حوالے ماہرینِ سماجیات، ماہرینِ نفسیات، ڈاکٹرز اور علما کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
بہت سے لوگ خواتین کو اکیلے باہر جانے سے منع کر رہے ہیں، کچھ لوگ ان کے لباس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ ان کو شام کے بعد باہر نہیں نکلنا چاہیے، کوئی ان کو نوکری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ میرا ان سب سے سوال ہے کہ اگر یہی وجوہات مسئلے کی اصل جڑ ہیں تو پھر بچے‘ بچیوں کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس وقت ہمیں متاثرہ افراد میں خامیاں تلاش کرنے اور جھوٹے بہانے تراشنے کے بجائے ریپسٹ کی سوچ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس جرم کا ارتکاب کیوں کر رہا ہے؟ کیا اس میں دینی تعلیم کی کمی ہے یا اس میں سماجی اخلاقیات کا شعور نہیں، کیا اس کو گھر سے تربیت نہیں ملی؟ یہاں پر حکومت اور تھنک ٹینکس کو سوچنا ہو گا کہ ریپ کا سدباب کیسے کیا جائے۔ نوجوان لڑکے اور مرد اپنے موبائل فون میں کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا اس کی وجہ فحش ویب سائٹس اور وڈیوز تو نہیں؟ اکثر سٹیج ڈراموں‘ ٹک ٹاک وڈیوز اور فلموں میں عورتوں کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کا سر شرم سے جھک جائے، یہ سب دیکھ کر ایک عام صارف ہر عورت کو ویسا ہی سمجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ بند ہونا چاہیے۔
حال ہی میں پی ٹی اے کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی گئی ہے‘ بہت سی افراد بشمول خواتین نے جان بوجھ کر اپنی عریاں تصویر اس ایپ پر لیک کیں تا کہ ان کے فالورز بڑھیں۔ اس سب کے ایک عام شخص پر بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ہر طرح کے فحش مواد پر پابندی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ مردوں کو بھی اس بات کی تلقین کرنی چاہیے‘ بالخصوص جمعے کے خطبات میں‘ کہ ان کی سماجی اور مذہبی حدود کیا ہیں۔نیز نکاح کو عام کیا جانا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں نکاح کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں برائی پھیل رہی ہے۔ اٹھارہ سال کے بعد لڑکے اور لڑکی رضامندی کے ساتھ ان کا نکاح کر دینا چاہیے۔ تعلیم‘ کیریئر اور جہیز جیسی فرسودہ رسومات کے نام پر بچوں کو بوڑھا کر دیا جاتا ہے‘ جو سراسر ناانصافی ہے؛ تاہم یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ بہت سے ریپ کیسز میں مجرم شادی شدہ بھی ہوتے ہیں، اس کے پیچھے کیا سوچ کارفرما ہے‘ اس پر طبی ماہرین، ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ سماجیات بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
ہمیں ریپ پر بات کرنا ہو گی‘ چاہے وہ ٹی وی ہو‘ سوشل میڈیا ہو‘ مسجد ہو یا سیمینار‘ کیونکہ اس کی وجوہات اور اس کے سدباب پر روشنی ڈالنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم بات نہیں کریں گے تو یہ جرم معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گا۔ متاثرہ افراد کی جسمانی تکلیف تو کچھ عرصے میں ختم ہو جاتی ہے لیکن نفسیاتی کرب اور ذہنی دکھ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے اور اس وجہ سے محض ایک فرد نہیں پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔ صد شکر موٹروے ریپ کیس کا مرکزی ملزم پکڑا گیا ہے‘ اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ دوسروں کیلئے نشانِ عبرت ہو۔ اگرچہ میں ہمیشہ پھانسی کی مخالف رہی ہوں مگر جہاں بچے‘ بچیوں کو نوچاجانے لگے‘ وہاں گدھ نما انسانوں کی سزا صرف اور صرف پھانسی ہونی چاہیے۔
خواتین‘ جو ایسے سانحات سے متاثر ہوئی ہیں‘ کی بحالی کیلئے کام کرنا ہوگا، انہیں یہ یقین دلایا جائے کہ معاشرہ ان کیلئے محفوظ ہے۔ ہم سب کو ایک دوسرے کا خیال کرنا ہوگا خواتین مل کر بھی بہت کام کر سکتی ہیں، جہاں مناسب لگے اکیلے چلی جائیں لیکن جہاں یہ محسوس ہو کہ اکیلے جانا مناسب نہیں‘ تو کسی کو ساتھ لے کر جائیں۔ مرد اور خواتین‘ دونوں اپنے لئے اخلاقی حدود کا تعین کریں۔ ہم سب کو مل کر معاشرے کو ٹھیک کرنا ہوگا، یہ انفرادی نہیں اجتماعی ذمہ داری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved