تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-10-2020

دل کو یوں آگ لگاؤں کہ دھواں بھی نہ ملے!

یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک بار پھر ملک بھر میں مہنگائی کی لہر آگئی ہے۔ مہنگائی جاتی ہی کب ہے کہ آئے گی۔ یہ تو دم بہ دم ہے، ہر دم ہے۔ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد سے اشیائے خور و نوش کے دام آسمان کو چھونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آٹا، تیل، گھی، دالیں، سبزیاں، گوشت، پھل سبھی کچھ تو مہنگا ہے۔ کوئی ایک آئٹم بھی ایسا نہیں جس کی قیمت کو معمول کے مطابق قرار دیا جاسکے۔ یا پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ سبھی کچھ معمول کے مطابق ہے کیونکہ مہنگائی کا بڑھتے رہنا بھی اب معمول ٹھہرا! دکھ اگر ہے تو بس اِسی بات کا کہ مہنگائی کو زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے کہ یہ تو ہوگا۔
تمام بنیادی اشیا کی قیمتیں بے قابو ہیں مگر کسے ہوش ہے؟ جہان بھر کی آئیں بائیں شائیں ہو رہی ہے‘ اگر نہیں ہو رہی تو بس مہنگائی کی بات نہیں ہو رہی۔ مہنگائی کا جن اب بوتل میں واپس جانے کو کسی بھی طرح تیار نہیں۔ یہ عفریت اب اِس طور رقص کر رہا ہے کہ عام آدمی کا ڈھنگ سے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ بلندتر معیارِ زندگی کی بات تو رہنے ہی دیجیے‘ اب عوام کو دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کے لیے سو پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ ایسے میں عوام کی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاملات بہتر بنانے کی راہ ہموار ہو۔ اس حوالے سے ایک بڑی تحریک لازم ہے۔ اگر یہ تحریک نہ چلائی گئی تو معاشرہ سوچ سے محروم رہے گا اور یوں اُسے ناکامی کے گڑھے سے نکالنے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِسے المیہ کہیے یا طُرفہ تماشا کہ رائے عامہ کو مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کرنے کے بجائے غیر متعلق باتوں میں الجھایا جارہا ہے۔ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹادی گئی ہے۔ وقتی تقاضوں سے بہت دور‘ ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے جس سے صورتِ حال میں کوئی بھی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔
عوام کو ڈھنگ اور سکون سے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ ایسے میں وہ سیاستدانوں ہی کی طرف دیکھتے ہیں تاکہ مہنگائی اور بیروزگاری پر قابو پانے کی کوئی صورت نکلے مگر سیاستدانوں کا بھی عجیب ہی حال ہے۔ ان کے شب و روز کچھ یوں گزر رہے ہیں کہ دیکھنے والے حیران ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ جس قوم کے غم میں گھلنے کا ناٹک کرتے ہیں اُس قوم کی خفیف سی بھی پروا نہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ احتساب کے عمل سے کسی کو استثنا نہیں دے گی۔ دوسری طرف اپوزیشن ہے کہ وہ ہر ناموافق اقدام پر سیاسی انتقام کا الزام عائد کرتی ہے۔ نہ حکومت کا دعویٰ نیا ہے نہ اپوزیشن کا الزام۔ ہمارے ہاں ایک زمانے سے یہی تو ہوتا آیا ہے۔ آج بھی اہلِ سیاست ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ موقع ملتے ہی پگڑیاں بھی اچھالی جاتی ہیں۔ قوم کے مسائل اپنی جگہ مگر کیا کیجیے کہ اہلِ سیاست کو اپنی پڑی ہے۔ جو قوم اُنہیں ووٹ دے کر منتخب ایوانوں تک بھیجتی ہے‘ اُسے یوں نظر انداز کردیا گیا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ حیرت زیادہ ہونی چاہیے یا افسوس۔
المیہ یہ ہے کہ عوام کیلئے انتہائی بنیادی اشیا و خدمات کی فراہمی بالکل سامنے کا مسئلہ ہے مگر اس کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا۔ فضا ایسی ہے کہ اس حوالے سے کچھ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی۔ بجلی، گیس، پانی، اشیائے خور و نوش اور دیگر بہت سی بنیادی سہولتوں کا حصول یقینی بنانے پر عوام کو اتنا کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے کہ اب ان کی استعدادِ کار شدید متاثر ہو رہی ہے۔
حالات کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر کچھ کیا جائے۔ اصلاحات کا عمل محض شروع نہیں کرنا بلکہ تیزی سے آگے بھی بڑھانا ہے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی روش عام ہے۔ ایسی حالت میں ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ یہ کام تو فوراً شروع کرنا ہے اور مستقل بنیاد پر کرتے جانا ہے۔ لاک ڈاؤن کے ممکنہ اثرات کے بارے میں جو اندازے قائم کیے گئے تھے وہ بہت حد تک درست ثابت ہوئے ہیں۔ معیشت کی خرابیوں نے عام آدمی کیلئے جینا دوبھر کردیا ہے۔ اس وقت معاشرے میں بہت حد تک نفسا نفسی کا عالم ہے۔ نفسا نفسی خیر کب نہیں تھی‘ مگر لاک ڈاؤن نے اس کا گراف بہت بلند کردیا ہے۔ متعدد شعبوں کو لاک ڈاؤن نے شدید نقصان پہنچایا ہے‘ چند ایک نئے شعبے ضرور سامنے آئے ہیں جن کے ذریعے لوگوں کو روزگار بھی ملا ہے مگر مجموعی طور پر بیروزگاری بڑھی ہے۔ یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والوں کیلئے حالات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔
حکومت کی بات تو جانے ہی دیجیے کہ اُس سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں، اصل رونا اس بات کا ہے کہ عوام میں حقیقی مطلوب شعور اب بھی نہیں پنپ رہا۔ شعور زندگی کی بنیاد ہے اور وہی مفقود ہے۔ عام آدمی کو جس حد تک سنجیدہ ہونا چاہیے‘ وہ اُس سے بہت کم بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا۔ جب معاملات بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی تو وقت، جس کا کام ہی گزر جانا ہے، محض ضایع ہوتا رہتا ہے۔ زندگی جیسی نعمت کو پوری سنجیدگی سے برتنے پر مائل نہ ہونے والوں کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمیں بھی ویسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ یہ بہت حد تک ''صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے / عمر یونہی تمام ہوتی ہے‘‘جیسی کیفیت ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ تو بعد کی منزل ہے۔ پہلے تو زندگی کو برقرار یا سلامت رکھنے کی بات کیجیے۔ یہ وقت تو سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنے میں کھپ جانے کا ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے پر زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں کچھ سوچا جائے گا۔ معیاری زندگی یقینی بنانے کے لیے سادگی بنیادی شرط ہے۔ لاک ڈاؤن نے ایک اچھا موقع دیا تھا کہ لوگ سادگی سے شادی کی تقریبات نمٹالیں۔ کچھ لوگوں نے ایسا کیا بھی مگر مجموعی طور پر سوچ یہی رہی کہ لاک ڈاؤن ختم ہو تو خوب دھوم دھام سے شادی کی جائے۔
ہم اس وقت جس بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں اُس سے بہت پہلے ہی دنیا بدل چکی ہے۔ عالمی و علاقائی حالات کے نتیجے میں معیشت و معاشرت کا حلیہ تبدیل ہوچکا ہے۔ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے زیادہ محنت کی جائے۔ اضافی آمدنی یقینی بنانا اب کم و بیش ہر پاکستانی کے لیے لازم ہوچکا ہے مگر اس کا احساس کم ہی لوگوں کو ہے۔ اپنے وقت اور استعدادِ کار کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لاکر ہی کچھ کیا جاسکتا ہے۔ وقت، وسائل اور مواقع کا ضیاع روکنے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں کیا جارہا۔ قوم مجموعی طور پر پوری زندگی کو تباہی سے دوچار کرنے کی روش پر گامزن ہے۔ کوشش یہ ہے کہ ؎
میری برباد محبت کا نشاں بھی نہ ملے
دل کو یوں آگ لگاؤں کہ دھواں بھی ملے
یہ سلسلہ زیادہ دیر اور زیادہ دور چل نہیں سکتا۔ خود کو برباد کرنے کی روش کسی بھی اعتبار سے مستحسن قرار نہیں دی جاسکتی۔ یہ وقت قومی سطح پر بیداری کی تحریک شروع کرنے کا ہے۔ اہلِ سیاست سے تو کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ ایسے میں اہلِ علم ہی کچھ کریں تو کریں۔ لکھنے والوں کا فرض ہے کہ قوم پر اُس کی خامیاں واضح کریں۔ بہلانے پھسلانے والی باتیں نہیں چلیں گی۔ حقیقت پوری کی پوری بیان کی جائے تاکہ لوگ اپنی خامیوں کو شناخت کرکے اصلاحِ احوال پر مائل ہوں۔ عام آدمی کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اُس کی زندگی شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اور اگر اُس نے اصلاحِ احوال پر خاطر خواہ توجہ نہ دی تو سب کچھ مزید بگڑتا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved