تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     16-10-2020

عام آدمی کی طاقت

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نون لیگ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے آج اپنی طاقت کا پہلا مظاہرہ کرے گی۔ مولانا فضل الرحمن ان کا بھرپور ساتھ دینے کاارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے مولانا گزشتہ برس لاہور سے ہوتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ تب مولانا کو نون لیگ نے لاہور میں لفٹ نہیں کروائی تھی یہاں تک کہ نوازشریف نے یہ کہہ کر ملاقات سے انکار کردیا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ پس پردہ معاملات طے کیے جارہے تھے اورمولانا کی جدوجہد کے نتیجے میں نوازشریف لندن روانہ ہوگئے‘ مریم بی بی کا بھی لندن جانا طے پایا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ تمام شرائط پوری کی گئیں‘ خاموشی اختیار کی گئی‘ ٹویٹر کو ساکت کردیا گیا لیکن پھر بھی لندن نہ جایا جاسکا‘ لہٰذا ایک بار پھر جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پہلے جلسے کے لیے گوجرانوالہ کا انتخاب کیاگیا ہے جو کہ نون لیگ کا گڑھ تصور کیاجاتا ہے۔ لاہور، فیصل آباد، شیخو پورہ اور سیالکوٹ سے بھی سیاسی کمک منگوائی جائے گی لیکن زیادہ انحصار مقامی آبادی پر ہوگا کہ کتنے لوگ جلسہ گاہ پہنچتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی شرکت صرف قیادت کی حد تک ہو سکتی ہے اس سے زیادہ کی توقع کرنا حماقت ہوگی کیونکہ زرداری ہسپتال جاچکے ہیں اور وہ کسی غیر متعلقہ سے رابطہ نہیں کرنا چاہتے۔ چونکہ وہ معاملات کو بہت بہترسمجھتے ہیں اس لیے اپنی صحت پر توجہ دینے کو ترجیح دی‘ بہرحال آج تو صرف ابتدا ہے۔ نون لیگ عوام کا ردعمل دیکھے گی‘ جوش و جذبہ دیکھے گی اور پی ڈی ایم کے خلوص کا جائزہ لے گی کہ کون کتنا ان کے ساتھ ہے۔ میری اب بھی یہی رائے ہے کہ فی الحال حکومت گرانا صرف مولانا اور شریف خاندان کا مسئلہ ہے۔ انہیں اس دوران جب بھی کوئی اچھی ڈیل ملی وہ خاموش ہوجائیں گے۔ رابطے اب بھی کیے جارہے ہیں‘ آسانیوں اور رعایتوں کی درخواستیں میز پر موجود ہیں لیکن تاحال وہ کْچھ نہیں مل پارہا جو مانگا جارہا ہے۔ اپنے سے طاقتور کے سامنے سینہ زوری نہیں چلتی بلکہ عاجزی اور انکساری کام آتی ہے جو کہ ابھی نظر نہیں آرہی ۔کہا اور سنایا عمران خان کو جارہا ہے اور ہدف کوئی اور ہے‘ کیونکہ شریف خاندان سمجھتا ہے کہ اصل قوت کے مرکز کو نشانہ بنایا جائے اور اسے کمزور کردیا جائے تاکہ باقی عمارت خود بخود ہی زمین بوس ہوجائے‘ لیکن دھمکی اور درخواست ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
گزشتہ چھ برس کا تجربہ یہی بتاتا ہے جب تک رویوں اور بیانیے میں تبدیلی نہیں آتی کْچھ ملنا محال ہے؛ چنانچہ ہو سکتا ہے کہ شریف فیملی اور مولانا ٹیڑھی انگلی سے اپنے آپ کو'' متعلق‘‘ بنانا چاہتے ہوں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو آئندہ تین برسوں میں وہ حلقۂ سیاست سے کوسوں دور چلے جائیں گے۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ موجودہ پارلیمانی سیٹ اپ کا جاری رہنا شریف فیملی کے لیے زہر قاتل ہے کیونکہ ان کی جماعت میں ارکان نے بغاوت کی ابتدا کردی ہے اور کھلے عام وزیراعلیٰ اور وزیراعظم سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ ارکان ِپارلیمان اپنے حلقوں کے لیے فنڈز وصول کررہے ہیں اور اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باغی ارکان کی دیکھا دیکھی دیگر ارکان بھی رنگ بدلنے کے موڈ میں ہیں۔ مزید اطلاع یہ بھی ہے کہ بعض ایسے جیّد ارکان جن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ایسے ہیں جو در پردہ انڈر ٹیکنگ دے چکے ہیں‘ اس لیے بلف گیم عروج پر ہے‘ لہٰذا اپنے آپ کو عوامی سطح پر متحرک رکھنے اپنے کارکنوں اور اپنے ووٹ بینک کو مجتمع کرنے اور اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ شریف فیملی جلسے جلوسوں کا آغاز کرے اور سینیٹ کے انتخابات سے پہلے پارلیمانی پارٹی میں جس ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ اور اطلاعات ہیں اس سے بچا جاسکے اس لیے توقع یہی ہے کہ آج کے جلسے سے ن لیگ کو فوری فائدہ حاصل ہوجائے گا اور ان کے کارکن متحرک ہوں گے لیکن مستقل کامیابی کا انحصار تحریک کے تسلسل پر ہوگا۔ تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیں تو وہاں کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں اور دوسال گزرنے کے باوجود عام آدمی کے مسائل حل ہوتے نظر نہیں آرہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ بہت سے میدانوں میں حکومت کی کارکردگی بہت اچھی رہی لیکن ان تمام اقدامات کا فوری فائدہ مراعات یافتہ طبقے کو زیادہ پہنچا اور جس طبقے کی پہنچ جتنی زیادہ تھی اس نے اپنے شعبے کے لیے اتنی ہی زیادہ مراعات حاصل کرلیں اور پرسکون ہوگیا لیکن عام آدمی اور کم آمدنی والے طبقات کیلئے مسائل پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ عام آدمی اور ہر گھر کی ضرورت آٹا، گندم، چینی، دالیں، گھی اور سبزیاں ہوتی ہیں پھر بجلی اور گیس کی باری آتی ہے لیکن افسوس کہ ان تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مسلسل اوپر جارہی ہیں اور انہیں حکومت اور انتظامی مشینری کنٹرول کرنے میں نہ صرف ناکام نظر آتی ہیں بلکہ ان کو روکنے کے لیے کوئی جذبہ یا ارادہ بھی نظر نہیں آتا اور کابینہ میں اگر کوئی وزیر اس جانب توجہ دلاتا بھی ہے تو وزیراعظم کی غیر منتخب معاشی ٹیم اس طرف توجہ ہی نہیں دیتی اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں ایسے گم کردیتی ہے کہ سوال کرنے والا سبکی محسوس کرتا ہے۔ اور پھر ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہ سب کْچھ آئی ایم ایف کے مطالبات پر کیا جارہا ہے اورمہنگائی کا یہ عمل آگے بڑھتا جائے گا لیکن حکومت کو شاید اس بات کا ادراک نہیں کہ چینی ماضی میں جنرل ایوب خان کی حکومت گرا چکی ہے ۔ سال دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں چوہدری پرویز الٰہی کے شاندار پانچ سالوں کو چند روزہ آٹے کی قلت اور مہنگائی نے بے وقعت بنا دیا تھا۔ جس نے بھی یہ کام کیا وہ بہت سمجھدار تھا کیونکہ آٹے اور گندم کے وافر ذخائر موجود تھے لیکن مصنوعی قلت پیدا کی گئی اور آٹا اور گندم مارکیٹ سے غائب کردیا گیا ۔سپلائی چند روز کے لیے روک دی گئی اور ق لیگ کو الیکشن ہروانے میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آئی۔ صورتحال اب بھی ویسی ہی ہے ۔معاملہ چینی اور سبزیوں تک گوارہ کرلیا گیا لیکن اب آٹا بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوچکا ہے۔
گندم کی سرکاری قیمت چودہ سو روپے فی 40 کلوگرام ہے جبکہ آٹا اس قیمت سے اڑھائی گنا زیادہ پر فروخت کیا جارہا ہے ۔ستم ظریفی یہ کہ آٹا ہمسایہ ممالک کو سمگل ہورہا ہے جسے روکنے کیلئے حکومتی مشینری کْچھ نہیں کرپارہی اور خبر دینے والے خبر دے رہے ہیں کہ آٹے کی قیمتیں نومبر، دسمبر میں اور بھی اوپر جائیں گی۔ اگر یہ بات مان لی جائے‘ حالات ایسے ہی رہے اور حکومت نے مہنگائی پر کنٹرول نہ کیا تو معاملات بے قابو ہوسکتے ہیں، خاص طور ان حالات میں اپوزیشن کی آواز کو مزید تقویت ملے گی کہ جب انکے چولہے ٹھنڈے ہورہے ہوں گے کیونکہ گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی نوید بھی سنادی گئی ہے۔،اب تصور کریں کہ ایک طرف آٹا، چینی، دال اور گھی مہنگا اور دوسری جانب سخت سردیوں میں گیس اور بجلی کی قیمتیں آسمانوں پر اور مزید یہ کہ گیس کی لوڈشیڈنگ یعنی عدم دستیابی بھی ہو تو پھر عام آدمی کے غیظ و غضب کا اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا۔ شریف فیملی سوچ سمجھ کر آگے بڑھ رہی ہے، مولانا مذہبی تڑکا لگانے کیلئے ان کے ساتھ ہیں؛ چنانچہ اگر حکومت اور ادارے شریف فیملی کے بیانیے کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور عوام کی حمایت چاہتے ہیں تو انہیں عام آدمی کی زندگی کو آسان کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ عام آدمی کو شریف فیملی سے دور رکھنا ہے تو ان کی روزی روٹی کو سستا کرنا ہوگا ورنہ عام آدمی کی طاقت کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہو جائے گا‘ تاریخ کا سبق یہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved