تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-10-2020

یہ تفریق کیوں؟

2005 میں 40 ڈویژن کے جی او سی کے آفس میں میڈیا سے متعلق ہم کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ان کے سپیشل فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری جانب سے انہیں نجانے کیا کہا گیا کہ جنرل صاحب یک دم تن کر کھڑے ہوگئے اور غصے سے کہنے لگے ''اگر میرے کسی بچے کو نقصان پہنچا تو میں بالکل برداشت نہیں کروں گا‘‘۔ ہم نے سمجھا شاید ان کے بچوں کا کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا ہوا ہے‘ لیکن کچھ دیر بعد پتا چلا کہ کچھ نام نہاد این جی اوز کے لائے ہوئے لوگ ایک ملٹری فارم پر ڈیوٹی دینے والے آرمی کے جوانوں پر پتھرائو کر رہے ہیں اور جنرل صاحب اپنے یونٹ کے جوانوں کو اپنے بچے کہہ رہے تھے۔ یہ ہے پاک فوج میں ایک سپاہی اور جنرل کا رشتہ، جہاں ایک جنرل اپنے ایک ایک جوان کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتا ہے اور ان کا اسی طرح خیال رکھتا ہے۔ وہ ان کے دکھ‘ درد میں شریک ہوتا اور ان کی تکلیف کو خود محسوس کرتا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی گھر کے باہر کھڑے گارڈ سے یہ کہتا پھرے کہ تم لوگ تو ٹھیک ہو لیکن تمہارے افسر ٹھیک نہیں‘ تو سوچیں کیا ہو گا؟ پاک فوج کی وحدت پر حملہ آور ہونے والوں کی سوچ دیکھئے کہ ملک کی سب سے بڑی ڈسپلنڈ فورس کے خلاف چھپ کر نہیں بلکہ سیٹلائٹ پر باتیں کی جا رہی ہیں اور دنیا بھر کو سنایا جا رہا ہے۔ اُس فورس‘ کے ذہنوں کو منتشر کیا جا رہا ہے جو اپنے اعلیٰ افسران کے ہمراہ کبھی مورچوں، کبھی کسی فرنٹ محاذ اور کبھی کسی کمانڈو مشن میں ملکی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت مورچہ زن رہتی ہے۔ کیا ایسے بیانات کے ذریعے عام سپاہیوں کو یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ جن افسران کے حکم سے تم دشمن کے خلاف کسی خفیہ مشن پر جاتے ہو‘ جس کے حکم پر تم اپنی مشین گنوں، مارٹر، توپ اور ٹینک سے دشمن پر فائر کھولتے ہو‘ وہ حکم دینے والے اچھے نہیں ہیں؟پاکستانی سکیورٹی ادارے اپنے ڈسپلن اور نظم و ضبط کی وجہ سے ہی جانے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں ایک نوجوان کمیشن حاصل کرنے کے بعد درجہ بہ درجہ متعلقہ تعلیم، تربیت اور کورسز کی بنیاد پر ترقی پاتا چلا جاتا ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتا ہے۔ کسی کی زبان، رنگ، نسل، ذات، پات اور برادری اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ اقربا پروری اور دوست نوازی کی جو روایت بعض ملکی اداروں کا خاصہ بن چکی ہے‘ اس کا کوئی عکس بھی ان ڈسپلنڈ اداروں میں نظر نہیں آتا، اس وجہ سے یہ ادارے‘ پاک فوج ہمارے ملک کے ماتھے کا جھومر ہے۔
ذرا ایک لمحے کے لیے سوچئے اور غور کیجئے کہ جب آپ کسی ادارے کے اہلکاروں کو ان کے سینئر افسران کے خلاف بھڑکائیں گے تو اس سے کیا مطلب لیا جائے گا؟ 46 برس قبل بھٹو مرحوم کا مزارعوں کو زمینداروں‘ مزدوروں کو کارخانے داروں، سیلزمینوں کو دکاندار کا دشمن بنا نے کا نتیجہ کس نے نہیں دیکھا اورکس نے نہیں بھگتا؟ اگر آپ کے بھرتی کیے گئے‘ لوگوں کو یہ کہہ کر اکسانے کی کوشش کرے کہ تم تو بہت اچھے ہو لیکن تمہارے چیئرمین کا رویہ اچھا نہیں تو کیسا رہے گا؟
چودہ سو سال پہلے مدینہ منورہ جہاں سے اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیلا‘ اُس شہر اور اس شہر کی پناہ میں آئے ہوئے معزز مہمانوں کو ختم کرنے کیلئے جب کیل کانٹے سے لیس ایک کفار کا لشکر حملہ آور ہوا تو رسول اللہﷺ 313 جانثاروں کے ہمراہ اپنے سے تین گنا بڑے لشکر کا مقابلہ کرنے کیلئے میدانِ بدر پہنچے۔ یہاں خاتم الانبیاءﷺ نے گڑگڑاتے ہوئے اللہ سے دعا کی تھی ''رب کریم! آج اگر تیرا نام لینے والے یہ چند جان نثار ختم ہو گئے تو پھر دنیا میں کوئی بھی تیرا نام لینے والا نہیں رہے گا‘‘۔ غزوہ بدر میں تمام مسلمانوں نے رسول کریم خاتم النبیین رحمۃ للعالمینﷺ کی جنگی حکمتِ عملی کے مطابق اپنی صفوں میں اتحاد رکھا اور اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو شکست فاش سے دوچار کیا لیکن اس کے بعد غزوہ احد میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار محمد مصطفیﷺ نے ایک پہاڑی پر تیراندازوں کا ایک دستہ تعینات فرماتے ہوئے اسے حکم دیا ''دیکھو‘ کچھ بھی ہو جائے‘ جس درے پر اور جس مورچے پر تمہیں کھڑا کر رہا ہوں‘ جب تک میرا حکم نہ ملے‘ تم میں سے کسی نے بھی وہاں سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹانا‘‘ لیکن سب نے دیکھا کہ سالارِ لشکرﷺ کے حکم کی سرتابی کرتے ہوئے وہ درہ چھوڑ دیا گیا نتیجہ یہ نکلا درہ خالی دیکھ کر بھاگتے ہوئے خالد بن ولید (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے مڑکر حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس جنگ میں میری سرکار‘ محسنِ انسانیت‘ محمد مصطفیﷺ کے چہرہ پُرنور پر بھی زخم آئے اور آپﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے۔
آج مدینہ کی طرح اسلامی نظریاتی ریاست‘ جو دنیا بھرکے مظلوم مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ بن چکی ہے‘ کی حفاظت کے لیے مختلف دروں پرکھڑے ہوئے پہرہ داروں کو اس لئے ورغلایا جا رہا ہے کہ وہ بھی اس درے کو خالی چھوڑ دیں تاکہ چہار اطراف سے دشمن ہم پر جھپٹ پڑے؟ میں وطن عزیز پاکستان کے اندر بھی اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے ہوئے ہر پاکستانی سے درخواست کروں گا کہ وہ خلیج کی تمام عرب ریا ستوں، افریقہ اور جنوبی ایشیا کے مسلم ممالک کا حال دیکھ کر‘ دنیا میں ان کا موجودہ مقام جانچ کر اور ان کی خود مختاری کے باب پڑھ کر‘ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ اگر پاکستان بھی ان ممالک کی صفوں میں شامل کر دیا گیا تو آپ اور ہم‘ سب کہاں جائیں گے؟
دسمبر1971ء کی شکست کے با وجود ہم سب کو اطمینان تھا کہ ہمارے پاس پاکستان کی صورت میں ایک جائے پناہ ہے‘ ہمارے سویلین اور فوجی بھارت کی قید کاٹتے رہے لیکن انہیں یہ تسلی تھی‘ یہ اطمینان تھا کہ ابھی ایک پناہ گاہ موجود ہے جہاں بیٹھے ان کے والدین‘ بہن، بھائی‘ بیوی بچے‘ ان کی حکومت اور فوج‘ سب ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اپنے ہی محافظوں‘ اپنے ہی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے مجاہدوں پر پتھر پھینکنے والے لوگوں کا مشن کیا ہو سکتا ہے؟ یہ بھی نہیں دیکھ سکتے تو وہ بازو دیکھ لیں جسے بھارت میں صرف اس وجہ سے کاٹ ڈالا گیا کہ اس پر 786 کیوں لکھا ہوا ہے۔ اگر آنکھیں یہ دیکھنے سے بھی عاجز ہیں تو مقبوضہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لے لیں۔ چالیس ہزار سے زائد بیٹیوں کی بھارتی فوج کی درندوں کے ہاتھوں گینگ ریپ کے نوحے سن لیں۔
پاک فوج میں سپاہی اور جنرل کی تفریق کر کے فوج کو کمزور کر نے والوں کے ساتھی اداروں میں تفرقہ ڈال کر پاکستان کو تورا بورا، عراق، یمن، لیبیا اور شام بنانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ چاہتے ہو کہ ہماری حالت بھی افغانستان، یمن، لیبیا، لبنان، عراق اور شام جیسی ہو جائے؟ ہم سب کے بچے اور بیٹیاں، پاکباز مائیں‘ بہنیں اور بوڑھے باپ مہاجر کیمپوں میں اسی طرح دھکے کھائیں جیسے شام، یمن، لیبیا، افریقہ اور عراق سمیت افغان مہاجرین دھکے کھا رہے ہیں؟ جھگڑا عمران خان سے ہے‘ نیب سے ہے‘ احتساب سے ہے یا جس سے بھی ہے‘ اپنی جنگ‘ اپنی لڑائی‘ اپنے بیانات اور اپنی آلائش زدہ خواہشوں سے پاک فوج کو دور ہی رکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved