تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-06-2013

ہمارے حکمرانوں کا ایجنڈا

جب مسلسل سفر تھکاوٹ یا بوریت کے امکانات پیدا کرتا ہے تو انور مسعود کو دیکھ کر دل میں نیا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور تھکاوٹ غائب ہوجاتی ہے۔ انور مسعود گزشتہ بیس دن سے میرے ہمراہ مسلسل حالت سفر میں ہیں۔ نیویارک، لاس اینجلس، ہوسٹن، شکاگو، آرلینڈو، ہائفورڈ، ٹپس برگ اور آج بالٹیمور میں مشاعرہ ہے۔ ابھی مزید چار مشاعرے ہیں۔ نیویارک سے لاس اینجلس کا ہوائی سفر بغیر کسی سٹاپ کے چھ گھنٹوں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح دیگر پروازوں کا حال تھا۔ تقریباً ہر ہفتے چار سے پانچ ہوائی سفر کرنے پڑ رہے ہیں۔ تقریباً ہر ائیرپورٹ شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ سکیورٹی چیکنگ کے مسائل کے باعث پرواز سے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے قبل ائیرپورٹ پر جانا پڑتا ہے۔ پھر اوسطاً تین گھنٹے کی پرواز ہے۔ ائیرپورٹ شیطان کی آنت کی مانند ختم ہونے میں نہیں آتے۔ بعض ائیرپورٹس پر بریفنگ ایریا سے روانگی والے لائونج میں جانے کے لیے ائیرپورٹ کے اندر ٹرین پکڑنی پڑتی ہے۔ سامان وصول کرنے تک ایک آدھ گھنٹہ لگ جاتا ہے اور پھر ائیرپورٹ سے ہوٹل جانے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ اس طرح اوسطاً ہر ہوائی سفر میں ایک شہر کے ہوٹل سے نکل کر دوسرے شہر کے ہوٹل تک پہنچنے میں سات سے آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ایک سفر کی تھکاوٹ اترتی نہیں اور دوسرے سفر کی تھکان شروع ہوجاتی ہے مگر اٹھہتر سالہ نوجوان انور مسعود ایسے میں ہمارے لیے ’’انرجی ڈرنک‘‘ بن جاتے ہیں۔ انور مسعود سفر سے نہیں لیکن ائیرپورٹ سکیورٹی سے تنگ ہیں اوراب وہ جہاز پر چڑھنے کے بجائے زمینی سفر کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ویسے بھی اب تمام مشاعرے مشرقی ساحلی علاقے یعنی نیوجرسی، نیویارک، پنسلوینیا اور مشی گن میں ہیں اور ماسوائے مشی گن کے تمام سفر بذریعہ سڑک والے ہیں۔ انور مسعود ائیرپورٹ پر جوتے اور پتلون کی بیلٹ اتارنے پر تنگ ہیں۔ میں انہیں تسلی دیتا ہوں کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک بہرحال کسی ترجیحی یا نسلی بنیادوں پر نہیں ہورہا۔ ہر شخص کے ساتھ ہورہا ہے۔ کوئی گورا کوئی کالا، کوئی ولایتی کوئی دیسی اس سے مبرا نہیں اور اس عمل میں کسی کو کوئی تخصیص یا رعایت نہیں ہے گویا ع بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے والا معاملہ ہے۔ اس لیے مائند کرنے کی کوئی بات نہیں مگر انور صاحب کی ناراضگی اپنی جگہ قائم ہے۔ میں نے انہیں ایک واقعہ سنا کر ان کی دلجوئی کرنے کی کوشش کی اور الحمدللہ اس کاخاصا مثبت اثر ہوا ہے اور اب انور صاحب زیادہ ناراض نہیں ہوتے۔ اس واقعے کا راوی ہمارے مرحوم دوست خواجہ کمال الدین انور کا بھائی خواجہ جمال الدین انور ہے۔ خواجہ جمال ایک دن بتانے لگے کہ اسے خانیوال کا ایک ایم این اے ملا اور باتوں باتوں میں بتانے لگا کہ وہ صدر صاحب کو ملنے ایوان صدر گیا (یہ واقعہ پرویز مشرف کی صدارت کے دور کا ہے) ایوان صدر کے دروازے پر اس کی گاڑی کی مکمل تلاشی لی گئی پھر اسے گاڑی سے اتر کر اپنی تلاشی دینی پڑی ۔ اسی دوران اسے ایک کالے کتے نے سونگھا اور پھر اسے ایک بھورے کتے نے سونگھا۔ خواجہ جمال کہنے لگا کہ جب اس نے ابھی اتنا واقعہ ہی بیان کیا تو میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا کہ پیر صاحب! اللہ نے آپ کو اتنی عزت دی ہوئی ہے۔ ماشاء اللہ آپ ایم این اے بھی ہیں۔پیسے کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ کو کیا پڑی تھی کہ اس طرح تلاشی دے کر، کتوں سے خود کو سنگھوا کر خوار ہوں۔ آپ کو ایوان صدر جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ وہ ایم این اے کہنے لگا: خواجہ صاحب! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ مجھے خود بڑی بے عزتی اور توہین کا احساس ہوا مگر اب جو ہونا تھا ہوچکا۔ مجھے دل میں اپنی اس تلاشی اور پھر کتے کے سونگھنے پر بڑی توہین کا احساس ہورہا تھا اورمیں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہا تھا کہ میری نظر پیچھے پڑی۔ پیچھے ایک سابق صدر آرہے تھے۔ انہیں بھی پہلے کالے کتے نے سونگھا، پھر بھورے کتے نے سونگھا۔ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو خود کو تسلی دی کہ تم تو صرف ایک ایم این اے ہو۔ تمہارے پیچھے ایک ایم این اے آرہا ہے جو سابق صدر ہے اور اسی عالیشان عمارت کا مختار اور مکین بھی تھا آج اسے بھی کتوں سے سنگھوا کر اندرآنا پڑ رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر اپنی ذلت، بے عزتی اور توہین کا احساس تقریباً ختم ہوگیا۔ خواجہ جمال الدین انور نے جب یہ واقعہ سنایا تو میں نے کہا: خواجہ صاحب! کتے بھی تو آخر ایک دوسرے سے کوئی گفتگو وغیرہ کرتے ہوں گے۔ جب شام کو کالے اور بھورے کتے نے سارے دن کی کتھا اور کہانی ایک دوسرے سے شیئر کی ہوگی تو وہ بھی اس واقعے پر بڑے ہنسے ہوں گے۔ آج ہم نے اس شخص کو بھی سونگھا جو کبھی خوددوسروں کو سنگھوایا کرتا تھا۔ ممکن ہے رات کو وہ دنیا کی بے ثباتی اور فلک ناہنجار کی نیرنگی پر افسردہ اور ملول بھی ہوئے ہوں اور سابق صدر پر ترس بھی آیا ہو۔ انور مسعود صاحب یہ واقعہ سن کر تھوڑے مطمئن تو ہوئے مگر اتنے مطمئن ہرگز نہیں ہوئے جتنا وہ ایم این اے ہوا تھا۔ ظاہر ہے ایک شاعر سیاستدان کی مانند بے حس نہیں ہوسکتا۔ دونوں کے احساس میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے۔ امریکی ہوائی اڈوں پر تلاشی وغیرہ اور باڈی سکینر سے گزرنا ایسا مسئلہ ہے جس سے کسی کو نہ تو معافی ہے اور نہ ہی کوئی رعایت۔ تاہم پچھتر سال سے زائد عمر کے افراد کو کوٹ اور جوتے اتارنے کی پابندی سے معافی حاصل ہے۔ ہم انور صاحب کو کہتے ہیں کہ وہ عمر کی یہ حد کراس کر چکے ہیں اور انہیں جوتے نہ اتارنے کی سہولت میسر ہے مگر ’’جواں سال‘‘ انور مسعود غالباً ٹی ایس اے والوں پر اپنی عمر کا راز نہیں کھولنا چاہتے۔ تاہم کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اور خاص طور پر باریش مسلمانوں کو اپنے ہمراہی مسافروں کے باعث ’’خصوصی سلوک‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک جہاز کے کچھ مسافروں نے تین چار باریش مسلمانوں کی جہاز میں موجودگی کی صورت میں جہاز میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔ سکیورٹی والوں نے جہاز کے عملے کے کہنے پر ان مسلمانوں کو اس فلائٹ میں سوار ہونے سے روک دیا۔ اس پر انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی اور انہیں نسلی یا مذہبی امتیازی سلوک سے بچانے کے لیے امریکہ میں سرگرم ایک تنظیم \"CARE\" نے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ معاملہ عدالت میں لے گئی۔ امتیازی سلوک‘ مذہبی منافرت اور غربت کے خلاف صف آرا اس تنظیم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعداد چوبیس ہے اور اس میں ایک بھی مسلمان نہیں لیکن یہ تنظیم رنگ و نسل یا مذہب کے امتیاز کے بغیر امریکہ میں رہنے والوں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مسلمانوں کو جہاز میں سوار ہونے سے روکنے والے معاملے کو یہ لوگ عدالت میں لے گئے جہاں اس ائرلائن کو اس حرکت کی تلافی کے طور پر بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑا۔ اسی طرح کے ایک واقعے میں ایک ٹی وی چینل پر ہونے والی گفتگو کے دوران ایک شریک گفتگو شخص نے کہا کہ جب وہ ہوائی جہاز میں سوار ہوتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی داڑھی والا مسلمان بیٹھا ہو تو وہ خود کو بڑا غیر محفوظ خیال کرتا ہے۔ ٹی وی اینکر نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔ اس پر CARE والوں نے عدالت سے رابطہ کیا۔ اس ٹی وی چینل کو بعدازاں اپنا وہ اینکر فارغ کرنا پڑا۔ امریکہ میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا بھی ہے مگر ان کے پاس اپنے حقوق کے تحفظ کے ذرائع بھی موجود ہیں۔ پٹس برگ میں ہمارا دوست ڈاکٹر عظمت پراچہ اسی تنظیم کا کرتا دھرتا ہے۔ میں نے کئی پاکستانی امریکیوں سے پوچھا کہ وہ یہاں خود کو کیسا محسوس کرتے ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ یہاں امریکہ میں موجود سہولتوں اور درپیش مشکلات کا موازنہ جب وہ پاکستان میں میسر سہولتوں اور درپیش مشکلات سے کرتے ہیں تو وہ یہاں امریکہ میں خود کو زیادہ آرام میں محسوس کرتے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران انہیں اپنے ملک میں وہ سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرتے تو انہیں ملک چھوڑ کر کہیں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ لیکن عوام کو سہولتیں فراہم کرنا شاید حکمرانوں کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved