قنوطیت اور یاسیت مجھے کبھی پسند نہیں آئی‘لیکن کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں ان کے سو اکچھ پسند نہیں آتا۔ ہر معاملے کے دونوں رخوں میں سے انہیں وہی بھاتا ہے جو گہرا ‘تاریک اور بدنما ہو۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا مجموعی مزاج تنقیدی ہوتا ہے‘ خاص طور پر حکومتی معاملات میں‘اس لیے وہی خبریں زیادہ اور اہم جگہ پاتی ہیں جو خرابی اور برائی کو اجاگر کر رہی ہوں۔ مشہور ہے کہ خبر یہ نہیں کہ کتے نے آدمی کو کاٹ لیا بلکہ خبر یہ ہے کہ آدمی نے کتے کو کاٹ لیا۔ اگرچہ تمام خبریں تنقید کے ذیل میں نہیں آتیں لیکن خاصا بڑا حصہ اس کی ترجمانی کرتا ہے‘نتیجہ یہ کہ مسلسل تنقیدی خبروں سے انسانی ذہن یاسیت کا شکار ہونے لگتا ہے ۔زندگی کے ہر شعبے کی طرح لکھنے والوں میں بھی اس مزاج کی فراوانی ہے۔آپ کچھ خبریں اور کچھ کالم پڑھ لیں‘ایسا لگے گا کہ ایک خوبصورت‘ شگفتہ اور خوشگوار صبح مرجھانے لگی ہے۔میری طرح کے وہ لوگ جو ہر معاملے کو زرد عینک سے دیکھنے کے قائل نہیں ان کے لیے اس دور میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو متوازن کیسے رکھیں اور اس قنوطیت سے کیسے بچیں جو ہمیشہ سے ناپسند رہی ہے لیکن جو ہر صبح گھیرا ڈال لیتی ہے۔اس کا غلاف مضبوط ہوتا ہے اور اسے توڑ کر باہر نکلنا آسان نہیں ہوتا‘ خاص طور پر جب یہ جد و جہد ہر روز کے معمولات میں شامل ہوجائے۔
اور اس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ مثبت خبریں لائیں کہاں سے ؟اول تو فی زمانہ حکومتوں‘سربراہوں کی توفیق ایسی ہے کہ وہ مسلسل قوم کے ڈپریشن میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی بھلا کام سرزد ہونے لگے یا ہو جائے تو وہ ایسے کونے کھدرے میں سمٹا ‘سہما ہوا اور خوف زدہ نظر آتا ہے کہ اس پر بھی رحم آنے لگتا ہے ۔میں کوشش کرتا رہتا ہو ں کہ ان خبروں سے بھی ڈپریشن کچھ کم کرتا رہوں جو خوش کن ہیں‘ چاہے ابھی صرف تجویز کے دائرے میں ہیں۔ ان میں سے جو عمل درآمد کے دائرے میں داخل ہوچکی ہیں‘ ان کے بارے میں بھی خوف لگا رہتا ہے کہ نجانے یہ تکمیل تک پہنچیں یا نہیں ؟یا پہنچیں تو اپنے ساتھ کتنی خرابیاں سمیٹ لائیں ۔یہ پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے کہ ایک اچھے کام کے ساتھ کچھ ایسے مسائل بھی نتھی ہوجاتے ہیں جو نئی خرابیاں پیدا کرتے ہیں اور ان کا سد باب بھی نہیں ہوتا۔ دور مت جایئے ‘شادیوں کی ون ڈش کی پابندی کو دیکھ لیجیے جو بنیادی طور پر سادگی اختیار کرنے کی طرف ایک اچھاقدم تھا لیکن اس کی آڑ میں مارکیز اور شادی ہالوں نے جو لوٹ مار شروع کی اس کی داد رسی کہیں بھی نہیں۔اس کے باوجود اگر کہیں کسی کونے کھدرے میں اچھی خبر نظر پڑجاتی ہے تو خوش گمانی اسے حقیقت سمجھنے میں دیر نہیں لگاتی۔ ایسی ہی کچھ اچھی خبریں پچھلے دنوں نظر سے گزریں تو جی خوش ہوا اور سوچا کہ آپ تک بھی پہنچاؤں۔اس امکان کے باوجود کہ یہ خبر اصل میں دل کو خوش رکھنے کا ایک خیال ہوگا‘ لیکن یہ خیال بھی غنیمت لگ رہا ہے ۔
خبر ہے کہ وفاقی حکومت جہیز پر پابندی کا ایک بل ایوانوں میں لانے پر غور کر رہی ہے ۔تجویز کے مطابق چار تولے سونے کی قیمت سے زیادہ کا سامان جہیز میں لڑکی کودینے پر پابندی لگائی جائے گی ۔اس کی تفصیل نکاح نامے میں شامل ہوگی ۔اس میں صرف دلہن کے لیے ضروری اشیا مثلاکپڑے‘ بستر کا سامان وغیرہ شامل ہوسکتا ہے۔ دلہا یا سسرالی عزیزوں کے لیے کوئی سامان شامل نہیں ہوگا۔ یہ ایک اچھا اقدام ہوسکتا ہے؛ اگرچہ لوگ اس میں بھی چور راستے ڈھونڈ لیں گے۔پھر بھی اس سے بے لگام نمائش کی روک تھام بھی ہوگی اور دلہا اور سسرال کے مطالبات کی بھی۔ اچھی بات اس میں یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے معاشرے میں نمود و نمائش کی روک تھام اور نکاح جیسا مقدس فریضہ آسان بنانے کا ارادہ ظاہر ہوگا‘جو اس وقت مشکل ترین بن چکا ہے۔کم حیثیت گھرانوں میں لڑکی والوں کے لیے اس فرض سے کم خرچ میں سبکدوش ہونے کی ایک صورت نکل آئے گی ۔ابھی اس بل کے خد و خال واضح ہوں تو اس پر بہتر تبصرہ کیا جاسکے گا ۔فی الحال تو اس ارادے کی داد دینی چاہیے ۔ اب جبکہ حکومت اس سمت قدم اٹھانا چاہتی ہے تو پنجاب کے ان بے مہار شادی ہالوں اور مارکیز کی لوٹ مار کا بھی سد باب کرے جو ون ڈش کا مختصر سا مینیو دے کر بھی وہی قیمت وصول کر رہے ہیں جو دوسرے شہروں مثلاً کراچی میں بہت سی ڈشزسمیت کھانوں کے مینیو کی ہے۔ حکومت چکن مینیو یا مٹن مینیو کا زیادہ سے زیادہ نرخ مقرر کرے اوران شادی ہالوں کواس کا پابند کیا جائے۔اسی طرح شادی ہال اور مارکیز کی یہ ناجائز پابندی ہٹوائی جائے کہ جس ہال میں یہ تقریب ہو‘کھانا بھی اسی سے لیا جائے خواہ وہ نہایت بد ذائقہ او رمہنگا ہو ۔ باہر سے من پسند کیٹرنگ کی اجازت ہونی چاہیے جو اس وقت نہیں ہے ۔
خیبر پختونخوا سے خبر ہے کہ صوبائی حکومت سکول بستوں کے وزن کو کم کرنے کے لیے قانون لانا چاہتی ہے ۔بچے کی عمر اور جماعت کے مطابق بستے کا زیادہ سے زیادہ وزن متعین کیا جائے گا۔اور کسی نجی یا سرکاری سکول کو اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہوگی ۔یہ بھی ایک خوش کن خبر ہے ۔ ہم روز یہ دیکھ کر کڑھتے ہیں کہ ہمارے بچے وہ بستے اٹھا رہے ہیں جو ان کے اپنے وزن سے بھی زیادہ ہیں۔ بوڑھوں کا کمر خمیدہ ہوجانا ایک فطری عمل ہے لیکن ننھے بچوں کی کمریں بوجھ سے دہری ہوئی دیکھنا انتہائی تکلیف دہ منظر ہوتا ہے اور یہ سب سکولوں کی انتظامیہ کی بے حسی کا غماز ہے ۔اب اگر کے پی وہ پہلا صوبہ بنتا ہے جو اس معاملے میں واضح قانون سازی بھی کرے اور اس پر عمل بھی کروائے تو اس کی شاباش اسے ملنی چاہیے اور دوسرے صوبوں کو اس کی تقلید کرنی چاہیے ۔
ایک اچھی خبر بلوچستان سے ہے ۔صوبائی حکومت نے سکول اور کالج میں پڑھنے والی بچیوں کاماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے ۔یہ وظیفہ چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک کی طالبات کے لیے ہو گا۔ چھٹی جماعت کی بچیوں کو پانچ سو روپے‘ میٹرک کی طالبات کوآٹھ سو روپے اور انٹر کی طالبات کو بارہ سورو پے ماہانہ ملا کریں گے۔ بلوچستان میں چھٹی سے بارہویں جماعت تک اس وقت ایک لاکھ دس ہزار بچیاں زیر تعلیم ہیں ۔ یہ ایک بہت ہی عمدہ فیصلہ ہے جس سے ان بچیوں کی پذیرائی بھی ہوگی ‘ان کے والدین پر بوجھ بھی کچھ کم ہوگااور اس ترغیب اور حوصلہ افزائی سے نئی بچیوں کو بھی سکولوں میں داخل کروانے کا رجحان پیدا ہوگا۔یہ ایسا فیصلہ ہے جو کافی پہلے اور وفاقی سطح پر ہونا چاہیے تھا۔اور اب بلوچستان نے اس معاملے میں اولیت حاصل کی ہے تو دیگر صوبوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے ۔دیگرصوبوں کے پاس اگر وسائل نہ ہوں اور طالبات کی تعداد زیادہ ہو تو ابتدا میں وظیفے کی رقم کم رکھی جاسکتی ہے یا اسے آٹھویں جماعت سے شروع کیا جاسکتا ہے ۔ویسے تو لڑکوں کو بھی یہ وظیفہ ملنا چاہیے لیکن ابتدائی مراحل میں یہ بچیوں سے شروع کردیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں ۔
ویسے تو اچھی خبر یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے باوجود بیرونِ ممالک سے ترسیلات زر گزشتہ چار ماہ سے مسلسل دو ارب ڈالرز سے زیادہ رہی ہیں جو گزشتہ برس اسی عرصے کے مقابلے میں 31فیصد زیادہ ہیں۔اس کا اندازہ روپے کی قیمت مضبوط ہونے سے بھی کیا جاسکتا ہے ۔گزشتہ کچھ عرصے سے ڈالر مسلسل نیچے آرہا ہے اور اب فی ڈالر قیمت162 روپے کے قریب ہے ۔لیکن اگر یہ خبر سن کر غصے سے بھرا بیٹھا کوئی شخص مجھے گندم ‘چینی اور انڈوں کی قیمتیں سنا دے تو میری ساری رجائیت دھری کی دھری رہ جائے گی ۔میں اس سوال کا جواب سوچ رہا ہوں‘ جو سمجھ نہیں آرہا۔ آپ کو کوئی جواب پتا ہے ؟