یہ ہمارے دور افتادہ دوست شمس الرحمن فاورقی کا شہرۂ آفاق ناول ہے جس نے فکشن کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا رکھا ہے۔ یہ اس کا پانچواں پاکستانی ایڈیشن ہے جو 765 صفحات پر مشتمل ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے: 39 سی ہیسٹنگز روڈ الٰہ آباد، اس کی خاتون خانہ، اور ان دو بچیوں کے نام جو اس چمن زار کی گلِ تر ہیں اور شاید اس کی باغباں بھی ہوں۔ آغاز میں احمد مشتاق کا یہ مصرعہ درج ہے جس سے اس کا عنوان لیا گیا ہے ع
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
اندرونِ سرورق انتظار حسین کی تحریر ہے جس کے مطابق ''مدتوں بعد اردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندو پاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔ کیا اس کا مقابلہ اُس ہلچل سے کیا جائے جو ''امرائو جان ادا‘‘ نے اپنے وقت میں پیدا کی تھی؟ اور یہ ناول ایک ایسے شخص کے قلم سے ہے جسے اوّل اوّل ہم نقاد اور محقق کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے بطور ناول نگار خود کو منکشف کیا ہے اور محقق فاروقی یہاں پر ناول نگار فاروقی کو پوری پوری کمک پہنچا رہا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ تحقیق و تنقید اور تخلیق کا کوئی ساتھ نہیں لیکن زیرِ نظر ناول کو اس بات کی‘ جسے قاعدۂ کُلی کے طور پر دیکھا گیا ہے‘ استثنائی صورت سمجھنا چاہیے۔ یہاں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے روپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں لہٰذا ''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کچھ الگ طرح کا ناول ہے۔ ہم اسے زوال آمادہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں کی دستاویز کہہ سکتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کو جزئیات پر مکمل مہارت ہے۔ انہوں نے وزیر خانم کی زندگی کو اس درجہ لطافت ، نزاکت اور تمام باریک جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوی تہذیب، جسے ہند مسلم تہذیب کہیے اور اس کے آخری دنوں میں اس کی چمک دمک اور برگ و بار کا پورا نقشہ آ جاتا ہے۔۔۔۔ اور وزیر خانم کا کردار بھی کیا کردار ہے کہ وہ تنہا اپنی ذات میں اسی تہذیب کا مجسم وجود معلوم ہوتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر تحسین فراقی کی رائے اس کتاب کے بارے میں اس طرح سے ہے :شمس الرحمن فاروقی اردو دنیا میں ایک مدت سے ایک ذہین اور نکتہ آفریں نقاد کی حیثیت سے تو مشہور و ممتاز ہیں ہی مگر نقد و انتقاد دوش بدوش ان کی شخصیت کے تخلیقی پہلو کا اظہار ان کی شاعری سے کہیں بڑھ کر ان کے فکشن کے سرمائے میں ہوا ہے جس کا بہترین مظہر ان کا ناول ''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ ہے۔ انیسویں صدی کے برِ عظیم کے تناظر میں معاشرے کے ایک بظاہر ناپسندیدہ مرکزی کردار کے گرد بُنے گئے اس ناول کا کینوس اس قدر حیران کُن ہے کہ ''مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگِ تماشا را‘‘ کی صورت پیدا ہو گئی ہے اور پھر یہ ساری کہانی ایک تقدیری اور وجودیاتی جبر کے دائرے میں قاری کی انگلی تھامے حرکت کرتی نظر آتی ہے۔ اس ناول کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب نے مسلم تہذیب و ثقافت کے متنوع مظاہر اور اوصاف کا مشاہدہ کتنی باریک بینی سے کیا ہے اور کس قدر ڈوب کر کیا ہے اور اس اتھاہ سمندر سے کیسے کیسے نایاب موتی نکال لائے ہیں۔ ان کے حیرت انگیز حد تک وسیع لسانی پس منظر اور زبان اور بیان پر ان کی حاکمانہ دسترس نے ان کے اس ناول کو معاصر اردو فکشن میں ایک ایسا امتیاز عطا کیا ہے جس میں چند بڑے نام ہی ان کے شریک و سہیم ہو سکتے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ فاروقی نے یہ ناول لکھا کب ہے، یہ تو سروش کے فیض سے ان پر اترا ہے!
ہمارے ہونہار اور ممتاز فکشن رائٹر محمد حنیف کی رائے میں:جب اردو کے مشہور ترین اور فعال نقاد شمس الرحمن فاروقی نے فکشن کی طرف رخ کیا تو ہندوستان کے اردو ادبی حلقوں میں چھریوں کے تیز کیے جانے کی صدا سرحد پار بھی سنائی دینے لگی، لیکن افسانوں کے ایک مجموعے (سوار اور دوسرے افسانے) جس کے افسانے کچھ عظیم شعرا کی ذاتی زندگی کے گرد بے حد درخشاں انداز میں بُنے گئے ہیں، کے بعد ''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کی اشاعت نے انہیں اپنی نسل کے بہترین اردو ناول نگار کی حیثیت سے قائم کر دیا ہے۔ ناول کے زیادہ تر واقعات انیسویں صدی کے ہیں اور اس میں مشہور شاعر داغ دہلوی کی والدہ کی داستان بیان ہوئی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک زندگی کا بیان نہیں ہے۔ اس ناول میں صرف ایک زندگی نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ میں نے اس ناول کو کھوئی ہوئی ہند اسلامی تہذیب کے لیے اپنی ہوک (Nostalgia) کی خاطر نہیں پڑھا اور نہ کلاسیکی اردو کی محبت میں اسے پڑھا ہے، میں نے اسے صرف اس لیے پڑھا ہے کہ یہ قاری کو صفحہ بہ صفحہ پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ ناول آپ کو اپنی سحر آفریں زبان کے گھیرے میں لے لیتا ہے۔ پھر یہ آپ کو ایک عظیم رزمیہ نما طویل سفر پر لے چلتا ہے اور جلد ہی آپ خود کو ایک ایسی دنیا میں پاتے ہیں جس سے آپ باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ بے شک یہ ناول اردو فکشن کے کلاسک میں سے ہے اور ایسے ناول بہت نہیں ہیں۔ یہ ادب کا کوہِ نور ہے، شاہانہ، درخشاں، پُر اسرار۔ اس میں ایسی خوشی ہے جو کسی اور کتاب میں نہیں۔
پسِ سرورق درج تحریر کے مطابق ''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کے مصنف شمس الرحمن فاروقی اردو دنیا کی ایسی عہد ساز شخصیت ہیں جن کے کام، علمی توفیقات اور تخلیقی امتیازات کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے انہیں ''پدم شری‘‘ جیسا بڑا ایوارڈ دیا تو حکومت پاکستان کی طرف سے ''ستارۂ امتیاز‘‘ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ خلاق شاعر، مجتہد نقاد، دانشور اور شب خون جیسے رجحان ساز رسالے کے مدیر اور سب سے بڑھ کر ایسے ناول نگار جنہوں نے اپنے فن پارے کو تہذیبی مرقع بنا کر اس صنف پر امکانات کے نئے آفاق کھول دیے۔ تصانیف میں گنج سوختہ، چار سمت کا دریا، آسماں محراب، سوار اور دوسرے افسانے، افسانے کی حمایت میں، لفظ و معنی، شعرِ شعور انگیز، عروض‘ آہنگ اور بیان، اردو غزل کے اہم موڑ، ہمارے لیے منٹو صاحب، قبضِ زمان اور زیرِ نظر ناول شامل ہیں۔
مزید توصیفی رائے دینے والوں میں پنیت کمار، گوپال پر دھان، کرشن موہن، عرفان(فلم ایکٹر) ، اورحان پاموک، مشرف عالم ذوقی، ندیم اسلم، کیدارناتھ سنگھ، وشواناتھ پاٹھی، افضال احمد سیّد، آصف رضا اور خالد جاوید شامل ہیں۔ اس کارنامے پر ناشر بُک ہوم مبارکباد کے مستحق ہیں۔
او، اب آخر میں یہ تازہ غزل
دل میں بیشک رہ گئی ہو جستجو تیرے لیے
کوئی کیا پھرتا رہے اب کُو بکُو تیرے لیے
کر رہا ہوں اس میں اب اپنا تعاقب روز و شب
جو سفر رکھا ہُوا تھا ہُو بہو تیرے لیے
رہ گئی ہے اب محبت درمیاں دیوار سی
میں ہوں میں میرے لیے اور تو ہے تو تیرے لیے
ریت کی رفتار باقی رہ گئی ہے اب وہاں
جو رواں رکھی ہوئی تھی آب جُو تیرے لیے
دیکھ رفتہ رفتہ تُو بھی میرے جیسا ہو گیا
دائو پر رہتی ہے دل کی آبرو تیرے لیے
عافیت کا تیری اندازہ ہی کر لیتے ہیں اب
بھیجتے تھے ہم کبوتر چار سُو تیرے لیے
کیا خبر کس دم نمازِ عشق ادا کرنی پڑے
اس لیے رہتے تھے ہر دم باوضو تیرے لیے
اصل میں اپنا ہمارا تو کوئی جھگڑا نہیں
ہر گھڑی رہتے ہیں خود سے دو بدو تیرے لیے
ہوتی رہتی ہے ہوائوں ہی سے اب اپنی ظفرؔ
اپنے ہاں مخصوص تھی جو گفتگو تیرے لیے
آج کا مقطع
بحال ہونے کی جلدی میں بھی نہیں ہے ظفرؔ
یہ مدتوں سے ترا روگ پالنے والا