تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     17-10-2020

حالات بدلیں گے یا حکومت؟

کیا یہ ممکن ہے کہ موت کی آغوش میں خوابیدہ انسان کسی شاعر، مصور یا سنگ تراش کی تخلیق پر واہ واہ کر اُٹھے؟ کوئل کے نغمے کا حسن بیان کرنے لگے؟ گلاب کی خوشبو اور ندی کی لہروں کی کہانیاں سنانا شروع کر دے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ بیڑیوں کا بوجھ اٹھائے قیدی بادِ سحر کا تعاقب کرے؟ سرما کی دھوپ میں بد ن سینکنے کے خواب دیکھے؟ مہکتے پھولوں کا لباس زیبِ تن کرنے کی آرزو کرے؟ یقینا یہ سب فلموں، ڈراموں، ناولوں اور شاعری کے موضوعات ہیں۔ حقیقی زندگی میں اتنی ذہنی آسائشیں کہاں؟ اگر یہ خیالی دنیا کی کہانیاں ہیں تو پھر ہماری حکومت سمجھنے سے قاصر کیوں ہے؟ وہ ہر روز عوام میں امید کا دِیا کیوں جلاتی ہے؟ بام پہ رکھے چراغ کو بجھنے بھی نہیں دیتی اور جلنے بھی نہیں دیتی۔
یہی ہے زندگی‘ کچھ خواب، چند امیدیں
انہی کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا ہوتا تو ضرور بتاتا کہ بہاروں میں چمن کو جلتے دیکھنے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ صبح سویرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے تو یہ کیا شگون ہوتا ہے؟ ارمانوں کی پوٹلی میں سانپ گھس آئیں تو کیا تعبیر نکلتی ہے؟ افسوس! کہ کوئی بتانے والا نہیں، کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ عوام کے حصے میں ٹھوکریں تھیں اور ٹھوکریں ہیں۔ مہنگائی تھی‘ مہنگائی ہے۔ کوئی چارہ ساز نہیں‘ کوئی غمگسار نہیں۔ آپ جس طرف نظر دوڑائیں‘ عوام مہنگائی کے خلاف دُہائیاں دیتے نظر آتے ہیں مگر کوئی نہیں جو عوام کو اس عذابِ مسلسل سے چھٹکارا دلا ئے، کوئی نہیں جو عوام کی ڈوبتی ناؤ پار لگائے۔ حکومت کے اپنے مسائل ہیں‘ اپوزیشن کے اپنے۔ وفاق کے اپنے دکھڑے ہیں‘ صوبوں کے اپنے۔ حکومت بار بار اعلان کرتی ہے کہ اب مہنگائی کو وزیراعظم آفس سے مانیٹر کیا جائے گا، اچھے دن آنے والے ہیں‘ عوام گھبرائیں مت! آٹا، چینی، گھی، ٹماٹر، پیاز، آلو اور پیڑول‘ سب سستا ہونے جا رہا ہے، عوام تسلی رکھیں۔ چوروں، لٹیروں اور مافیاز کی لگام کھینچنے کے لیے ساری تدبیریں کر لی گئی ہیں، عوام امید کا دامن نہ چھوڑیں۔ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے سدباب کے لیے کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں، عوام خاطر جمع رکھیں۔ کوئی تو ہو جو سوال اٹھائے کہ عوام کیسے حوصلہ دراز کریں؟ ہر طرف مہنگائی ہی مہنگائی ہے، بدانتظامی ہی بدانتظامی۔ داغِ دل نظر آتے تو عوام ضرور اپنا سینہ چاک کر کے دکھاتے مگر پھر ایک خیال ذہن کی کھڑی سے ابھرتا ہے‘ کس کے سامنے؟ اُن حکمرانوں کے آگے جن سے معیشت چل رہی نہ گورننس۔ ساتھ ہی دل سے آواز آتی ہے‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟
عالی جاہ! عوام مہنگائی کی سولی پر لٹکے ہیں، وہ کیسے پریوں کے خواب دیکھیں؟ کیسے گلاب کے پتوں سے ٹپکتی شبنم کا ذکر کریں؟ بندہ پرور! مہنگائی کی شرح 3.9 فیصد سے بڑھ کر 11 فیصد سے تجاوز کر چکی جبکہ غذائی اجناس میں مہنگائی 15 فیصد کے قریب چلی گئی ہے۔ عام آدمی کی سانسیں رکی ہوئی ہیں، وہ کیسے کہہ دے کہ حکومت مدینہ کی ریاست کی طرز پر چل رہی ہے؟ جہاں پناہ! مافیاز حکومت کے قابو سے باہر ہو چکے۔ گندم مل رہی ہے نہ آٹا۔ ٹماٹر دستیاب ہیں نہ پیاز۔ چینی کی قیمت آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ چکن اور سبزیوں کے نرخوں کو پَر لگ چکے ہیں۔ ہر طرف ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہے اور سمگلنگ کا راج۔ مارکیٹ پر حکومتی کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ عوام کیسے مان لیں کہ شہد کی نہریں بہنے والی ہیں، سکھ کی صبح ہو چکی، دکھ کا سورج ڈوبنے والا ہے؟ حضور والا! سونے کی قیمت سوا دو سالوں میں اتنی بڑھ چکی کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر چلی گئی۔ 55 ہزار روپے سے سوا لاکھ‘ خدا کی پناہ! کون ہے جو اپنی بچی کی شادی کے لیے پانچ تولے ہی خرید سکے؟ پھر حکومت خواہش کرتی ہے کہ عوام گلہ بھی نہ کریں، آنسو بھی نہ بہائیں۔
سرکار! بجلی اور گیس کی قیمتوں نے تو عوام کے ہو ش اڑا دیے ہیں۔ 2018ء میں جس کا بل پانچ ہزار آتا تھا، وہ اب پندرہ ہزار سے زائد بل ادا کرتا ہے۔ 9 روپے والا یونٹ 14 اور 17 والا یونٹ 27 روپے کا چارج ہو رہا ہے۔ اب اس پر عوام شور بھی نہ مچائیں تو کیا کریں؟
جناب! اسلام آباد میں سرکاری ملازمین ایسے ہی سراپا احتجاج نہیں۔ سوا دو سالوں میں مہنگائی چار گنا بڑھ چکی مگر تنخواہ وہیں کی وہیں۔ صرف یہی نہیں، روپے کی قدر کم ہونے سے قوتِ خرید بھی کم ہوئی ہے۔ 100 روپے والی چیز 165 پر چلی گئی اور پھر عوام سے امید کہ وہ پُرامید رہیں۔عالی جناب! اس حکومت میں بیروزگاری کی شرح 3.6 فیصد سے بڑھ کر 4.6 فیصد ہو چکی۔ پچاس لاکھ سے زائد لوگ بیروزگاری کی دلدل میں دھنس چکے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم یافتہ بیروزگار افرا د کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لیبر فورس سروے کے مطابق ڈگری رکھنے والوں میں بیروزگاری کی شرح مجموعی بیروزگار افراد کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔ جب صورتحال یہ ہو توعوام کیونکر کہہ دیں کہ یہ حکومت ماضی کی حکومتوںسے مختلف ہے؟ 
مہنگائی کیسے ہوئی اور رکنے کا نام کیوں نہیں لے رہی، اس کی وجوہات ایک جیسی ہیں۔ حکمرانوں کو ترجیحات طے کرنا پڑتی ہیں مگر یہ حکومت ایسا نہ کر سکی۔ ایک کے بعد ایک غلط فیصلوں نے مہنگائی کا جن بوتل میں بند نہ ہونے دیا۔ روپے کی قدر کم کرنا، درآمدات پر پابندی لگانا، ٹیکسز میں بے جا اضافہ کرنا، پیڑول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانا، کاروباری حضرات پر غیر ضروری پابندیاں لگانا، مہنگی بجلی اور گیس‘ یہ وہ فیکٹر ہیں جن کے باعث مہنگائی بڑھتی ہی چلی گئی۔ دوسرا، حکومت نے اقتدار میں آتے ہی صبح شام بیورو کریٹس کو برا بھلا کہا، اب وہ کیوں مافیاز اور مہنگائی کی خلاف حکومت کا دست و بازو بنیں گے؟ پھر حکومت نے ایک دن کے لیے بھی سیاسی درجہ حرارت کم نہیں ہونے دیا‘ صر ف احتساب کو اپنا نصب العین بنایا، حکومت سیاسی محاذ میں مصروف رہی اور گندم ، پیڑول اور چینی کے مافیاز اپنا کام دکھاتے رہے۔ حکومت چاہ کر بھی انہیں روک نہ پائی۔ اس وقت ملک بھر میں سیاسی ماحول خاصا خراب ہے۔ اپوزیشن کیا کر رہی ہے، حکومت اس پر زیادہ دھیان نہ ہی دے‘ تو اچھا ہے۔ حکومت صرف یہ دیکھے کہ آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کیا لکھا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیروزگاری بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اگلے سال تک بیروزگاری کی شرح 4.6 سے بڑھ کر 5.1 فیصد ہو سکتی ہے جبکہ رواں مالی سال میں ترقی کی شرح 1فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ جب گروتھ ریٹ یہ ہوگا تو کاروبارکیسے ترقی کرے گا اور بیروزگاری کا دروازہ کیسے بند ہوگا؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ ورلڈ بینک کے چیف اکانومسٹ ہینس ٹمر کے بیان کو غور سے پڑھے، جنہوں نے متنبہ کیاہے کہ مستقبل قریب میں جنوبی ایشیاکے ممالک کی صورتحال انتہائی خطرناک ہو گی۔ عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کو بیرونی قرضو ں کی ادائیگیوں میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ کورونا، ٹڈی دل اور بارشوں کے باعث پاکستان میں غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور آئندہ سالوں میں غربت میں بدترین اضافے کا بھی اندیشہ ہے۔ 
اب بھی وقت ہے حکومت غور کرے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ مہنگائی کیوں قابو میں نہیں آ رہی؟ مافیاز بے لگام کیوں ہیں؟ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہو تو ترجیحات بدل دے‘ سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ دنیا میں کوئی بھی چیز ایک جیسی نہیں رہتی۔ نہ حالات نہ حکومت۔ ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے پھسل جائے اور پھر عوام مہنگائی کا علاج کرنے خود نکل کھڑے ہوں۔ ایسا ہوا تو تبدیلی ناگزیر ہوگی، حالات بدلیں گے یا حکومت؟ پھرفیصلہ عوام کا ہوگا۔
کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved