تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     17-10-2020

پابندیوں کا دور دورہ

گجر پورہ کیس کا مرکزی ملزم عابد ملہی جیسے بھی پولیس کی گرفت میں آیا ہو‘ پنجاب حکومت نے سکون کا سانس لے لیا ہے لیکن ملزم کی گرفتاری نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے کہ آیا اس نے خود گرفتاری دی یا پولیس نے جدید طریقۂ تفتیش استعمال کرتے ہوئے اسے گرفتار کیا۔ پولیس کا موقف البتہ یہ ہے کہ عابد کو لاہور کے مضافاتی علاقے مانگا منڈی سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ابتدائی تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم کو پکڑنے میں اُس موبائل فون سے مدد لی گئی جو اس نے فیصل آباد میں اپنی اہلیہ کے بھائی کے گھر سے چوری کیا تھا جبکہ عابد ملہی کے والد نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عابد خود گرفتاری دینا چاہتا تھا، اسے ڈر تھا کہ اسے پولیس مار دے گی، اس لیے اسے گھر بلایا گیا اور ایک مقامی شخص کے ذریعے اس کی پولیس حوالگی عمل میں آئی۔ خیر اب ملزم پولیس کی گرفت میں آ گیا ہے، ایسے میں اِن باتوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے کہ ملزم گرفتار ہوا یا اُس نے خود گرفتاری دی۔ بہرحال پولیس کی ''بہترین کارکردگی‘‘ پر 50لاکھ روپے انعام کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ملزم اور قانون نافذ کرنے والے ادارو ں کے درمیان لُکا چھپی ایک ماہ چار دن تک جاری رہی۔ اِس دوران کم از کم پانچ مواقع پر ملزم اور پولیس ٹیموں کی آنکھیں چار ہوئیں لیکن ملزم ہمیشہ جل دے کر نکل جانے میں کامیاب رہا۔ اب پولیس نے شاندار، جدید اور سائنسی انداز میں ملزم کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اُسے گرفتار کر لیا ہے۔ اِس مقصد کے لیے پولیس کی 23 ٹیمیں متحرک رہیں۔ حیرت اِس بات پر ہوئی کہ اُسے پکڑنے میں ناکامی پر تو وزیراعلیٰ سمیت پوری پنجاب حکومت نے پریس کانفرنس کھڑکا دی تھی لیکن جب ملزم قانون کی گرفت میں آ گیا تو تب کوئی بیان‘ نہ کوئی پریس کانفرنس؟ اِس دوران ایک عجیب بات سامنے آئی کہ جب ملزم کی گرفتاری میں بتدریج ہونے والی تاخیر پر تنقید کا سلسلہ دراز ہونے لگا تو اِس کی میڈیا کوریج پر ہی پابندی عائد کر دی گئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کے بعد اِس شخص کا میڈیا پر ذکر شجرِ ممنوعہ قرار پایا۔
اب یہ حکم لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے معطل کیے جانے کے بعد ہی یہ سطور تحریر کرنے کی ہمت مجتمع کی ہے وگرنہ کس کی مجال کہ سرکار کے سامنے دم بھی مار سکے۔ عدالت عالیہ کی طرف سے یہ ہدایت بھی کی گئی کہ موٹروے کیس پر وزرا اور مشیروں کی طرف سے دیے جانے والے بیانات اور پریس کانفرنسز کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔ بجا طور پر یہ بھی استفسار کیا گیا کہ جب مذکورہ کیس کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کر دی گئی تھی تو پھر کیونکر وزیروں اور مشیروں نے اِس کیس پر بیانات دیے اور پریس کانفرنسز کیں؟
کتنا آسان طریقہ ہے کہ جس بات کو دبانا ہو‘ اُس کے ذکر پر ہی قدغن لگا دی جائے۔ یہ رو ش آج کل کچھ زیادہ ہی عام ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے کہ جب کوئی طاقتور قانون کو گھر کی باندی بناتا ہے تو پھر اِس کی دیکھا دیکھی کم طاقتور بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اِس کی ایک سے زائد مثالیں دی جا سکتی ہے لیکن ایک بہت ہی دلچسپ مثال ملاحظہ کیجئے؛ موسم شاید واحد ایسا عنصر ہے جو ہر جاندار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم تو ابھی تک اپنے روزمرہ کے معمولات میں اِس کی اہمیت سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہو سکے شاید اس وجہ سے کہ یہ آج کے دور میں بھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ ہمیں تو سننے اور سنانے کے لیے ہر وقت چسکے دار باتیں چاہیے ہوتی ہیں جس کا سب سے بڑا ذریعہ میدانِ سیاست ہے۔ بس ہر روز ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ جائیں، کچھ اپنی سنائیں اور کچھ دوسروں کی سنیں اور اُس کے بعد کپڑے جھاڑ کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جائیں۔
معذرت کہ بات سے بات نکلتی ہے تو پھر کسی اور ہی طرف نکل جاتی ہے۔ بات ہم کر رہے تھے موسم کی‘ ہمارا محکمہ موسمیات وزارت ہوا بازی کے ماتحت ایک محکمہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ ہوتا تھا کہ جب بھی موسم کے بارے میں معلومات درکار ہوتیں یا کوئی رپورٹ بنانا ہوتی تو سیدھے محکمے کے دفتر جا پہنچتے تھے۔ کچھ گپ شپ ہوتی اور اس دوران معلومات کے حصول کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ کوئی ایک مہینہ پہلے ہمیں بتایا گیا کہ اب دفتر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزارت کی طرف سے محکمے کے افسران کو آن کیمرہ، موسم کی معلومات فراہم کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ کوئی ہمیں بتا دے کہ اس فیصلے کی کیا منطق ہے؟ وزارت کے ڈپٹی سیکرٹری سے بھی اِس بابت بات ہوئی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ بس ایک فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے، اُسی پر اکتفا کریں۔ یہ بات بھی آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ کم از کم لاہور میں جس شخصیت کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے‘ وہ کسی حد تک الیکٹرونک میڈیا کے تقاضوں سے نابلد نظر آتے ہیں۔ ا ب ہوا یہ ہے کہ دوچار مرتبہ اُن سے مغز ماری کے بعد وہاں جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اُس کے بعد سے آج تک یہی سوچ رہے ہیں کہ ایسے فیصلوں کی کوئی تو حد ہونی چاہیے کہ آخر اِس سے وزارت ہوا بازی کو حاصل کیا ہوا ہے؟
یہی صورت حال ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے۔ وہاں بھی اکثر شخصیات سے رابطہ رہتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ یکایک ختم کر دیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کے ایک حکم نامے کے تحت ادارے کے افسران کے لیے آن کیمرہ گفتگو کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کوئی وجہ نہیں‘ کوئی منطق نہیں لیکن بس صاحب کے دل میں آئی اور اُنہوں نے پابندی کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب صرف محکمے کے وزیر صاحب میڈیا سے گفتگو کرنے کے مُجاز ہیں۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں کہ وزیرصاحب آسانی سے کہاں ہاتھ آتے ہیں۔ کبھی میٹنگز کے سلسلے تو کبھی اُن کی لاہور میں عدم موجودگی جیسے مسائل نے فی الحال یہ باب بھی بند کر دیا ہے۔ ذمہ داران کے ساتھ کافی سرکھپائی کی کہ کچھ تو وجہ بتا دو، آخر کو کیوں یہ پابندیاں عائد کرتے چلے جا رہے ہو۔ سب باتوں کی ایک بات کہ ہمیں معلوم نہیں‘ بس حکومتی ہدایات پر یہ اقدام کیا گیا ہے۔ ہسپتالوں کے اندر تو کوریج پر ایک عرصے سے پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ اِس کی تو چلو کم از کم ایک وجہ ضرور نظر آتی ہے، وہ یہ کہ ہسپتالوں کا نظام انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ اب جب نظام ٹھیک رکھنے میں ناکامی ہوئی تو کوریج پر پابندی کے پیچھے پناہ حاصل کر لی گئی لیکن محکمہ موسمیات و ماحولیات کے افسران کی میڈیا سے گفتگو پر پابندی کا کیا جواز ہے؟ لاکھ مغز ماری کے باوجود ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اِس طرح کے اقدامات بنیادی طور پر ایسا کرنے والوں کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں کہ جب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکامی ہوئی تو پابندیوں کا سہارا لے لیا۔ معلوم نہیں یہ چلن ہمارے ہاں کیسے جڑ پکڑ گیا، ماضی میں بھی اس حوالے سے کافی مثالیں ملتی ہیں لیکن جو کچھ اب دیکھنے میں آ رہا ہے‘ وہ شاید ماضی سے کہیں زیادہ ہے اور یہ سب بہت سی دوسری باتوں کی طرح قابل افسوس ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved