تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     18-10-2020

سری لنکا بھارت سے ناراض کیوں؟ …(2)

سری لنکا کی حکومت‘ جسے بے شک اکثریتی سنہالی آبادی کی بھرپور حمایت حاصل تھی‘ نے اگرچہ تامل بغاوت کو کچل دیا اور اس بغاوت کو منظم کرنے والی تنظیم ایل ٹی ٹی ای The Liberation Tigers of Tamil Eelam (LTTE) کے سربراہ ویلوپلائی پربھاکران کو اس کے پورے خاندان سمیت گولیوں سے اڑا دیا گیا؛ تاہم تامل مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں تامل باشندے اپنے گھر بار سے دور مہاجرین کے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے سری لنکا کی موجودہ حکومت‘ جس کے سربراہ سابق صدر مہندا راجا پاکسا ہیں‘ پر ان تامل باشندوں کے انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے سخت دبائو ہے۔ بھارت چونکہ شروع سے ہی اس مسئلے سے منسلک رہا ہے‘ اس لئے بھارت‘ خصوصاً اس کی ریاست تامل ناڈو میں ان تامل باشندوں سے روا رکھے جانے والے سلوک پر تشویش پائی جاتی ہے۔ نریندر مودی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے متعدد بار سری لنکا کا دورہ بھی کیا مگر انہیں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اب حال ہی میں نریندر مودی نے اس مسئلے کے حل کے لئے سری لنکا کے سامنے ایک اور تجویز رکھی ہے‘ لیکن سری لنکا کی حکومت نے اسے اپنے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دے کر سخت احتجاج کیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے سری لنکا کی حکومت کو یہ تجویز پیش کی ہے کہ ملک کے سیاسی اور آئینی نظام میں تامل نسل کے باشندوں کو شاملِ اقتدار کیا جائے اور اس کے لئے ملک کی تیرہویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد کیا جائے۔ 
سری لنکا کی سنہالی نسل اور بدھ مت کی پیروکار اکثریتی آبادی تیرہویں آئینی ترمیم اور اس پر عمل درآمد کے سخت خلاف ہے اور اسے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا ایک فارمولا قرار دیتی ہے۔ اسی وجہ سے سری لنکا کی کوئی بھی حکومت اس ترمیم کے تحت لسانی مسئلہ حل کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتی۔ چونکہ تامل بغاوت ایک علیحدگی پسند تحریک تھی‘ اور ایل ٹی ٹی ای کا مقصد ملک کے شمالی اور مشرقی حصوں پر مشتمل ایک علیحدہ تامل ریاست قائم کرنا تھا‘ اس لئے سری لنکا کی موجودہ حکومت نے بھارت کی طرف سے اس تجویز کو پیش کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے‘ جو کہ بالکل جائز ہے کیونکہ کوئی ملک اپنے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت کی جانب سے سری لنکا کے داخلی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ بھارت اور سری لنکا کے گزشتہ 72 سالہ تعلقات کی کہانی‘ اول الذکر کی طرف سے مؤخرالذکر کے داخلی معاملات میں صریح مداخلت کی ایک لمبی داستان ہے‘ اور اس داستان میں تامل نسل کے باشندوں کا بار بار ذکر آتا ہے۔
سری لنکا 1948 میں برطانوی نوآبادیاتی قبضے سے آزاد ہوا تھا۔ آزادی کے وقت سری لنکا کی سیاست‘ معیشت‘ ثقافت‘ صحافت‘ فلم‘ ادب‘ تعلیم اور انتظامیہ پر تامل نسل کے لوگوں کا قبضہ تھا کیونکہ یہ لوگ سری لنکا کے ان حصوں میں آباد تھے‘ جو ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں صنعتی اور معاشی لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ سنہالی نسل سے تعلق رکھنے والی بدھ مت کی پیروکار اکثریتی آبادی زیادہ تر کھیتی باڑی کے پیشے سے منسلک تھی اور سیاست اور معیشت میں ان کا کوئی نمایاں کردار نہیں تھا‘ لیکن آزادی کے بعد سنہالی لوگوں نے جب تعلیم اور معیشت میں آگے بڑھنا شروع کیا تو تامل نسل سے تعلق رکھنے والی آبادی نے ملک کے شمال اور مشرقی حصوں پر مشتمل ایک الگ وطن کے قیام کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔ یوں سری لنکا میں ان دو لسانی گروپوں کے مابین ایک طویل جنگ کا آغاز ہوا‘ جو 2009 تک جاری رہی اور جس میں دونوں اطراف سے تقریباً ایک لاکھ افراد مارے گئے تھے۔ 
تامل سنہالی تنازع میں اول الذکر کو بھارت کے جنوبی صوبے تامل ناڈو سے نہ صرف مالی بلکہ افرادی امداد بھی حاصل ہوتی تھی‘ کیونکہ برطانوی نو آبادیاتی تسلط کے دوران تامل نسل کے لوگ تامل ناڈو‘ جسے اس وقت مدراس کہا جاتا تھا‘ سے ہی آئے تھے۔ سری لنکن تامل اگرچہ سری لنکا میں آباد تھے اور ان میں سے بیشتر یہاں کے شہری تھے‘ مگر بھارتی تامل باشندوں کے ساتھ ان کے مذہبی‘ لسانی اور خونی رشتے تھے۔ اسی بنیاد پر تامل باغیوں کی تنظیم ایل ٹی ٹی ای‘ جسے دہشت گرد قرار دیا جا چکا تھا‘ نے تامل ناڈو میں اپنے تربیتی کیمپ قائم کر رکھے تھے۔ یہ اڈے بھارت کی مرکزی حکومتوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں تھے۔ بھارت کی کسی حکومت نے نہ تو ان دہشت گردوں کی تربیت کے اڈوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور نہ ایل ٹی ٹی ای کی طرف سے لوگوں سے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں کوئی رکاوٹ ڈالی بلکہ 1987 میں تامل بغاوت کو کچلنے کے بہانے راجیو گاندھی نے سری لنکا میں بھارتی فوجی دستے بھی بھیجے تھے‘ جسے امن فورس کا نام دیا گیا تھا‘ لیکن ایل ٹی ٹی ای کے ساتھ جنگ میں بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد راجیو گاندھی کو آخر کار سری لنکا سے بھارتی فوجیں واپس بلانا پڑی تھیں۔ 1990 کی دہائی اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کا زمانہ سری لنکا کے لئے بڑا کٹھن وقت تھا۔ ایک طرف ایل ٹی ٹی ای کی دہشت گردی کی کارروائیاں‘ جن میں خود کُش حملے بھی شامل تھے‘ جاری تھیں‘ اور دوسری طرف سری لنکا کی طرف سے دوست ممالک کی امداد لینے کی کوششوں کی بھارت کی جانب سے سخت مخالفت کی جا رہی تھی۔ بھارت کے اسی رویے نے سری لنکا کو نہ صرف چین بلکہ پاکستان کے بھی قریب کر دیا۔
پاکستان نے سری لنکا کی فوج کو تامل بغاوت کچلنے میں مدد دینے کے لئے تکنیکی امداد فراہم کی‘ اور چین نے سری لنکا میں انفراسٹرکچر‘ جس کی تعمیر کی طرف طویل خانہ جنگی میں کوئی توجہ نہیں دی جا سکی تھی‘ کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ یہ سب کچھ سابق صدر مہندا راجا پاکسا کے دور میں ہوا‘ یعنی سری لنکا کے ساتھ نہ صرف چین بلکہ پاکستان کے بھی دوستانہ تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ بھارت اس رجحان کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور وہ مہندا راجا پاکسا سے خوش نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2015 کے صدارتی انتخابات میں مہندا راجا پاکسا ہار گئے اور ان کی جگہ میتھری پال سری سینا نے صدارت کا عہدہ سنبھال لیا تو بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بہت خوش ہوئے تھے اور انہیں توقع تھی کہ نئے سری لنکن صدر ملک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھ کر بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیں گے‘ لیکن نریندر مودی کی امید بر نہ آئی۔ صدر سری سینا کے دور حکومت میں چین اور سری لنکا کے باہمی تعاون کا عمل معمولی سی سست روی کا ضرور شکار ہوا‘ مگر سری لنکا نے چین کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات کو ڈائون گریڈ نہیں کیا‘ بلکہ چین کے میری ٹائم سلک روڈ کے منصوبے میں شامل ہو کر بھارت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں راجا پاکسا برادران نے غیر معمولی کامیابی حاصل کر کے سری لنکا کے چین کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بحال کر دیا ہے‘ اور اس وقت سری لنکا میں ان تمام منصوبوں پر کام ہو رہا ہے‘ جن میں چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور جن کی تکمیل سے نہ صرف سری لنکا میں انفراسٹرکچر بہتر ہو گا بلکہ بحرِ ہند کے وسط میں واقع یہ ملک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے عظیم منصوبے کی اہم کڑی کا کردار بھی ادا کرے گا۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved