تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     18-10-2020

چھ گھنٹے دہشت گرد کے چنگل میں …(1)

27 اکتوبر 2018 کو صبح چھ بجے جب ہم کلیو لینڈ، امریکہ سے شکاگو جانے کے لیے میگا بس کے ٹرمینل پر پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش جاری تھی۔ ہمارے پُرخلوص اور مہمان نواز میزبان جناب قمر خان صاحب اور ان کے دوست ہمیں رخصت کرنے آئے تھے۔کلیو لینڈ پہنچنے سے اس رخصت کے دن تک ہر مرحلے پر انہوں نے بہت خیال رکھا تھا۔ میگا بس امریکہ کی بہترین جدید ترین بس سروس میں ہے۔ اگر سامان زیادہ ہو تو اس کا ٹکٹ علیحدہ سے ہوتا ہے اور قمر صاحب نے ہمارے آرام کے لیے اضافی نشستوں اور زائد سامان کی بکنگ علیحدہ سے کروا رکھی تھی۔ میگا بس ایک بڑی اور اسی سے زائد نشستوں کی دو منزلہ آرام دہ بس ہے جس میں انٹرنیٹ، ٹی وی، واش روم وغیرہ کی سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ بس کلیو لینڈ سے شکاگو تک چھ گھنٹے کے سفر میں ایک جگہ پندرہ منٹ کے لیے رکتی ہے۔
کلیو لینڈ میں کل رات مشاعرہ تھا جو دیر سے ختم ہوا۔ پھر عشائیے سے فارغ ہو کر ہوٹل پہنچتے مزید دیر ہو گئی۔ صبح جلدی نکلنا تھا اس لیے پیکنگ کرکے سونے کے لیے لیٹے اور سمجھیں کہ فوراً ہی بیدا ر ہوگئے۔ ناشتہ جلدی میں کیا گیا اور صبح پانچ بجے سے کچھ بعد نکل پڑے۔ رات کی تھکن، نیند کی کمی اور کل رات مشاعرے میں ایک ہم سفر شاعر کی طرف سے ناخوشگوار واقعات‘ ان سب نے طبیعت نڈھال کر رکھی تھی اور خوبصورت موسم کے باوجود دل تروتازہ نہیں تھا۔ سامان زیادہ تھا‘ اس لیے دو گاڑیوں میں میگا بس ٹرمینل پہنچے تو بس تیار تھی اور مسافر نہ ہونے کے برابر تھے۔ ٹرمینل تقریباً خالی تھا۔ تین چار سیاہ فاموں پر مشتمل بس کا عملہ بس کے پاس کھڑا تھا۔ گاڑیاں بس سے دور کھڑی کرنا پڑی تھیں؛ چنانچہ سامان گھسیٹ کر بس کے قریب لائے۔ بارش قدرے تیز ہوگئی تھی اور اسی میں یہ کام انجام دینا پڑا۔ سامان بس کے قریب اکٹھا کرکے ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ مسافر ہم تین یعنی ہندوستانی شاعر خوشبیر سنگھ شاد، اور پاکستان سے سعود عثمانی اور رحمان فارس تھے۔ آج شکاگو پہنچ کر رات کو پھر مشاعرہ تھا اور اندازہ تھا کہ آرام کا وقت کم ہی مل سکے گا۔
'' مین! یہ کیا ہے؟ تمہارا سامان تو بہت زیادہ ہے۔ تمہیں زیادہ پیسے دینے ہوں گے‘‘ کسی نے کڑکتی ہوئی غصے والی آواز میں کہا۔ ہم نے حیران ہوکر کہنے والے کی طرف دیکھا۔ وہ عملے کے تین چار سیاہ فاموں میں سے ایک تھا ''لیکن سامان کے الگ پیسے تو پہلے ہی دئیے جا چکے ہیں ‘‘ ہمارے میزبان نے کہا۔ وہ پہلے ہی ٹکٹ اور بکنگ ان کو چیک کرا چکے تھے۔ ''نہیں سامان پھر بھی زیادہ ہے اور تمہارا کیبن کا بیگ سائز بھی بڑا ہے۔ یہ کیبن میں نہیں لے جانے دوں گا‘‘ اس نے پھر غصے سے بلند آواز میں کہا۔
اس بار میں نے اسے غور سے دیکھا اور پھر دیکھا، اور پھر دیکھا۔ کچھ فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ یہ مرد ہے یا عورت۔ لڑکا ہے جو ابھی ابھی بلوغت کی عمر کو پہنچا ہے یا مرد ہے جو عمر چور ہے اور قد ٹھگنا رہ جانے کے باعث لڑکا لگ رہا ہے؟ وہ باقی سیاہ فام عملے سے الگ سا تھا اور لمبے تڑنگے نیگروز کے سامنے کافی چھوٹا لگ رہا تھا۔
''سامان کے ہم الگ پیسے دے چکے ہیں اور کیبن سائز میں کیا خرابی ہے؟ انہی بیگز کے ساتھ بین الاقوامی اور امریکی فلائٹس میں سفر کیا جا چکا ہے۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا‘‘۔
'' یو گائز! you guys)) تم لوگوں نے پورے ٹرمینل میں سب کا راستہ روک رکھا ہے۔ راستے سے پرے ہٹ کر ایک طرف کھڑے ہو‘‘ اس نے دھاڑ کر پوری قوت سے کہا۔
ہم سب نے بوکھلا کر ایک دوسرے کو اور راستے کو دیکھا جس پر ہم بس کے پاس کھڑے تھے۔ دور دور تک ہمارے سوا کسی مسافر کا نام و نشان ہی نہیں تھا اس لیے کسی کا راستہ رکنے کا کیا سوال تھا‘ لیکن اس کی دھاڑ نے ایسا اثر کیا کہ ہم سب سہم کر ایک قطار میں ایک طرف کھڑے ہو گئے۔
''اچھا چلو! سامان کے کمپارٹمنٹ میں سامان رکھو۔ میرے پاس بس چلانے میں صرف دس منٹ ہیں۔ اس سے زیادہ میں ایک منٹ نہیں دوں گا‘‘ اس نے غرا کر کہا۔
یہ بات مزید غیر متوقع تھی۔ کیا ہم خود سامان رکھیں؟ ہم نے پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہم اچھے خاصے معزز لوگ تھے اور کبھی یہ شک بھی نہیں ہوا تھاکہ ہم شکل سے ایسے نہیں لگتے۔ مانا کہ اپنا کام خود کرنا کوئی عیب کی بات نہیں اور ہم کرتے بھی ہیں‘ لیکن سوال یہی تو تھاکہ کیا یہ ہمارا کام ہے؟ پاکستان میں کسی بھی معمولی یا اعلیٰ بس سروس میں سامان اٹھانا، رکھنا، کمپارٹمنٹ میں لگانا یا نکالنا سب عملے کی ذمے داری ہوتی ہے‘ مسافروں کی نہیں۔ اور پاکستان کو چھوڑیں، دنیا بھر میں جہاں بھی گئے تھے، ہر جگہ یہی دستور تھا۔ کسی جگہ مسافروں کو یہ توقع نہیں ہوتی کہ وہ سامان خود لگیج کمپارٹمنٹ میں گھس کر رکھیں گے اور نکالیں گے۔ اور آخر یہ جو مہنگا ٹکٹ ہے، اس میں یہ سروس کیوں شامل نہیں ہے؟ اور پھر یہ ہٹے کٹے مشٹنڈے سیاہ فام جو ساتھ کھڑے ہیں، کس مرض کی دوا ہیں؟
'' آٹھ منٹ رہ گئے ہیں‘‘ ٹھگنے نے پھر للکارا۔ یہ طے ہوگیا تھا کہ وہ کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہم تیزی سے حرکت میں آگئے۔ عمر کے لحاظ سے رحمان فارس سب سے کم عمر تھے، اور ان کے بعد سعود عثمانی۔ باقی سب ہم سے بڑے تھے لہٰذا ہم نے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ ایک ذرا جونیئر معزز شاعر لگیج کمپارٹمنٹ میں گھس کر سوٹ کیس سیٹ کرتا رہا اور دوسرا ذرا کم جونیئر معزز شاعر اسے یہ بھاری سوٹ کیس پکڑاتا رہا۔ چاروں سیاہ فام کمر پر ہاتھ رکھے ہماری یہ کارکردگی ملاحظہ کرتے رہے۔ کام ختم ہوا تو اتنی دیر میں میزبان راستے کے لیے پھل اور کھانے پینے کا سامان ہمارے لیے لا چکے تھے۔ ہم میزبانوں سے گلے ملے، ان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور بس میں سوار ہوگئے۔ ہم تین مسافر تھے لیکن ہمارے پاس چار سیٹیں تھیں تاکہ دقت نہ ہو۔ یہ سیٹیں ڈرائیور کے عین پیچھے متصل تھیں۔ دو سیٹیں دائیں طرف کھڑکی کے ساتھ، پھر مسافروں کی راہداری۔ پھر دو سیٹیں بائیں طرف کھڑکی کے ساتھ تھیں۔
سیٹوں پر بیٹھتے ہی ہم نے اطمینان کا سانس لیا کہ سارے مراحل طے ہوگئے تھے۔ پوری بس میں گنتی کے چند مسافر تھے۔ شاید کل ملا کر سات یا آٹھ‘ اور اب ڈرائیور کا انتظار تھا کہ وہ آئے، اپنی سیٹ پر بیٹھے اور بس روانہ ہو‘ لیکن ہمارے اطمینان کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ ہمارے خوف اور دہشت کی انتہا نہیں رہی جب ہم نے دیکھا کہ وہی گِٹھا، بدتمیز، بد مزاج سیاہ فام چھلانگ لگا کر ڈرائیور کی سیٹ پر چڑھا اور سٹیئرنگ سنبھال لیا۔ وہی ہمارا ڈرائیور تھا اور اب ہمارے اگلے چھ گھنٹے اسی کے ساتھ گزرنے تھے۔ میں اس وقت اپنے ساتھ والی خالی سیٹ پر ایک پاؤں رکھ کر نیم دراز ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس نے پہلے میری طرف توجہ کی۔ 
''مین! یہ تم کس طرح ٹیڑھے میڑھے بیٹھے ہوئے ہو؟ کیا تمہیں سیدھا بیٹھنا نہیں آتا؟‘‘ اس نے غصے سے کہا۔ میں ڈر کر سیدھا ہوا اور ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ دوسری باری خوشبیر سنگھ شاد کی تھی۔ وہ لفافے سے چپس کا پیکٹ نکال کر کھا رہے تھے۔ ظاہر ہے ہم میں سے کوئی اتنا بدتمیز نہیں تھا کہ چھلکے یا خالی پیکٹ فرش پر گرائے لیکن کم بختی آجائے تو کچھ برا کرنا، نہ کرنا سب بیکار ہے۔ ''میں اپنی بس میں خالی پیکٹ اور لفافے برداشت نہیں کرتا‘‘ ٹھگنا بولا ''اگر نیچے فرش پر کچھ گند گرا تو تم سے ہی صفائی کرواؤں گا‘‘۔ ''لیکن فرش پر تو ہم نے کوئی چیز نہیں گرائی‘‘۔ چھ فٹے لحیم شحیم خوشبیر سنگھ شاد نے پھنسی پھنسی دبی دبی آواز میں کہا۔'' میں نے یہ نہیں کہا کہ تم نے گرائی ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مت گرانا‘‘ ٹھگنے کی آواز میں نرمی ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکتی تھی۔ خوشبیر سنگھ شاد بھی ایک دم مثالی تمیزدار بچے کی طرح بیٹھ گئے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved