ڈاکوئوں کو این آر او دینا تباہی کا راستہ ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''ڈاکوئوں کو این آر او دینا تباہی کا راستہ ہے‘‘ اگرچہ پہلے بھی ہم تباہی کے راستے پر ہی چل رہے ہیں کیونکہ مہنگائی سے بڑھ کر تباہ کن چیز اور کوئی نہیں ہو سکتی؛ تاہم یہ مہنگائی بھی اب چند دنوں ہی کی بات ہے کیونکہ ہماری ٹائیگر فورس کو اس کے مقابلے کے لیے پوری طرح سے لیس کر دیا گیا ہے جو ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی کرے گی اور مہنگائی کا خاتمہ اپنے آپ ہی ہو جائے گا، یعنی آخر مک مکا کرتے کرتے ذخیرہ اندوز خود ہی تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے اور یہ کام چھوڑ دیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
قومی خزانہ لوٹنے والوں کی سیاست ختم ہو چکی: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''قومی خزانہ لوٹنے والوں کی سیاست ختم ہو چکی‘‘ اس لیے اب وہ لوٹے ہوئے اس خزانے پر ہی گزر اوقات کریں تو بہتر ہے کیونکہ ہم اسے واپس تو لا نہیں سکے بلکہ نواز شریف کی واپسی بھی روز بروز مشکل ہوتی جا رہی ہے، تاہم ان جلسوں سے بھی لٹا ہوا خزانہ کافی حد تک عوام کو واپس آ رہا ہے، اسی لیے ہم ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تا کہ یہ لوگ تھک تھکا کر خود ہی خاموش ہو کر بیٹھ جائیں کیونکہ ہم اگر گھر گئے تو اپنی مرضی سے جائیں گے، ان جلسوں سے نہیں۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ جلسے پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
اپوزیشن بتائے کہ جلسہ کیلئے ایک ارب
تین کروڑ کہاں سے آئے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن بتائے کہ جلسہ کے لیے ایک ارب تین کروڑ کہاں سے آئے‘‘ اگرچہ یہ سوال کافی معصومانہ ہے کیونکہ کھربوں کی لوٹ مار میں سے اگر ایک ڈیڑھ ارب خرچ بھی کرنا پڑ جائے تو کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور ہم بھی اس جلسے کے اثرات سے کافی حد تک سنبھل چکے ہیں اور اگر چند اور جلسے ہو گئے تو ہمیں ان کی عادت پڑ جائے گی اور یہ ایک روٹین کا مسئلہ ہو کر جائے گا جبکہ ہمارے لگائے ہوئے کنٹینروں کو ہٹانا سخت زیادتی ہے۔ اس لیے آئندہ بُلڈوزر لگانے کی کوشش کریں گے۔ آپ اگلے روز اپوزیشن کے گوجرانوالہ جلسے پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
عمران خان کو لانے والوں کو بھی
میں یاد آ رہا ہوں: نواز شریف
مستقل نا اہل، سزا یافتہ، مفرور اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو لانے والوں کو بھی میں یاد آ رہا ہوں‘‘ اوروہ مجھ سے بغل گیر ہونے کو تیار بیٹھے ہیں تاہم میری جدائی انہیں ابھی کچھ عرصہ اور برداشت کرنا پڑے گی کیونکہ میں یہاں لندن میں بیٹھ کر ہی پُر سکون محسوس کر رہا ہوں ‘نیز مریم نواز کے وزیراعظم بننے کا بھی انتظار کر رہا ہوں جس نے حلف برداری کی ریہرسل بھی شروع کر دی تھی بلکہ اس کی باقاعدہ تربیت کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
صفحہ پلٹتے دیر نہیں لگتی: مریم نواز
سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''کہتے ہیں سب ایک پیج پر ہیں، صفحہ پلٹتے دیر نہیں لگتی‘‘ جبکہ پہلے بھی ہم اسی پیج پر براجمان رہے ہیں جس کی یاد ہمیں بھی بے حد ستاتی ہے اور جس کے لیے والد صاحب سمیت ہم سب پوری کوشش کر رہے ہیں کیونکہ سیانوں نے کہہ رکھا ہے کہ اگر منّت سے کام نہ نکلے تورعب سے نکالنے کی کوشش کر لینی چاہیے۔ چلئے اس طرح سیانوں کا بھی امتحان ہو جائے گا کہ بہتری آتی ہے یا کام مزید خراب ہوتا ہے یعنی ستیاناس کے بجائے سوا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ اور اس دوران اگر یہی تجربہ حاصل ہو جائے تو اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
حکومت دسمبر نہیں دیکھے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت دسمبر نہیں دیکھے گی‘‘ اور یہ ہمارا اندازہ ہی ہے کیونکہ اگر وہ دسمبر کو دیکھنا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے بشرطیکہ اس کی بینائی ٹھیک کام کرتی ہو ‘حالانکہ دسمبر سخت سردی کا مہینہ ہے اور اس کا نہ دیکھنا ہی بہتر ہے ۔تاہم، ہم تو مشورہ ہی دے سکتے ہیں، نیز اگر حکومت دسمبر دیکھنا بھی ہو تو اسے گرم کمروں میں بیٹھ کر دیکھے کیونکہ باہر نکلنے اور دسمبر کی سردی کھانے کے لیے ہم جو ہیں‘ کیونکہ اگر کھانے کو اور کچھ دستیاب نہیں ہوتا تو سردی ہی سہی، تاہم یہ سارے موسم نعمت ہیں ‘اس لیے ان سب کو باری باری دیکھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں رُستم نامیؔ کی یہ غزل:
نہیں یہ بھی نہیں اچھا اگرچہ
اُسے سمجھی نہیں دنیا اگرچہ
مگر ہم سہتے سہتے سہہ گئے ہیں
جدائی تھی بڑا صدمہ اگرچہ
مگر پھر بھی بہت بکھرا پڑا ہوں
کیا خود کو بہت یکجا اگرچہ
تمہارے کام آنے کا نہیں ہے
تمہارے پاس ہے پیسہ اگرچہ
مگر تم سا کہاں سے مل سکے گا
یہاں ہر کوئی ہے تم سا اگرچہ
مگر ہر بار توڑی تیری خاطر
بہت ہم نے بھی کی توبہ اگرچہ
مگر رسوائی کے زمرے میں ہے وہ
ہر اک سُو ہے ترا چرچا اگرچہ
اُسے کھانا ہے مجبوری ہماری
محبت ہے بڑا دھوکا اگرچہ
چل اپنا شریکِ رزق تو ہے
نہیں وہ کام کا بندہ اگرچہ
ہمیں سیراب کرنے سے ہے قاصر
ہمارے دل میں ہے دریا اگرچہ
اُسے پھر بھی نہ حاصل کر سکے ہم
ہماری دسترس میں تھا اگرچہ
مگر اچھی طرح کب دیکھ پائے
اسے ہم نے بہت گھُورا اگرچہ
تعلق بے رُخی کا تو ہے موجود
نہیں اُن سے مرا رشتہ اگرچہ
چلاتا ہے خدائے پاک نامیؔ
زیادہ ہے مرا خرچہ اگرچہ
آج کا مقطع
کچھ لین دین عشق میں تھا ہی نہیں، ظفرؔ
یہ اس لیے بھی کوئی تجارت کبھی نہ تھی