تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     18-10-2020

موڈ

متحدہ اپوزیشن نے مسلم لیگ (ن) کے گڑھ گوجرانوالہ سے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کی 11 جماعتیں گوجرانوالہ کے جناح سٹیڈیم کو بھرنے میں کامیاب رہیں۔ مینڈیٹ بھی یہی تھا کہ اس گراؤنڈ کو بھرنا ہے‘ تو اس اعتبار سے اپوزیشن کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس جلسے میں شامل افراد مختلف نظریات کے حامل تھے‘ اس لیے ان سے یہ توقع کرنا کہ تمام لیڈرز کی تقاریر پر ان کا یکساں ردعمل سامنے آئے‘ غیرمنطقی ہوگا۔ جو لوگ پیپلز پارٹی کے جھنڈے لے کر آئے تھے وہ بلاول بھٹو کی بات سننا چاہتے تھے کہ ان کا لیڈر ان حالات میں کیا کہتا ہے‘ مولانا فضل الرحمن کے کمیٹڈ ورکر یہ جاننا چاہتے تھے کے مولانا کیا کہتے ہیں‘ کیونکہ گوجرانوالہ جلسے کی بنیادی میزبان مسلم لیگ (ن) تھی ‘لہٰذا اس جلسے میں زیادہ تعداد لیگی کارکنوں کی تھی‘ جن کی توجہ کا محور و مرکز نواز شریف اور مریم نواز کی تقریریں تھیں‘ لہٰذا کسی ایک پارٹی کا جلسہ نہ ہونے کے باعث یہ ایک بہت زیادہ منظم جلسہ تو نہ تھا لیکن اسے ہم ایک مجمع یا ہجوم کہہ سکتے ہیں جو کہ اپنی ذہنیت کے اعتبار سے کافی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جب کسی ایک پارٹی کے سپورٹرز یا ووٹرز ایک میدان میں موجود ہوں تو وہاں پر لیڈر جو بات کرتا ہے وہ اس کو من و عن تسلیم کرتے ہیں اور اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں‘ لیکن جب لوگ مختلف بیک گراؤنڈ کے سیاسی نظریات لے کر کسی ایک جگہ پر اکٹھے ہوں تو ان کی سوچ بھی مختلف ہوتی ہے۔ ان معاملات کو دیکھنے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے‘ لہٰذا ان سے یکسوئی کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ مختلف الخیال لوگ جو بہت زیادہ تربیت یافتہ بھی نہ ہوں‘ اپنی قیادت کی جانب سے کی گئی تقاریراور پہنچائے گئے لفظوں کے کیا مطلب لے کر جاتے ہیں اس کا باقاعدہ اندازہ لگانا کافی مشکل کام ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے 20 ستمبر کو کی گئی اے پی سی میں مسلم لیگ( ن) کے قائد نواز شریف نے جو لب و لہجہ اختیار کیااور پھر اس کے بعد سے مختلف اجلاسوں ‘ پریس کانفرنسز اور میڈیا ٹاکس میں جو زبان اور لب و لہجہ اختیار کیا گیا تو یہ لگنا شروع ہو گیا تھا کہ متحدہ اپوزیشن بہت زیادہ سخت رویہ اختیار کرنے کے موڈ میں نہیں ہے‘ بلکہ ایک موقع پر مریم نواز کے ساتھ ایک میڈیا ٹاک میں مولانا فضل الرحمن نے کہا بھی کہ ہمیں دفاعی اداروں اور ان کی قیادت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی اس حوالے سے براہ راست کوئی گفتگو نہیں کی گئی‘لہٰذا قیاس کیا جا رہاتھا کہ پی ڈی ایم کے کے جلسے کا بنیادی ہدف صرف حکومت اور اس کی بدانتظامی کی وجہ سے پھیلنے والی بیروزگاری اور مہنگائی ہی ہوگی‘ لیکن معاملات اس کے برعکس رہے۔جو گفتگو پہلے ڈھکے چھپے الفاظ میں کی جا رہی تھی اور جو الزامات صرف اجلاسوں کی حد تک تھے اب وہ کھلے بندوں آچکے ہیں۔ قائد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنی سابقہ حکومت کی مشکلات‘ 2018ء کے الیکشن کی چوری‘ عدلیہ پر ناجائز دباؤ اور عوامی حقوق پر ڈالے جانے والے ڈاکے‘ مہنگائی بے روزگاری اور معاشی انحطاط کے الزامات براہ راست سپہ سالار پر لگانا دراصل موجودہ صورتحال سے ان کی سخت مایوسی کا اظہار ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ نواز شریف یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ بند گلی میں دھکیلے جا چکے ہیں اور اب سوائے واپس پلٹ کر لڑنے کے ان کے پاس کوئی آپشن نہیں رہا۔ بقول نواز شریف کے انہیں غدار‘ باغی یا مفرور سے کہلانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جب نواز شریف یہ تقریر کر رہے تھے تو اس وقت جلسے میں موجود لیگی کارکن بڑے جوش و جذبے سے سے ان کی تقریر کا نعروں سے جواب دے رہے تھے تھے‘ لیکن جیسے ہی یہ تقریر ختم ہوئی مجمعے نے آہستہ آہستہ چھٹنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ شاید اس لئے بھی آئے تھے کہ وہ وہ اس جلسے کی رونق کو دیکھ سکیں۔ سٹیڈیم کے باہر کھانے پینے کے سٹال‘ بڑی بڑی روشنیاں اور اندر لگے ہوئے ترانوں نے ایک میلے کا سا سماں باندھ رکھا تھا تو ایسے میں عام لوگ بھی رونق دیکھنے آ جاتے ہیں۔ ایک بڑی عجیب بات جو کہ اس جلسے میں نوٹ کی گئی وہ یہ تھی کہ اپنے اپنے لیڈر کی تقاریر کے بعد لوگوں نے اپنے گھروں کی راہ لی۔ بلاول کی تقریر سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کی تقریروں کے بعد (ن) لیگ کے بہت سے کارکن جا چکے تھے۔ مولانافضل الرحمن‘ جو کہ پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیں‘کی تقریر کے وقت تو پنڈال کافی خالی ہوچکا تھا۔ مولانا نے منتشر مجمعے اور کافی خالی کرسیوں سے خطاب فرمایا۔ جس طرح مولانا نے عوام کو انتظار کرایا تو عوام نے حساب برابر کر دیا۔
مولانا کی صدارت سے مجھے ایم آر ڈی کے نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم یاد آگئے۔ ضیاالحق دورمیں بحالی جمہوریت کے لیے چلائی گئی تحریک کے سربراہ کی ضرورت پڑی تو نوابزادہ نصراللہ خان کو سربراہ بنایا گیا اور ان کی سربراہی میں تمام پارٹیوں کو جوڑ کر بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی گئی۔ لیکن جمہوریت بحال ہونے کے بعد اصل سربراہی بڑی پارٹیوں کے حصے میں آئی۔ اقتدار کا ہما بڑی پارٹیوں کے سر پر ہی بیٹھتا ہے‘ جبکہ نوابزادہ نصراللہ کے حصے میں کشمیر کمیٹی کی سربراہی آئی۔ شاید اسی لیے اپنی تقریر میں مولانا نے موجودہ حکومت پر کشمیر بیچنے کا الزام بھی عائد کیا۔ خدا نخواستہ اگر یہ الزام سچ ہوا تو مولانا کے حصے میں کیا آئے گا؟ بہرحال مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اختیار کئے گئے رویے سے یہ بات بہت واضح ہوگئی ہے کہ نواز شریف نے 20 ستمبر کو جو بیانیہ اختیار کیا تھا گوجرانوالہ کے جلسے میں انہوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ اسی جلسے میں نواز شریف نے سینیٹ انتخابات کی چوری کا ذکر بھی کیا تھا‘ جس میں مبینہ طور پر پیپلز پارٹی بھی شامل رہی ہے‘ جس کا برملا اعتراف بلاول بھٹو اور آصف زرداری اپنے الگ الگ انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔ جس وقت نواز شریف یہ الزام عائد کر رہے تھے اس وقت اُن کے مخاطب وہ تمام کردارتھے جو اس وقت اس کھیل میں شامل تھے۔ یاد رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے کی سخت مخالف تھیں ‘لیکن آج ایک پیج پر ہیں۔
اسی جلسے میں مریم نواز کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ آپ جس ایک پیج پر نازاں ہیں تو یہ زیادہ خوش ہونے کی بات نہیں کیونکہ یہ پیج کبھی بھی پلٹ سکتا ہے۔ مجھے یہ بات نواز شریف کی تقریر سے متضاد لگی کیونکہ جب یہ پیج پلٹے گا تو اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں میں سے کوئی ایک جماعت اس پیج پر ہوگی ‘لیکن اس پیج پر موجود دوسرا فریق وہی ہوگا جس کے ساتھ آج عمران خان موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ایک ہی جماعت کی تقریروں میں یہ تضاد محسوس ہوا۔ دوسری طرف عوامی مشکلات پر اپوزیشن لیڈرز کی کہی گئی تمام باتوں کا کریڈٹ میں عمران حکومت کو دوں گا کہ انہوں نے ہی ان تمام جماعتوں کوعوام کے دکھ درد اور ان کی مشکلات سمجھنے کا موقع دیا ہے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں‘ کمر توڑ مہنگائی اور حد سے بڑھتی بیروزگاری موجودہ حکومت کے تحفے ہیں۔ اس وقت ملک میں ڈیڑھ کروڑ بیروزگاروں کا اضافہ ہو چکا ہے جو کہ کسی بھی پارٹی کو 2018ء کے الیکشن میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی عمران خان حکومت کو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی بد انتظامی اور انتہائی کمزور گورننس کے باعث ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے ایسے رہنماجن پر کرپشن کے الزامات ہیں وہ ایک ایسے وزیر اعظم کے خلاف تحریک چلانے کے قابل ہو گئے ہیں جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔
پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ آج کراچی میں ہورہا ہے‘ جس کی بنیادی میزبان پیپلزپارٹی ہے اور اس کے بعد 25 اکتوبرکو کوئٹہ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی میزبانی میں جلسہ منعقد کیا جائے گا۔ اس کے بعد ہی پی ڈی ایم کی تحریک کے اصل موڈ کا تعین کیاجاسکے گا کہ کیا متحدہ اپوزیشن نے واقعی ملک میں ''حقیقی جمہوریت‘‘کی سر بلندی کا اجتماعی فیصلہ کرلیاہے‘ یا پھر میاں نواز شریف صرف اپنا سکور سیٹل کرنے میں لگے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved