تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-10-2020

منقسم ذہن

جو کچھ بھی ہے‘ ذہن سے ہے۔ کوئی بھی چیز سب سے پہلے ذہن کے پردے پر اُبھرتی ہے اور پھر اُسے عملی شکل دی جاتی ہے۔ ذہن کے پردے پر اُبھرنے والی تصویریں ہماری زندگی کو رنگا رنگ بناتی ہیں۔ یہی تصویریں رفتہ رفتہ تصورات اور پھر خیالات کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ دنیا کو زیادہ سے زیادہ رنگینیوں سے ہم کنار کرنے کیلئے ذہن کا واضح اور توانا ہونا لازم ہے۔ توانا ذہن ہی مستعد ہوتا ہے اور سوچ سکتا ہے۔ ہم حواسِ خمسہ کے ذریعے جس قدر بھی ادراک پاتے ہیں وہ ذہن کی عمدہ کارکردگی کے نتیجے ہی میں کچھ کام کا بن کر ابھرتا ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہے‘ وہ ہم پر بے نقاب ہے۔ اِس میں کچھ تو بہت کام کا ہے‘ کچھ ذرا کم کام کا ہے اور باقی وہ ہے جو کسی بھی کام کا نہیں۔ ذہن کی مدد سے ہی ہم طے کر پاتے ہیں کہ ہمارے لیے کام کی باتیں کون سی ہیں اور کن باتوں پر خفیف سی بھی توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب سبھی کچھ ذہن پر منحصر ہے تو سبھی کے پاس ذہن ہونے کے باوجود ہر طرف خرابیاں کیوں ہیں۔ دراصل معاملہ بیدار مغزی کا ہے۔ اس وقت چند ایک معاشرے ہی کسی حد تک‘ سیاسی، اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے بیدار مغز قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اس خامی کو دور کرنے کرنے کیلئے سوچ کی مشق لازم ہے۔ مکالمہ ناگزیر ضرورت ہے۔
مذہب، سیاست، معاش، معاشرت، نظریہ، تاریخ ... غرضیکہ کم و بیش ہر معاملے میں اب ذہن کا الجھاؤ نمایاں ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تناؤ کی کیفیت نمودار ہوتی ہے اور ذہن کی صلاحیت و سکت متاثر ہونے لگتی ہے۔ یہ کیفیت ذہن کو عدم توازن کی طرف لے جاتی ہے۔ ہر دور کے انسان کو منقسم ذہن کا سامنا رہا ہے۔ بہت سے معاملات ہمارے ادراک پر اِس طور اثر انداز ہوتے ہیں کہ ہم ڈھنگ سے سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذہنوں پر مرتب ہونے والا دباؤ خیالات کو تقسیم کی طرف لے جاتا ہے اور یہ حالت انسانیت کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس وقت بھی انسانیت کو منقسم ذہن کی شکل میں بہت بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ذہن کو تقسیم کرنے والے عوامل کے لحاظ سے یہ دور تباہ کن حد تک بحرانی ہے۔ ذہن پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ حواسِ خمسہ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ دباؤ ہمیں سوچنے کی منزل سے دور لے جارہا ہے۔ عصری علوم و فنون میں غیر معمولی بلکہ حیرت انگیز نوعیت کی پیشرفت نے ہمیں ایسی صورتحال سے دوچار کردیا ہے جس میں ذہن کی حالت قابلِ رحم ہوچکی ہے۔ سوچنے کا عمل اب ہمیں بہت پریشان کن اور تھکانے والا محسوس ہونے لگا ہے۔ ایسے میں ہم بعض معاملات میں غیر محسوس طور پر اور بعض معاملات میں خاصے نمایاں انداز سے بے ذہنی کی طرف کھسک رہے ہیں۔ جب بے ذہنی کا گراف بلند ہوتا ہے تو انسان ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے موزوں اور بروقت ردِ عمل ظاہر کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہتا۔ بے ذہنی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم معاملات کی تہہ تک جانے سے گریز کرتے ہیں اور جیسے تیسے وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں شعور کھل کر پنپ نہیں پاتا۔
بہت سے عوامل مل کر ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ادراک اور تفکر دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ خاندان اور ماحول کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی ماحول میں پائی جانے والی کئی حقیقتیں مل کر انسان کو فکری انتشار سے دوچار کرتی ہیں اور پھر وہ قدرے لاچاری کی سی حالت میں منقسم ذہن کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وسائل کی قلت، غیر قانونی ہتھیاروں کی دستیابی، ذہنی خلل دور کرنے میں ناکامی، خود کو ذہنی مریض تسلیم کرنے سے انکار اور علاج سے گریز وہ عوامل ہیں جو ذہن کو واضح الجھن اور تقسیم کی طرف لے جاتے ہیں۔
جب ذہن کی تقسیم ختم نہیں ہوتی یعنی وہ سمجھنے اور سوچنے کے قابل نہیں رہتا تب معاملات الجھتے چلے جاتے ہیں اور یہ حالت بالآخر شدید خوف اور اضطراب پر منتج ہوتی ہے۔ خوف اور اضطراب مل کر ایک ایسا گڑھا تشکیل دیتے ہیں جس میں گرتے چلے جانا ہی بہت سوں کا مقدر ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت آخرِکار جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ ایسے میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ بالعموم بے ذہنی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سوچے بغیر کچھ بھی کرنا بڑی تباہی لاتا ہے۔ منقسم ذہن والے افراد تشدد سے بچنے کے لیے تشدد کی راہ پر گامزن ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے! حالات کے پیدا کردہ عوامل کے آگے ہتھیار ڈال دینے والا ذہن منقسم ہو جانے کے بعد نسل پرستی، مطلق العنانیت، مایوسی، اجنبیوں کے خوف اور زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کی خواہش جیسی خرابیوں کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے حالات کا ہر معاشرے کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمومی سطح پر دھیرے دھیرے پنپنے والی خرابیوں کے علاوہ کبھی کبھی کسی معاشرے یا ریاست کو اچانک بہت بڑے بحران یا بحرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنگ، معاشی بحران (کساد بازاری یا افراطِ زر)، سیاسی اُتھل پُتھل یا ایسی ہی کسی اور ابتر حالت میں اگر لوگوں کو بروقت دلاسا نہ دیا جائے، ذہنی پیچیدگیاں دور کرنے پر توجہ نہ دی جائے تو اُن کے ذہن منقسم ہو جاتے ہیں۔ یوں شش و پنج کا سا ماحول پیدا ہوتا ہے جو انسان کو سمجھنے، سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت سے محروم کرتا چلا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا خاصے نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔ فکری صلاحیتیں شدید دباؤ میں ہیں۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ رونما ہو رہا ہے جو انسان کو ڈھنگ سے سوچنے اور اُس پر عمل کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ انتہائی غیر معمولی تکنیکی ترقی کے باوجود آج کا انسان بیشتر معاملات میں میکانیکی سا ہوکر رہ گیا ہے۔ ساری سہولتیں ذہن کی پیداوار ہیں مگر یہی سہولتیں ذہن کو کام کرنے سے روک بھی رہی ہیں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اُسے قبول کرتے رہنے کی ذہنیت پنپ رہی ہے۔ ماحول یہ ''تحریک‘‘ دے رہا ہے کہ ''ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویر بن جائیے، سوچنا چھوڑ دیجیے اور تھوڑے کو بہت گردانتے ہوئے اطمینان کے ساتھ مجموعی طور پر بے عملی کی زندگی بسر کیجیے۔ ماحول یہ بھی کہتا ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں وہی طرزِ عمل اختیار کیجیے جو شُتر مرغ اختیار کیا کرتے ہیں یعنی ریت میں سَر دے کر مطمئن ہو رہیے، یا جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرکے خود کو محفوظ تصور کرتا ہے بالکل اُسی طرح آپ بھی کسی بحران سے دوچار ہونے پر اُسے محض نظر انداز کرنے کا اکتفا کیجیے۔
آج کا انسان اب تک تصویر کا ایک ہی رخ دیکھ رہا ہے۔ بے مثال ترقی نے اُس کے حواس پر قبضہ کرلیا ہے۔ وہ سہولتوں کا ایسا عادی ہے کہ بیشتر معاملات مشکل ہوتے جارہے ہیں۔ اب تک یہ سمجھا جارہا ہے کہ جو کچھ فطری علوم و فنون میں پیش رفت کی بدولت انسان نے پایا ہے اُسی نے سوچنے کی راہ مسدود کردی ہے۔ ایسا بھی ہے مگر صرف ایسا ہی نہیں ہے۔ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت نے سوچنا محض مشکل نہیں بنایا بلکہ آسان بھی کردیا ہے۔ آج کا انسان طے کرے کہ وہ اپنے آپ کو منظم و مربوط رکھے گا۔ ایسا ہوگا تو بہت کچھ کرنا آسان ہوجائے گا۔ بے مثال ترقی ہمارے لیے بہت حد تک بحران ثابت ہوئی ہے۔ اس بحران کا پامردی سے سامنا کرنے کے لیے لازم ہے کہ بروقت اور کافی رہنمائی کا اہتمام کیا جائے۔ آج کے انسان کو الجھنوں سے بچانے کے لیے اُنہیں کلیدی کردار ادا کرنا ہے جو ذہن کی الجھنیں سمجھتے اور اُنہیں دور کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ نفسی امور کے ماہرین کو اس جنگ میں اگلے مورچے کا کردار ادا کرنا ہے اور پاکستان جیسے پس ماندہ معاشرے میں تو یہ معاملہ نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا۔ عام پاکستانی کا ذہن بُری طرح منقسم ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر ذہن میں پیدا ہونے والی الجھنوں اور کمزوریوں کے باعث کچھ خاص نہیں کر پاتا۔ اُسے رہنمائی درکار ہے۔ حکومت بھی اس معاملے کو ہلکا نہ لے اور جو کچھ کرسکتی ہے‘ ضرور کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved