تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     16-06-2013

زیارت ریذیڈنسی ، پھولوں کی خوشبو اور زرغونہ کی آواز

لاہور کا موسم رات کی موسلادھار بارش نے بے حد خوشگوار کردیا۔ جون میں ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں تو موڈ بھی خوشگوار ہوجاتے ہیں۔ سوچا تھا، کوئی خوبصورت نظم جیسا کالم لکھوں گی جس میں بارش کی رم رجھم کی آواز ہوگی، لیکن صبح اٹھتے ہی ایک انتہائی تکلیف دہ خبر سنی کہ کوہ زرغون کے سائے میں واقع وادیٔ زیارت کی سرزمین پر میرے محترم قائد محمد علی جناح کی زیارت ریذیڈنسی کو شرپسندوں نے تباہ کردیا۔ یہ خبر دل میں کسی عزیز کی موت کی خبر جیسا دکھ اتار گئی۔ بے اختیار آنکھوں میں نمی آگئی۔ میرے قائد کی زندگی کے آخری دن جس جگہ گزرے، جس کی راہداریوں نے اپنے نحیف اور بیمار بھائی کے لیے پریشان ہوتی عظیم بہن فاطمہ جناح کے قدموں کی گونج سنی، اس تاریخی خوبصورت عمارت کو رات کے اندھیرے میں بموں سے اڑادینے کی کوشش کی گئی۔ اب اس کی جگہ ایک خاکستر شدہ درودیوار کھڑے ہیں اور افسوسناک خبر ہے کہ اس عمارت میں محفوظ بانی پاکستان کے زیراستعمال رہنے والا پلنگ، کرسیاں، موزے، ضرورت کا دوسرا سامان ،جسے تاریخی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرلیا گیا تھا ،جل کر راکھ ہوچکا ہے۔ بانیِ پاکستان سے عقیدت رکھنے والا ہر دل آج دکھ میں ڈوبا ہوا ہے۔ درودیوار کی راکھ ہمارے اداس دلوں کو سیاہ کررہی ہے۔ یوں تو ہمارے ساتھ کیا کیا المیے نہیں ہوئے، قائد کے شہر میں ہرروز لاشیں گرتی ہیں، قیمتی زندگیاں موت کے گھاٹ اتاردی جاتی ہیں، مقتولین کی لاشیں ہرطرف بکھری ہیں مگر قاتل لاپتہ ہی رہتے ہیں۔ ہم عادی ہوچکے ہیں ایسی لہولہان خبروں کے۔ ہمارے دل سخت ہوچکے ہیں، ہمارے پاس دلائل ہیں کہ شہر قائد میں قتل وغارت سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلشوں کا شاخسانہ ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں، مگر جن شرپسندوں نے بانیِ پاکستان سے منسوب ایک تاریخی عمارت پر شرمناک اور انتہائی افسوسناک حملہ کیا، ان کا ایجنڈا کیا تھا ؟ ایسا کرکے انہوں نے کون سے مذموم مقاصد پورے کیے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب اب اگر مل بھی جائیں تو کیا حاصل کہ ہم نے اپنے قیمتی ورثے کو کھودیا۔ دنیا بھر میں اقوام اپنے قائدین ، اپنے ممتاز شاعروں ادیبوں ، اپنے مصلحین اور رہنمائوں سے منسوب اشیا ء کو تاریخی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرتی ہیں۔ ان کے زیراستعمال رہنے والا لباس، فرنیچر ، برتن قیمتی الماریوں میں رکھ دیے جاتے ہیں کہ آنے والی نسلیں بھی دیکھیں کہ وہ لوگ جواپنے وطن کے لیے جیے ، اعلیٰ خدمات سرانجام دیں ، ان کا رہن سہن کیا تھا، وہ کون سا لباس پہنتے تھے، کن برتنوں میں کھاتے تھے اور ایک ہم ہیں کہ اپنے عظیم قائد سے منسوب اس تاریخی ورثے کی حفاظت نہیں کرسکے۔ دنیا ہمیں کن نظروں سے دیکھے گی کہ یہ احسان فراموش قوم اپنے محسنوں کے ساتھ ایساسلوک کرتی ہے؟ یہ بات شرمناک سہی مگر سچ ہے کہ ہم نے اپنے قائداعظم کے ساتھ ان کے آخری دنوں میں کیا سلوک کیا؟ ایک نئی مملکت کے قیام کی تھکا دینے والی ذہنی اور جسمانی جدوجہد میں بانی پاکستان کی صحت خراب ہوچکی تھی، اپنی زندگی کا ہرسانس پاکستان کے نام کرنے والے عظیم رہنما نے اپنے معالجین کے مشورے کے مطابق اپنے آپ کو کام سے دور نہ کیا، صحت گرتی رہی۔ ڈاکٹروں نے کہا انہیں زیارت کے صحت افزا مقام پر لے جایا جائے۔ تب وہ انگریز دور کی بنائی اس عمارت میں کچھ عرصہ رہے۔ حیرت ہے کہ وہاں ان کی دن رات تیمارداری کے لیے کوئی نرس تک متعین نہیں کی گئی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح جب تھک گئیں تو انہیں باقاعدہ ایک خط لکھنا پڑا کہ یہاں ایک نرس بھیجی جائے۔ یہ خط انہوں نے سول اسپتال کوئٹہ کے انچارج ڈاکٹر کے نام لکھا اور اسے زیارت سے قائداعظم محمد علی جناح کے چیف سکیورٹی آفیسر جناب مہدی خان کوئٹہ لے کر گئے۔ مہدی خاں ممتاز ادیبہ افضل توصیف کے والد گرامی تھے ۔ افضل توصیف اپنی بائیو گرافی ’’ دیکھی تیری دنیا ‘‘ میں بانی پاکستان کی زیارت ریذیڈنسی میں قیام کی یادوں کے حوالے سے لکھتی ہیں۔ ’’ان کا حکم تھا کہ سارا سٹاف اور وہ خود بھی فلیٹ بوٹ پہن کر ریذیڈنسی میں داخل ہوں، کیونکہ عام جوتوں کے ساتھ چلنے سے پیدا ہونے والی آواز قائداعظم کے سکون میں خلل ڈال سکتی ہے۔ تب مجھے یاد ہے ایک دن ابا جی اچانک ہی زیارت سے گھر آگئے۔ ان کے پاس بہت سارے فلیٹ بوٹ تھے ،وہی خریدنے کوئٹہ آئے تھے۔ جلد ہی ایک جیپ انہیں واپس زیارت لے جانے والی تھی ۔‘‘ ذرا سوچیں کہ میرے قائداعظم کے قیام کے دوران زیارت کی اس رہائش گاہ کی راہداریوں میں عام جوتے بھی نہیں پہنے جاتے تھے کہ بیمار قائد کی نیند نہ خراب ہو، مگر آج وہی جگہ بم دھماکوں کی ہولناک آوازوں سے لرز اٹھی! وہ زیارت جہاں چیری، بادام اور سنہری سیبوں کے درخت ہیں، وہ زیارت جہاں کے جنگلی پھولوں کی خوشبو آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے، وہ زیارت آج اداس ہے، سوگ میں ہے، وہاں کے ننھے بچوں کے ننھے دل بھی اداس ہیں کہ ان کے قائداعظم سے منسوب زیارت ریذیڈنسی کو ان سے چھین لیا گیا۔ بھلے اس کو دوبارہ تعمیر کر لیا جائے مگر یہ زخم کبھی نہیں بھرے جاسکتے۔ مصنفہ کتاب کے باب ’’قائداعظم، زیارت ، میرے والد اور افضل توصیف ‘‘ میں رقمطراز ہیں، ’’میں نے زیارت کو خوب صورت اور خوشحال دیکھا تھا۔ اب اسے اجڑی ہوئی حالت میں کس طرح دیکھوں، سکون کی اس جگہ کو جہاں زندگی بخش ہوائیں چلتی تھیں، پریوں کے آنچل جیسی دھوپ اور برف تھی، اب وہاں ہرقسم کی آلودگی اور کمینگی آچکی ہے۔ اب وہاں کسی زرغونہ کی آواز بھی نہیں آتی جوگاتی تھی ’’اگر تم آزادی کے لیے لڑتے ہوئے مارے جائو تو میں اپنی زلفوں کے دھاگے سے تمہارا کفن سیئوں گی۔‘‘ مجھے یقین ہے، زیارت کی سب سے خوبصورت عمارت کو جلاڈالا گیا ۔ اس آگ میں جنگلی پھولوں کی خوشبو، سنہری سیبوں کی مہک اور زرغونہ کی آواز بھی راکھ ہوگئی ہوگی ؎ جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved