تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-10-2020

کاک ٹیل اور مسعود احمد کی شاعری

جو بزدل ہے‘ ہٹ جائے، جو شیر ہے‘ ڈٹ جائے: مریم نواز
مستقل نااہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''جو بزدل ہے‘ ہٹ جائے، جو شیرہے‘ ڈٹ جائے‘‘ جبکہ ہم تو شیر ہی ہیں‘ اس لئے ڈٹے رہیں گے البتہ باقی جو لیڈر بچے ہیں، ا ن میں سے بزدل کون ہے‘ اس کا فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے جبکہ میرا شک تو ایک صوبے کی حکمران پارٹی پر ہے کہ بالآخر ہٹنا اُسی نے ہے کیونکہ یہ پارٹی استعفوں سے پہلے ہی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ یہ ہماری آخری آپشن ہے، اگرچہ ہماری بھی یہ پہلی آپشن نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد ضمنی انتخابات ہو جائیں گے، نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ آپ اگلے روزکراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
ہمارے ادارے ہمارا فخر‘ کسی کو توہین
کی اجازت نہیں دی جا سکتی: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہمارے ادارے ہمارا فخر ہیں، کسی کو توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘ اور جو لوگ بلااجازت یہ کام کر رہے ہیں وہ زود یا بدیر اس کے نتائج دیکھ لیں گے؛ تاہم یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ اپوزیشن کا ہدف اب ہم نہیں ہیں اورجدھر کا رُخ اس کا ہے‘ یہ اس کی شامتِ اعمال ہے جو ایک طرح سے ہمارے لئے خوشی کی بات ہے۔ ادارے اپنا کام تندہی سے کر رہے ہیں‘ اور انہیں اِدھر اُدھر نہیں کیا جا سکتا، اس کوشش میں یہ لوگ خود اِدھراُدھر ہو جائیں گے جبکہ ا دارے جو کام بھی کرتے ہیں پورے سوچ بچار کے بعد کرتے ہیں اس لئے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف نے گلے میں تکلیف کے باعث 
خطاب نہیں کیا‘ آئندہ کریں گے: مشاہد اللہ
مسلم لیگی رہنما مشاہد اللہ خاں نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے گلے میں تکلیف کے باعث خطاب نہیں کیا، آئندہ کریں گے‘‘ کیونکہ گزشتہ تقریر ان کے گلے میں پھنسی ہوئی تھی جو انہوں نے بڑی مشکل سے باہر نکالی جس کی وجہ سے ان کا گلا خراب ہو گیا ہے؛ تاہم ہماری طرف سے انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ اپنے گلے پر رحم کھائیں اور اتنی سخت تقریر سے اجتناب کریں کیونکہ خراب گلے کی وجہ سے انہیں کھانا کھانے میں بھی مسئلہ ہو سکتا ہے جو ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے جس میں تعطل وہ کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے چنانچہ اس لئے بھی انہیں سخت تقریر سے گریز کرنا چاہئے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف نے اپنی سیاست کا جنازہ نکال دیا: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''اداروں کے خلاف بیان دے کر نواز شریف نے اپنی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے اور یہ اُسی طرح پڑا ہے‘ کوئی پڑھنے کو بھی تیار نہیں ہے اور یہ خلافِ معمول میری پیشین گوئی نہیں ہے کیونکہ یہ سب کو صاف نظر ہی آ رہا ہے کیونکہ کسی نے مرحومہ سیاست کا منہ دیکھنے کا بھی تردد نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی یہ اپنی پارٹی کو بھی لے ڈوبے ہیں لیکن امید ہے کہ بلاول ایسی حماقت نہیں کریں گے کیونکہ یہ پیشین گوئی میں پہلے ہی کر چکا ہوں جو ابھی سے پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ کراچی میں جلسہ کر کے وہ پی ڈی ایم سے سرخرو ہو چکے ہیں اس لئے اسے اس پر راضی رہنا چاہئے‘ بلاول اپنے نفع و نقصان کو سمجھتے ہیں۔ آپ اگلے روز جعفر ایکسپریس کے حسن ابدال سٹیشن پر رکنے کے احکامات جاری کر رہے تھے۔
ادبِ لطیف
ملک کے قدیم اور وقیع ماہنامے کا احیا ہو گیا ہے جو اس کے مدیر سید ناصر زیدی کے انتقال کے باعث عارضی طور پر تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ اب ممتاز شاعر اور ادیب حسین مجروح کی ادارت میں اس کا پہلا شمارہ منظرِ عام پر آ گیا ہے، وہ مدیر اعلیٰ ہیں جبکہ مظہر سلیم مجوکہ اس کے مدیر اور شہزاد نیّر اور آمنہ مفتی معاون مدیران ہیں۔ یہ شمارئہ خاص ہے اور 376 صفحات پر مشتمل ہے۔ اندرونِ سرورق اس کے بانی چودھری برکت علی اور طویل عرصہ تک اس کی مدیر رہنے والی صدیقہ بیگم کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ آرٹ پیپر پر ابراہیم رامے اور ممتاز حسین کی دو‘ دو پینٹنگز شائع کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ اسے حسبِ معمول ملک کے ممتاز ادبا و شعرا کا تعاون حاصل ہے جو اس کے مندرجات سے ظاہر ہے۔ ''ادب کس کا مسئلہ ‘‘کے عنوان سے حسین مجروح کے اداریہ سے اس کا آغاز ہوتا ہے جبکہ خوبصورت ٹائٹل ریاض احمد کا تیار کردہ ہے۔ مندرجات کا ذکر اذکار کسی اگلی نشست میں کیا جائے گا۔
ایلوس پریسلے
ممتاز امریکی گلوکر ایلوس پریسلے ایک بار کہیں جا رہے تھے کہ ایک گاؤں سے ان کا گزر ہوا جہاں انہیں سو ڈالر کی ضرورت پیش آ گئی۔ وہ وہاں کے ایک بینک میں گئے اور سو ڈالر کا ٹریول چیک بینک انتظامیہ کو پیش کر دیا جس پر انہیں کہا گیا کہ وہ اُنہیں نہیں جانتے‘ کوئی شناخت ہے تو بتائیں۔ انہوں نے کہا: میں ایلوس پریسلے ہوں، کیا آپ نے کبھی میرا گانا نہیں سنا؟ اس پر جواب دیا گیا: گانے تو ہم نے اکثر سنے ہیں بلکہ ہم ان کے مداحین میں بھی شامل ہیں لیکن یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ آپ ایلوس پریسلے ہی ہیں۔ ہاں! اگر آپ گانا سنا دیں تو ہم آپ کی آواز پہچان سکتے ہیں۔ اس پر ایلوس پریسلے یہ کہتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے کہ اگر میں سو ڈالر کے عوض گانا سنا دوں تو میں واقعی ایلوس پریسلے نہیں ہوں!
اور‘ اب آخر میں مسعود احمد کی شاعری:
کٹا پھٹا تھا مرمت کیا گیا ہوں میں
اُدھیڑنے کے لئے پھر سیا گیا ہوں میں
بڑا فضول تھا قدرت کے کارخانے میں
اسی لئے ہی تو خود کو دیا گیا ہوں میں
نگلنا جب ہوا مشکل مری حقیقت کو
تو کڑوے گھونٹ کی صورت پیا گیا ہوں میں
مرا جنم تھا کسی اور ہی زمانے کا
پھر اسی زمانے میں کیسے جیا گیا ہوں میں
٭......٭......٭
کٹہرے میں بھی اپنے آپ کو قاضی سمجھتا ہوں
وہی ناراض ہیں مجھ سے جنہیں راضی سمجھتا ہوں
زمانہ اس کو گزرے کل سے ہی تعبیر کرتا ہے
مگر میں آنے والے کل کو بھی ماضی سمجھتا ہوں
اگرچہ رتجگے اپنی جگہ پر حق بجانب ہیں
میں آنکھوں کو بھی کچھ خوابوں کا متقاضی سمجھتا ہوں
شہادت پر مری اصرار ہے سب ہوتوں سوتوں کو
مگر میں ہوں کہ اپنے آپ کو غازی سمجھتا ہوں
گزارا کر رہا ہوں جیسے تیسے بھی مقدر سے
سو اس قسمت کو اپنے آپ سے راضی سمجھتا ہوں
٭......٭......٭
محبت میں گلے شکوے کی گنجائش نہیں ہوتی
میاں اس قیس کی بستی میں آسائش نہیں ہوتی
کبھی تھا والہانہ پن تمہاری سرد مہری میں
مگر اب گرمجوشی سے بھی گرمائش نہیں ہوتی
ہمارے دل کی زرخیزی پہ دو رائے نہیں لیکن
بجز غم کے کسی جذبے کی افزائش نہیں ہوتی
کوئی اس جمگٹھے میں چاند سا چہرہ ضروری ہے
ستاروں ہی ستاروں سے تو زیبائش نہیں ہوتی
زمین اور آسماں کی وسعتیں تو ماپ سکتے ہیں
مگر عاشق کے دل کی اُن سے پیمائش نہیں ہوتی
آج کا مقطع
کبھی نکلے نہیں اسے خواب کے گھیرے سے‘ ظفرؔ
جس میں ہر چیز میسر ہے اجازت کے بغیر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved