تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     20-10-2020

نئے سیاسی تغیرات

نواز شریف نے گوجرانوالہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے میں ایک بار پھر اپنی پرانی حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اداروں کو ہدفِ تنقید بنایا ، جیسے چند دن قبل پیپلزپارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب سے انہوں نے ملک کی سیاسی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔ لگتا ہے میاں نوازشریف نے اپنے مفادات اور پارٹی پالیٹکس کے تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر فیصلہ کن لڑائی کا تہیہ کر لیا ہے۔ نوازشریف صاحب زندگی کی 69 بہاریں دیکھ چکے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس مہلت ِ عمر کم ہے، دل کے جان لیوا روگ کے علاوہ ان کے وجود میں کئی مہلک بیماریاں سرایت کر چکی ہیں؛ چنانچہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دور کو کارآمد بنانا چاہتے ہیں اوربادی النظر میں انہیں یہی راہِ عمل درست دکھائی دیتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہو ئے، تمام عمر خوش نصیبی ان کی ہم قدم رہی، آغازِشباب میں ہی پچھلے دروازے سے نہایت آسانی کے ساتھ وہ اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچ گئے، دو بار پنجاب جیسے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ اور تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہے ہیں اور اب وہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے قائد ہیں، الغرض انہوں نے زندگی کے گرم و سرد سے خوب لطف اٹھایا ہے، لہٰذا اب وہ اس بیانیے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں انہیں کامیابی ملے نہ ملے‘ عزت و توقیر اور ایک منفرد تاریخی مقام ضرور مل سکتا ہے۔ ایک سیاستدان کی طرح وہ یہ بھی جانتے ہیں کامیابی کے لئے انہیں کیا کرنا ہے۔ کسی''خودکش‘‘ حملہ میں خود کو ضائع کرنے کے بجائے انتہائی حکمت سے کام لیتے ہوئے اس آخری اننگ میں بھی انہوں نے نسبتاً بہتر حکمت عملی اپنائی ہے اور اس حتمی مقابلے کے سیاسی میدان کی طرف تنہا آگے بڑھنے کے الرغم تقریباً ساری اپوزیشن کو کھینچ کے اُسی نامطلوب کشمکش کا ایندھن بنا ڈالا‘جسے ٹالنے کی خاطر دنیا بھر کے عظیم سیاستدانوں نے پھانسیوں کے پھندوں کو چوما اور اذیت ناک جلاوطنیاں قبول کیں۔
بلاشبہ علم ایک طاقت ہے لیکن حکمت ہی ہمیں آزادی کی نعمت سے مالا مال کرتی ہے۔ ابھی پی ڈی ایم کے اغراض و مقاصد طے ہوئے نہ تنظیمی ڈھانچہ مکمل ہوا‘ ان کے اتحادیوں کو یہ سوچنے کی مہلت بھی نہیں ملی کہ اس معرکے کو کس طرح لڑنا اور کس حد تک لے جانا ہے لیکن نوازشریف نے اپنی افتادِ طبع کے ذریعے نہ صرف تحریک کے سیاسی اہداف بلکہ انجام کا تعین بھی کر دیا ہے۔ انہوں نے گوجرانوالہ کے جلسۂ عام میں جو کچھ کہا‘ اس نے مخالف اتحادی جماعتوں کو ششدر کر دیا۔اس اقدام سے انہوں نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے لئے واپسی کی تمام راہیں مسدود کر دی ہیں۔ ممکن ہے کہ جو لوگ اب اس جدلیات کا حصہ بنیں‘ انہیں اس کی قیمت بھی چکانا پڑے؛ تاہم جو سیاستدان اس کارزار سے نکل کے پیچھے پلٹنے کی کوشش کریں گے‘ وہ عوام میں غیر مقبول ہو جائیں گے کیونکہ مقبول بیانیہ یہی ہے۔
یہ بجا کہ سیاستدان زیادہ دیر تک اپنی حیثیت پہ قانع نہیں رہ سکتے تھے اور نوازشریف نے جن باتوں کا تذکرہ اپنے خطاب میں کیا اس کا ادراک بھی سب کو تھا؛ تاہم ان باتوں کو اس طرح آن دی ریکارڈ اور برملا کہنے کی جرأت کوئی نہیں کر سکا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف کی اس جسارت نے سب کو حیران کر دیا ہے اور انہوں نے اپنے بیانیے کو آوازِ خلق بنا کے سب کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ ایک مشاق سیاستدان کے طور پر انہیں اپنی پسند کے میدان اور مرضی کے وقت کا بخوبی اندازہ تھا اور اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے لیت و لعل سے کام لیے جانے کے باوجود یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک فیصلہ کن جنگ کے موڈ میں ہیں اور اس سکوت کے ماحول میں نوازشریف نے پہل کاری کر کے ایک طرف اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنا لیا اور دوسری جانب انہوں نے مخالفین کو ایسے دو راہے پہ لا کھڑا کیا ہے، جہاں ان کے پاس پیچھے ہٹ کر میدان کھلا چھوڑ دینے یا کھل کر سامنے آنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا لیکن دونوں صورتوں میں ہمیں عافیت و بھلائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اس وقت ملکی سرحدوں کی جو صورتحال ہے اور مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جس طرح جنگ کے شعلے بڑھکائے جا رہے ہیں‘ ان کے پیش نظر تو یہ واضح ہے کہ موجودہ نظام کو کسی بھی طور ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا ،اس لئے قوی امکان یہی ہے کہ وقتی طور پر ہی سہی‘ معتوب سیاستدانوں کو سیاسی نظام میں اتنی گنجائش ضرور مل جائے گی جس میں وہ سکھ کا سانس لے پائیں گے۔ موجودہ جدلیات نے یہ بھی ثابت کر دیاکہ ہماری آزادی کوئی ہائبرڈ رجیم نہیں چھین رہی بلکہ ہمارے اذہان کا بے ضرر تساہل اس کا ذمہ دار تھا، جس نے ہمیں قسمت پرستانہ فلسفۂ حیات کا غلام بنا دیا ہے علیٰ ہذاالقیاس‘ ہماری سیاست کی ان محوری گردشوں میں اب تو یہی محسوس ہونے لگا ہے کہ عمران خان کے بعد بلاول بھٹو زرداری جیسا نرم خو اورصلح جو سیاستدان ہی منصہ شہود پہ نمودار ہو گا لیکن اس کشمکش کی حرکیات نے قومی سیاست میں پی پی پی کے کردار کو زیادہ محدود کر دیا ہے، حتیٰ کہ پنجاب کے میدانوں میں اب مولانا فضل الرحمن بھی بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ مقبول دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں پنجاب میں جے یو آئی کو جس قدر پذیرائی ملی، پچھلی ایک دو دہائیوں میں کسی مذہبی جماعت کو یہاں اتنی وسیع مقبولیت نہیں مل سکی ۔ بلاشبہ ان ہنگامی حالات میں محتاط سیاسی رویوں نے ہی بلاول بھٹوزرداری کو پابہ زنجیر کر رکھا ہے؛ اگرچہ عمران خان کی طرح انہیں بھی وہ سب کہنے کی اجازت ہے جس سے بائیں بازو کے ووٹرز میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن حد سے بڑھی ہوئی احتیاط اور کوئی نادیدہ خوف بار بار انہیں ایسی لن ترانیوں سے روکتا ہے؛ چنانچہ وہ ٹھیک وقت پہ درست بات کرنے کی اہلیت کھو رہے ہیں۔ ان کے برعکس نوازشریف نے درست وقت پر یکے بعد دیگرے جارحانہ کھیل کھیلتے ہوئے اُس روایتی سیاسی جدوجہد کو اس فیصلہ کن معرکے کی طرف دھکیل دیا ہے جو خوف اور تذبذب کی وجہ سے سیاستدانوں کے لئے گلے کی ہڈی بنا ہوا تھا۔
بیشک دنیا میں تبدیلیاں ارادتاً نہیں بلکہ اچانک آتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کوئی ایک ایجاد، کوئی ایک غیر معمولی واقعہ یا ناگہانی حادثہ تاریخ کے دھارے کو بدل کے رکھ دیتا ہے، جس طرح صرف پہیے کی ایجاد نے انسانی تہذیب کو پَر لگا دیے۔ پانی پت کی دوسری جنگ میں اگر ہیموبقال کو آنکھ میں تیر نہ لگتا تو آج مغلیہ خاندان کی داستان بلکہ ہندوستان کی پوری تاریخ مختلف ہوتی۔ جس طرح امیر تیمور، اگر یورپ کی طرف طوفان کی طرح بڑھتے ہوئے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو شکست نہ دیتے تو یورپ کی صورت ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہمیں نظر آتی ہے۔ موجودہ سیاسی لہر نے قومی سیاست کے پورے تناظر کو بدل ڈالا ہے، اب مسلم لیگ ٹکڑوں میں بٹ جائے یا نوازشریف سیاسی افق سے ہٹ جائیں‘قومی سیاست کے رجحان میں وارد ہونے والے تغیرات کی راہ کوئی نہیں روک پائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved