مجھے علم ہے کہ دنیا کے اسباب و علل پر یقین رکھنے والے‘ اللہ کی طاقت و قدرت کی بجائے اپنے زورِ بازو اور عوام کی حمایت سے مسائل پر قابو پانے کا دعویٰ کرنے والے‘ اس کائنات میں ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز لوگ میرے اس کالم کو ایک بار پھر ہنسی میں اڑا دیں گے‘ محفلوں میں یہ ان کی تفنّنِ طبع کا باعث ہوگا‘ ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں وہ اسے بے عملی کے درس اور نمونے کے طور پر پیش کریں گے۔ میں گزشتہ آٹھ سال سے مالکِ کائنات اللہ سبحان و تعالیٰ کے نازل کردہ آخری کلام کی آیات لکھ کر ان صاحبانِ طاقت کے سامنے پیش کر رہا ہوں‘ وہ اللہ جس کا نام یہ ایک سابقے اور لاحقے کے طور پر اپنی ہر تقریر اور صحافیوں سے گفتگو میں ’’انشاء اللہ‘‘ کہہ کر لیتے ہیں۔ انتخابی مہم ہو یا حالات پر قابو پانے کے دعوے‘ مالی بحران حل کرنا ہو یا لوگوں کو امن کی فراہمی‘ ہمارے اربابِ اقتدار کی گفتگو اپنی صلاحیتوں‘ طاقتوں اور کارکردگیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک تسبیح کی طرح وہ اپنے ’’قائدِ محترم‘‘ کا نام بار بار لیتے ہیں اور پھر اس کی قائدانہ صلاحیتوں کو مسائل کے حل کی کنجی بتاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب اس ملک کے مسائل حل ہونے والے ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ تک نہیں کہ یہ حکومت‘ طاقت اور عہدہ قوانینِ قدرت کے ان اصولوں کے تحت آزمائش کے طور پر انہیں ملتا ہے۔ قوموں کے اعمال برے ہوں تو حکمران ان کے لیے آزمائش اور بالآخر عذاب کا باعث ہوتے ہیں اور قوموں کے اعمال اچھے ہوں تو عہدہ حکمرانوں کے لیے آزمائش‘ جس میں اللہ تعالیٰ انہیں سرخرو کرتا ہے۔ دعوے کرتے اور شیخیاں بگھارتے ان صاحبانِ اقتدار کو دیکھتا ہوں تو بچپن میں پڑھی ہوئی حکایت پر مبنی اسمٰعیل میرٹھی کی ایک نظم یاد آ جاتی ہے۔ ایک دریا میں سیلاب آیا اور کہیں سے ایک درخت کا تنا اس کی اچھلتی کودتی لہروں پر بہنے لگا۔ وہ سمجھتا تھا جیسے اس پورے دریا کی روانی کو کنٹرول کر رہا ہے‘ جب وہ اچھلتا ہے تو سارا دریا اچھلتا ہے‘ جب وہ آرام سے بہنے لگتا ہے تو دریا بھی پرسکون ہو جاتا ہے۔ اچانک وہ تنا یا لکڑی کی گیلی ایک بڑے سے پتھر کے ساتھ الجھ کر رک جاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے غصے کی طرح پیچ و تاب کھاتے ہوئے وہ پتھر سے مخاطب ہوتی ہے: کہ میں ہی بدرقہ ہوں‘ رہنما ہوں امیرِ بحر ہوں اور ناخدا ہوں رکوں گی میں تو رک جائے گا دریا کڑھے گا اور پچھتائے گا دریا دریا تو چلتا رہتا ہے لیکن گیلی قریبی گائوں والوں کے ہاتھ آ جاتی ہے جسے چیر کر ترکھان فرنیچر بنا لیتے ہیں اور لوگ اس امیرِ بحر پر سواری کرتے رہتے ہیں اور پھر ایک وقت گزرنے کے بعد وہ ایندھن کے کام آتی ہے۔ اس جہانِ فانی میں یہی ہم سب کی اوقات ہے لیکن جب عوام کا جمِ غفیر سیلاب کی طرح ہمیں لہروں پر اچھالتا لے جا رہا ہوتا ہے تو ہمارے دعوے ختم نہیں ہوتے‘ ہمارے سر اور گردنیں غرور سے تنی ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے زورِ بازو‘ ریاست کی قوت اور عوام کی طاقت پر اتنا بھروسہ اور یقین ہوتا ہے کہ ہمارے منہ سے ’’اللہ کی مدد سے‘‘ کے الفاظ نہیں بلکہ ’’عوام کی مدد سے‘‘ کے الفاظ برآمد ہوتے ہیں۔ یہ لہجہ گزشتہ آٹھ سالوں سے حکمرانوں کو ورثے میں ملا ہے۔ ہرنیاآنے والا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسی لہجے میں بولتا ہے۔ لیکن میرا اللہ قرآن پاک میں اسے اپنے عذاب کی ایک علامت کے طورپر بتاتا ہے۔ سورہ الانعام کی یہ آیات میں باربار تحریر کرچکا ہوں ۔ اللہ فرماتا ہے: ’’کہو کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے نکال دے یا تمہیں مختلف گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے بھڑا دے اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزاچکھا دے (الانعام 65) حکومت کی طاقت کا مزہ دہشت گرد چکھ رہے ہیں اور دہشت گردوں کی طاقت کا مزہ حکومت۔ بلوچ، پشتون، سندھی، پنجابی، مہاجر سب ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ پورا ملک خون میں نہا رہا ہے اور ہم اسے کبھی عالمی سازش کا نام دیتے ہیں اور کبھی علاقائی قوتوں کی ریشہ دوانی، کبھی ہم اسے اپنی خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ کہتے ہیں اور کبھی اسے گزشتہ ادوار کی ناکام حکمت عملی کا شاخسانہ، لیکن کوئی ایک لمحے کے لیے ان آیات پر غور نہیں کرتا۔ کوئی اسے اللہ کا عذاب تصور نہیں کرتا۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہم اللہ کو بلاشرکتِ غیرے اس دنیا کا حاکم اور مالک تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہمارے دلوں میں طرح طرح کے بت سجے ہوئے ہیں… ٹیکنالوجی کا بت، ریاستی قوت کا بت، حکمت عملی کا بت، عوامی طاقت کا بت۔ ہم روزان بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے اور ان سے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں اور ہر روز اس میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ میرے اسبابِ دنیا کو پوجنے والے دوست سوال کرتے ہیں کہ دنیا کے کتنے ممالک ہیں جنہوں نے تدبیر سے ان حالات پر قابو پایا۔ کیا ان کے اجتماعی اعمال ہم سے ہزار درجہ بہتر نہیں ہیں؟ وہ بحیثیت قوم جھوٹ نہیں بولتے، خیانت نہیں کرتے، ان کی حکومتیں معذور ،بے کار، بوڑھے ، بے سہارا اور بے گھر افراد کی کفالت کا ذمہ اٹھاتی ہیں، وہاں اللہ کا وہ حکم کہ ’انصاف قائم کرو‘ اجتماعی طورپر نافذ ہوتا ہے۔ ان کے افراد کی خرابیاں اپنی جگہ لیکن انہوں نے وہ تمام اصول جن کا اللہ حکمرانی کے لیے حکم دیتا ہے‘ اسے انسانی فلاح کے لیے نافذ کیا ہے۔ ہم تو حکمرانوں کے انتخاب میں عدل کا معیار نہیں رکھتے۔ برادری، ذات، قبیلے اور دھن دھونس ہمارا خدا ہوتا ہے، اس خداکی پرستش کرتے ہوئے ہم حکمران منتخب کرتے ہیں۔ کبھی بحیثیت مجموعی ہم نے ایسے شخص کو اپنا قائد تسلیم کیا جو ہم سب میں اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہو؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ پھر اس اللہ سے ہم توقعات کیوں لگاتے ہیں‘ جس کے دروازے کے سامنے التجا ہی نہیں کرتے؟ پھر اس کی نصرت ہمارے ساتھ کیسے؟ یہ التجا‘ درخواست اور مدد کی امید کا ایک ہی راستہ ہے جو اللہ کے ہرپیغمبر نے اپنایا ہے اور جس سے سید نا یونس علیہ السلام کی قوم اللہ کے اعلان کردہ عذاب سے باہر آئی تھی… ’’اجتماعی استغفار‘‘۔ ہماری حالت قوم نوحؑ کی طرح ہوچکی ہے۔ حضرت نوحؑ نے اللہ سے عرض کی ’’میرے پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو رات دن حق کی دعوت دی، لیکن میری دعوت کا اس کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ہوا کہ وہ اور زیادہ بھاگنے لگے۔ اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی کہ آپ ان کی مغفرت فرمائیں توانہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیں، اپنے کپڑے اپنے منہ پر لپیٹ لیے، اپنی بات پر اڑے رہے اور تکبر ہی تکبر کا مظاہر ہ کیا (نوح6,7:)‘‘۔ ’’اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، یقین جانو وہ بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا اور تمہاری خاطر نہر یں مہیا کرے گا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت سے بالکل نہیں ڈرتے‘‘ (نوح:10,11,12,13)۔ کیا ہم سب اور ہمارے حکمران اللہ کی عظمت سے ڈرتے ہیں ؟ یہ سوال گزشتہ آٹھ سالوں سے اہل نظر پوچھ رہے ہیں اور خوف سے کانپ رہے ہیں کہ ابھی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کے مطابق اللہ کے سب سے کم عذاب یعنی آپس میں کشت وخون میں مبتلا ہیں‘ اگر اللہ کے غضب نے بادلوں کو اشارہ کردیا تو پھر کس دروازے پر جاکر مدد کے طالب ہوگے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved