تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     21-10-2020

تعلیم ‘ ورکشاپ کلچر اور تبدیلی کا سراب

تعلیم کے معیار میں مثبت تبدیلی لانے کیلئے اساتذہ میں تبدیلی ضروری ہے‘ لیکن یہ تبدیلی کیسے لائی جائے؟ اس حوالے سے تحقیق کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے ۔ تعلیم ِاساتذہ سے میری وابستگی تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہے۔ اس عرصے میں تربیت ِاساتذہ کے پروگراموں کے محور بدلتے رہے۔ اسی دوران تربیتِ اساتذہ کیلئے ورکشاپ کا تصور سامنے آیا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اساتذہ کی عملی طورپر (Hands on) تربیت کی جا سکے ۔ عملی کام کا تصور سب کیلئے خوش کُن تھا۔تعلیمی اداروں کے سربراہان کیلئے خاص کر یہ امر باعث ِ اطمینان تھا کہ مختصر وقت میں اساتذہ کوورکشاپ کے ذریعے تربیت دی جا سکتی ہے اور یوں وہ فخر سے اس بات کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کے ادارے کے اساتذہ کو مسلسل تربیت کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی ان ورکشاپس میں شرکت لازمی ہوتی ہے۔اور ان ورکشاپس پر آنے والے اخراجات کا بوجھ بھی ان پر ہی ڈالا جاتا ہے۔سرکاری اداروں میں یہ ورکشاپس تربیتِ اساتذہ کے نام پر کرائی جاتی ہیں۔اور تعلیم ِاساتذہ کے ادارے صوبائی سطح پر یہ ورکشاپس منعقد کرتے ہیں‘ جن میں سرکاری سکولوں سے اساتذہ کو بھیجا جاتا ہے۔جن میں سے اکثریت کی دلچسپی کا واحد سامان سفر اور رہائش الاؤنس حاصل کرنا ہے۔ہر Initiative کی طرح ورکشاپس کا آغاز مثبت طریقے سے ہوا ‘لیکن جس طرح ہر نیا اقدام گھس پٹ کر ایک Package میں بدل جاتا ہے اور پھریہ پیکیج رفتہ رفتہ اپنی روح کھونے لگتا ہے‘ ورکشاپ کے تجربے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔تربیتِ اساتذہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایک جامع تبدیلی (Holistic Change) صرف اس وقت ممکن ہے جب یہ تبدیلی تین سطحوں یعنی علم‘مہارت اور رویے کی سطح پر آئے۔یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ ماہرین ِ تعلیم ورکشاپس کی افادیت کے حوالے سے مطمئن نہیں کیونکہ تعلیمی اعتقادات اور رویوں میں تبدیلی مختصر وقت میں ممکن نہیں اور کمرۂ جماعت میں کوئی بامعنی تبدیلی نہیں آتی۔البتہ نجی سطح پر ایسی ورکشاپس پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بن گئی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ورکشاپ محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا ہے‘ جس کا تعلیمی ادارے یا کلاس روم کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔تربیت ِاساتذہ کے پروگراموں سے طویل وابستگی کی بنیاد پر میں یہاں ورکشاپس کے حوالے سے اپنے مشاہدات بیان کروں گا۔
تربیت اساتذہ کی ورکشاپس کا سارا زور تدریسی مہارتوں پر ہوتا ہے‘تعلیمی تبدیلی کو نجانے کیوں محض تدریسی حکمتِ عملی میں تبدیلی سے جوڑ دیا جاتا ہے نتیجتاً اساتذہ کو کچھ ٹیکنیکس سکھا دی جاتی ہیں اور فرض کر لیا جاتا ہے کہ تربیت ِ اساتذہ کا عمل مکمل ہو گیا۔اس سارے عمل میں تعلیمی مسائل پر اساتذہ کے اپنے خیالات کو جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ انBeliefs کے پیشِ نظر ورکشاپ کی سرگرمیوں کو ترتیب دیا جا سکے۔ اسی طرح ان کے رویے میں تبدیلی پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ۔عام طور پرورکشاپس میں اساتذہ کے دامن میں چند مہارتوں اور چند فیشن ایبل خوش نما لفظوں کے سکے ڈال دیے جاتے ہیں۔اساتذہ کی اکثریت ان استعمال کرنے کا جواز نہیں جانتی‘ یہی وجہ ہے کہ وہ ورکشاپ کی ٹیکنیکس کا اپنے کلاس روم میں استعمال کریں بھی تو مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔
ان ورکشاپس میں چند برائے نام تدریسی طریقوں اور حکمتِ عملیوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جن کا پسِ منظر ترقی یافتہ ممالک کا ہوتا ہے جہاں کے کمرہ ٔ جماعت ‘ اساتذہ اور ماحول کے مسائل ہمارے ماحول اور کمرۂ جماعت سے یکسر مختلف ہیں‘لیکن چونکہ ورکشاپ کا ریسورس پرسن مانگے تانگے کے خیالات کا اسیر ہوتا ہے اس لیے وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ سارے تعلیمی تصورات ہمارے کلاس رومز میں بھی نافذ ہو سکتے ہیں‘اس بات سے قطع نظر کہ ہمارے ہاں اساتذہ کو تعلیمی آزادی (Academic Freedom) کتنی ہے اور وسائل (Resources) کا کیا عالم ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب اساتذہ اپنے کلاس رومز میں ورکشاپس میں سکھائے گئے تصورات یا حکمت عملیوں کا استعمال کرتے ہیں تو انہیں تھیوری اور پریکٹس میں ایک واضح Disconnect نظر آتا ہے ‘جس کی وجہ ایک ترقی پذیر ملک کا یکسر مختلف ماحول ہے ۔جس معاشرے میں تحقیق اور تخلیق کی حوصلہ شکنی ‘ روایتی امتحانی نظام میں رٹے کے ذریعے زیادہ نمبر لینے کی خواہش اور اساتذہ کا ایک ایسے ماحول میں کام کرنا ہے جہاں تعلیمی آزادی تبدیلی کے عمل میں رکاوٹ بن جاتی ہے‘ خود ان ورکشاپس میں ریسورس پرسن کا اپنا رویہ اور کردار ہے جو اس کے خیا لات اور عمل میں فرق سے اُبھرتا ہے۔مثلاً میں تربیت ِ اساتذہ کے پروگراموں کے ساتھ طویل وابستگی کی وجہ سے کئی ایسے ریسورس پرسنز کو جانتا ہوں جو ورکشاپس میں شرکا کو Reflection‘ Critical Thinkingاور Participatory Approachجیسے شاندار خیالات کی دعوت دیتے ہیں لیکن ان ورکشاپس میں ان کا اپنا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔وہ اپنے آپ کو یوں پیش کرتے ہیں جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ ریسورس پرسنز کے فکرو عمل میں یہ Disconnect ورکشاپ کے شرکا کو بددل کر رکھ دیتا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف کتابی باتیں ہیں‘جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔
یہاں کئی ایسے ریسورس پرسنز بھی ہیں جنہیں ہم Workshop Mongers سکتے ہیں۔ان کے لیپ ٹاپ میں مختلف موضوعات پر پریزنٹیشنز تیار ملتی ہیں‘جو مختلف مواقع پر بآسانی کام آ سکتی ہیں۔ان پیشہ ور ریسورس پرسنز کی ورکشاپ میں جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ ان کی مثالیں حتیٰ کہ لطیفے بھی پُرانے ہیں۔اگر آپ انکی ورکشاپ میں دوسری بار شریک ہوں بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کہاں رکیں گے‘کہاں لطیفہ سنائیں گے‘ کون سا لطیفہ سنائیں گے اور کہاں سنجیدہ ہوں گے۔ خوبصورت پریزنٹیشن سلائیڈز چند مخصوص Acronyms اور رواں انگریزی ایک پیشہ وہ ریسورس پرسن کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ان میں سے کچھ ریسورس پرسنزورکشاپ کے شرکاکو خالی الدماغ تصور کرتے ہیں اور بزعمِ خود ان خالی برتنوں کو اپنے علم سے بھرتے ہیں۔ اکثر اس طرح کی ورکشاپس میں مہارتوں کو مائیکرو لیول پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کو کامیابی سے سرانجام دینے پر ورکشاب کے شرکا کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان میں تبدیلی آ گئی ہے‘لیکن دراصل یہ تبدیلی نہیں تبدیلی کا سراب ہوتا ہے۔ ورکشاپس کو مؤثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے اور اس سے پہلے شرکا کی ضروریات کا جائزہ لیا جائے ۔اسی طرح موضوعات کا انتخاب شرکاکی ضروریات پر مبنی ہو۔ موضوعات کو وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ہوں۔ موضوعات اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں کہ ورکشاپ کے مجموعی مقاصد حاصل ہوجائیں ۔ اساتذہ میں کسی بھی ورکشاپ میں شعوری طورپر تین سطحوں پر تبدیلی لانے کی کو شش کی جائے : معلوماتی سطح پر ‘ طریقۂ تدریس کی سطح پر اور رویے کی سطح پر۔ یہ تینوں سطحیں الگ الگ نوعیت کی ہونے کے بجائے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ تنقیدی غوروفکر ان ورکشاپس کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔ ورکشاپس میں شرکا کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے متبادل خیالات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔ ان ورکشاپس کے اختتام پر مقاصد کے حصول کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ دیکھا جائے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں محض رسمی طور پر ہی منعقد کیا گیا ہے۔ اگر ورکشاپس کو مؤثر بنانا ہے تو ہمیں Formalityسے آگے بڑھ کر تربیتِ اساتذہ کے اصل جوہر کو دریافت کرنا ہو گا‘ جس کا تعلق ایک پائیدار تبدیلی کے ساتھ ہے‘ ورنہ ہم تبدیلی کے سراب میں یونہی بھٹکتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved