گیارہ جولائی 2013ء کو میں نے اپنے کالم میں‘ جس کا عنوان ''دوحہ سے ماسکو‘‘ تھا‘ بھارت کی ایک صنعتی شخصیت کا نام لیتے ہوئے بتایا تھا کہ اس سٹیل ٹائیکون کو حامد کرزئی کی ذاتی کوششوں سے افغانستان کے صوبہ بامیان میں ایک ارب 80 کروڑ ٹن خام لوہا نکالنے کا اختیار نامہ دیا گیا ہے اور حاجی گاک میں پھیلے ہوئے لوہے کے ذخائر کا قبضہ دینے کیلئے افغان آئرن اور سٹیل کنسورشیم کی بھارتی حکومت اور سٹیل ٹائیکون سجن جندال سے بات چیت مکمل ہو چکی ہے‘ جس کے تحت حاجی گاک کے افغانی کوئلے کی کشید کے علاوہ بامیان میں سٹیل مل لگانے پر آٹھ کروڑ ڈالر لاگت آئے گی۔
خام لوہے کے ان ذخائر کا کنٹرول لینے والے گروپ کا ہمارے ہاں کی ایک سیاسی فیملی سے کیا تعلق ہے‘ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کیونکہ 27 مئی 2014ء کو جب اس وقت کے وزیراعظم‘ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے بھارت پہنچے تو وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ سجن جندال کے گھر شام کی چائے پینے کیلئے خصوصی طور پر تشریف لے گئے تھے جہاں صرف جندال فیملی موجود تھی۔ پھر سب نے دیکھا کہ یہی موصوف (تب کے)وزیراعظم کی سالگرہ اور ان کی نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے لاہور جاتی امراء بھی پہنچے اور خاص بات یہ کہ وہ اپنے ساتھ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی لئے ہوئے تھے‘ جو اس سے چند گھنٹے قبل افغانستان میں تھے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ میاں نواز شریف جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی اداروں کے سربراہان سے ٹھن کیوں جاتی ہے؟ آخر اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ایک وقت ایسا بھی آ چکا ہے جب نواز شریف اور ضیاء الحق کے مابین اختلافات نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور اس بات کی جنرل ضیاء الحق کے فرزند اعجاز الحق سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر آپ حکومت کر رہے ہیں تو پھر مملکت کی بہتری اور فائدے کیلئے آپ کے تجارتی مفادات پر زد پڑ سکتی ہے لیکن ہر بار ہوا یہ کہ خاندانی تجارت کو ریاستی مفادات پر ترجیح دی جانے لگی۔ جب تجارت ریا ست سے ٹکرانے لگ جائے تو پھر وہاں سے اختلافات سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں اور جب ریا ست پر تجارت کو ترجیح دینے پر ایک فریق سختی سے تل جائے اور تجارت بھی ایک ایسے ملک سے، ایسی شخصیت سے جس کے دشمن ملک کے حساس ترین اداروں سے براہِ راست اور گہرے تعلقات ہوں تو پھر ریاست کے اربابِ اختیار تو ایک جانب‘ ایک عام سے محافظ کا بھی چونک جانا قدرتی امر ہے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ تاجروں کو اقتدار سے دور رکھنے میں ہی بہتری ہے۔
جب تاجر حکمران اپنے تجارتی مفادات کو ریاست کے مفادات پر ترجیح دیں گے تو پھر فاصلے بڑھنا قدرتی امر ہے۔ یہیں سے راز کھلنے لگتے ہیں کہ معاملات نازک سطح پر چلے گئے ہیں۔ یہاں پر چالاکی یہ کی جانے لگی کہ میڈیا میں‘ اپنے پے رول پر موجود لوگوں کے ذریعے اصل بات بتانے کے بجائے عوام میں یہ تاثر عام کیا جانے لگا کہ ''مقتدرہ اپنی مرضی کرنا چاہتی ہے اور وہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی‘‘۔ دوسرا فریق یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی چپ رہتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ اپنا پیغام بھی پہنچا دیتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی جمہوریت میں یہ ہوتا ہے کہ حکمران ریاست کے مفادات کو اپنی ذاتی تجارت کے تابع کر لیں؟ سجن جندال کسی کا خاندانی دوست یا شریکِ کاروبار ہے تو وہ اس کے لیے قابلِ احترام ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ افغانستان میں حاجی گاک کے 2ارب ٹن خام لوہے کو‘ جو دنیا کی مارکیٹ میں اپنی گریڈنگ کے لحاظ سے ساٹھ پوائنٹ سے بھی اوپر ہے( اس صنعت سے وابستہ افراد جانتے ہیں کہ لوہے کی یہ قسم از حد قیمتی تصور ہوتی ہے)‘ افغانستان سے بھارت بھجوائے جہاں اس سے جنگی اسلحہ تیار کیا جائے تو پھر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا یہ پاکستان کے ریاستی مفاد میں ہو سکتا ہے؟ اس پر ہی بس نہیں بلکہ ضد یہ کی جاتی ہے کہ اس نکالے گئے لوہے کو بھارت پہنچانے کے لیے واہگہ کا روٹ بحال کیا جائے۔ میری تحقیق کے مطابق یہی وہ پہلا نکتہ تھا جہاں سے سیاسی خاندان اور اداروں کے مابین خلیج کا آغاز ہوا۔
افغان آئرن اینڈ سٹیل کنسورشیم (AIFSCO)بھارت کے حکومتی ادارے سٹیل اتھارٹی آف انڈیا (SAIL) اور سجن جندال فیملی کے ناموں سے قائم مختلف کاروباری اداروں (جندال سائوتھ ویسٹ (JSW)، ISPL،ISPAT اور سجن جندال کے بہنوئی سندیپ جاجودیا کے MONNET گروپ) کے ساتھ مشترکہ طور پر اس پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ ہمارے یہاں پر اُس وقت کی حکومت نے بہت کوشش کی کہ بات باہر نہ نکلے لیکن ہوا یہ کہ کنسورشیم میں شامل JSWگروپ کے جوائنٹ ڈائریکٹر شیش گری رائو نے میڈیا میں موجود افواہوں کی تصدیق کرتے ہوئے واضح اشارہ دے دیا کہ جندال گروپ کے علاوہ بھارت کی سٹیل سے وابستہ دوسری بڑی بڑی کمپنیوں نے بھی وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اگر پاکستان اپنے زمینی راستے ان کیلئے کھول دے تو پھر افغانستان سے لوہا بہ آسانی بھارت لایا جا سکتا ہے، نیز یہ کہ بھارت میں یہ لوہا اسلحہ بنانے والی ان 46 اسلحہ ساز فیکٹریوں کو سپلائی کیا جا سکتا تھا جو بھارتی دفاعی ایجنسی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) کے تحت اسلحہ تیارکرتی ہیں۔ اسی موقع پر یہاں یکایک آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے سے پہلے ہی آپس میں تجارت کو فروغ دیا جائے‘ جب تجارت بڑھے گی‘ ایک دوسرے کے ہاں آنا جا نا بڑھے گا تو پھر کشمیر کے مسئلے کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ درحقیقت یہ سب کچھ دو ارب ٹن لوہے کو بھارت لے جانے کیلئے آسان اور نزدیکی راستے‘ یعنی واہگہ کو استعمال میں لانے کیلئے تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حاجی گاک کا یہ دو ارب ٹن سے زائد لوہا بھارت کیلئے اتنا ہی قیمتی اور اہم تھا تو پھر پاکستان کے بجائے بھارت نے کوئی دوسرا روٹ کیوں استعمال نہیں کیا؟ یہ اپنی جگہ بہت اہم سوال ہے کہ بھارتی فوج کیلئے اسلحہ تیار کرنے والی فیکٹریوں کے لیے افغانستان سے نکالا جانے والا لوہا اور سٹیل کسی دوسرے ملک سے بھی تو بھارت تک پہنچایا جا سکتا تھا‘ تو اس کا جواب سیدھا سادا ہے کہ پاکستان کا زمینی راستہ نہ ملنے کی صورت میں سجن جندال اینڈ گروپ کو حاجی گاک سے نکالا گیا لوہا پہلے روس اور پھر وہاں سے بھارت پہنچانا پڑتا جس پر اس قدر بھاری اخراجات اٹھنے تھے کہ اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔
اب میں اپنے قارئین کو 2014ء میں نریندر مودی کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں لے کر چلتا ہوں جہاں سے اٹھ کر میاں نواز شریف اپنے صاحبزادے حسین نواز کے ہمراہ سجن جندال کے گھر چائے پینے کیلئے جا رہے تھے۔ اس وقت پاکستان کا ہائی کمیشن ان پر زور دے رہا تھا کہ حریت کانفرنس کے لیڈران کو خصوصی دعوت پر بلایا ہوا ہے اور وہ آپ سے ملاقات کیلئے انتظار میں بیٹھے ہیں لیکن ہوا یہ کہ سابق پاکستانی وزیراعظم نے حریت کانفرنس والوں کا میزبان بننے کے بجائے سجن جندال کا مہمان بننا پسند کیا اور اپنی فیملی کے ہمراہ سجن جندال کے گھر پہنچ گئے جہاں ''چائے‘‘ ان کی منتظر تھی۔ اس ملاقات کا نتیجہ اگلے روز سامنے آیا جب اچانک سجن جندال اٹلی کے شہر Piombino میں بدترین حال کو پہنچی ہوئی سٹیٹ سٹیل مل Lucchini Spa خریدنے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ خریداری خبر اس لئے بنی کہ اٹلی کا سفر ان کے اگلے ایک ماہ کی مصروفیات میں شامل ہی نہیں تھا۔ باقی کڑیاں آپ خود ملا سکتے ہیں... ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔