تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-06-2013

کشتی بھی تُو‘ ساحل بھی تُو

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مصائب میں مبتلا قوموں کی مدد کرنے کبھی کوئی نہیں آتا ۔ ایک ایک دھاگا پرو کر اپنے مستقبل کی رداانہیں خود ہی بُننا پڑتی ہے۔ ہم کبھی عرب ساحلوں کی طرف دیکھتے ہیں ، کبھی سات سمندر پار۔ اقبالؔ کو ہم بھو ل گئے، بالکل ہی بھول گئے ۔ آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو‘ کھیتی بھی تو‘ باراں بھی تو‘ حاصل بھی تو کانپتا ہے دل ترا‘ اندیشۂ طوفان سے کیا ناخدا تو‘ بحر تو‘ کشتی بھی تو‘ ساحل بھی تو نہیں جناب، اس پھٹے پرانے ، فرسودہ انتظامی اور معاشی ڈھانچے سے اب کام نہیں چلے گا، ہرگز نہیں اور بالکل نہیں ۔ اسلام آباد کے بلند ایوان میں براجمان ہستی نے ایک قابلِ رشک افسر سے کبھی سوال کیا تھا: ملک کے معاشی مسائل کا حل کیا ہے ؟ انہوںنے کہا: ایک سال کے اندر ٹیکس وصولی میں 2000 ارب روپے کا اضافہ ۔ آپ کے چند وزرا سمیت چند درجن ممتاز شخصیات کا احتساب کرنا پڑے گا۔ عالی جناب نے کانوں کو ہاتھ لگایا ۔ چوہدری نثار ، میاں محمد نواز شریف اور ان کے برادرِ خورد کیا کریں گے ؟ مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا نواز شریف اس لیے اداس نہیں کہ مسائل سنگین ہیں بلکہ اس لیے کہ بنیادی فیصلے صادر کرنے کی تاب نہیں رکھتے ۔ بہتری اوربھلائی کے لیے جن ممالک سے اعانت کے آرزومند تھے ، ثناء اللہ زہری کے بقول وہی بِس کی گانٹھ ہیں۔ فساداور جرائم روکنے کی اوّلین ذمہ داری پولیس پر ہوتی ہے۔ یوں تو پنجاب اور پختون خوا کی حالت بھی بری ہے مگر بلوچستان اور سندھ کا حال ناقابلِ بیان ہے ۔شاید کراچی پولیس کی کچھ ملازمتیںنیلام نہ ہوئی ہوں مگر بیشتر وہ پولیس ہے ، جس کا انتخاب دو حکمران پارٹیوں نے کیا ۔ 2001ء میں ڈاکٹر شعیب سڈل آئی جی بلوچستان بنائے گئے تو کوئٹہ پر راکٹ برستے تھے ۔معلوم ہوا کہ ایک علیحدگی پسند بلوچ سردار ذمہ دار ہیں ۔ ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچا توامن بحال ہو گیا۔ دیر پا امن کے لیے پولیس افسر نے ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا، جس کے تحت صوبے کے پچانوے فیصد حصے پر مسلّط لیویز کو تربیت دے کر باقاعدہ پولیس فورس کا حصہ بنانا تھا ۔ ان کی بھرتی قبائلی سرداروں کے ذریعے ہوتی اور انہی کے توسط سے تنخواہیں ادا کی جاتیں۔ بیشتر ناخواندہ اور ظاہر ہے کہ سرداروں کے ذاتی وفادار تھے ۔ صوبے کی فضا ایسی تھی کہ رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے اکثر ادارے سمگلنگ میں ملوّث تھے ۔ کوئٹہ کے گلی کوچوں میں ایران سے لایا گیا پٹرول آسانی سے دستیاب تھا۔ ایسے میں بھارت، برطانیہ اور امریکہ نے جاسوسی اور تخریب کاری کے نیٹ ورک تشکیل دیے تو تعجب کیا ؟ کوئی مزاحمت تھی ہی نہیں ؛چنانچہ امریکہ کی لے پالک بعض عرب ریاستوں نے بھی پر پرزے نکالنے شروع کیے جو ایران مخالف ہیں ۔ جو گوادر بندرگارہ موثر ہونے کے تصور سے پریشان ہوتی ہیں ۔ 2008ء میں وہ تاریخی بلوچستان اسمبلی وجود میں آئی جس کے سبھی ارکان نے وزارت کی خلعت پہنی ۔ ان میں سب سے گئے گزرے شخص کو وزارتِ اعلیٰ کا منصب سونپا گیا۔ ایک اعلیٰ صوبائی منصب دار حلف اٹھانے آئے تو مدعوین میں سے ایک ممتاز شخص یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ان کی چند روز قبل چوری ہونے والی گاڑی پر سوار ہیں ۔ ان صاحب کو یہ ذمہ داری کیوں ملی تھی ؟ داستان دراز ہے مگر حقیقت بہت سادہ اور مختصر ۔ خلقِ خدا کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ حکمران طبقے کی تمام تر توانائی اقتدار بچانے اور اس کے ثمرات سمیٹنے میں لگی رہی۔ باقی افسانہ نگاری ہے ، سب افسانہ نگاری ۔ سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانۂ ہستی کچھ اصل ہے ‘ کچھ خواب ہے ‘ کچھ حسنِ بیاں ہے 2008ء کی اسمبلی نے کمال عجلت کے ساتھ جو اولین اقدامات کیے ،ان میں سے ایک یہ تھا کہ 95فیصد \"بی ایریا\"کو ، جسے بتدریج باقاعدہ پولیس کو سونپا جا نا تھا، پھر سے لیویز کے حوالے کردیا۔ اربوں روپے صرف ہوئے تھے ۔ سینکڑوں پولیس افسروں نے مدتوں ناتراشیدہ ملازموں کو قانون کے آداب سکھانے میں شب و روزریاضت کی تھی ۔ کتنی عمارتیں بنائی جا چکی تھیں اور کتنے سبق ازبر تھے کہ بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا وہ شاخ تھی‘ نہ قفس تھا‘ نہ آشیانہ تھا چاہیے تو یہ تھا کہ پولیس کے ساتھ سول انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی جدید بنایا اور متحرک کیا جاتا ۔ 1995ء کا کراچی ہو، گذشتہ صدی کے اوائل کا لندن یا 1990ء کے عشرے کا نیویارک، جہاں کہیں جرائم کا خاتمہ ہوا، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو مستعد بنا کر۔ بلوچستان میں برعکس حکمتِ عملی کیوں اختیار کی گئی ؟ جنابِ صدر کو اسلم رئیسانی پر اس قدر اعتماد کیوں تھا؟ کس مقصد کے لیے؟ شریف حکومت نے رانا تنویر کو وزارت کیوں سونپی ہے ؟ تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے ؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملتا کہ جب بھی کہیں کوئی اذیت ناک سانحہ رونما ہوتاہے ، جیسا کہ کوئٹہ اور زیارت میں تو کچھ لوگ افواجِ پاکستان کے خلاف چیخ پکار کیوں کرتے ہیں ؟ اگر اس کا تعلق تاریخ سے ہے تو بالکل برحق ۔ بحث مگر تازہ صورتِ حال پر تھی۔ زیار ت میں قائد اعظم کی آخری رہائش گاہ پر حملے کا منصوبہ کیا عسکری قیادت نے بنایا ؟ کیا یونیورسٹی کی بچیوں سے بھری بس کو بارود سے اڑانے کی گھٹیا سازش اس نے کی تھی ؟ پھر افواج کی طرف اشارہ کرنے والے کیا چاہتے تھے ؟ محض جہالت اور بے خبری؟ کوئی اشارئہ ابرو؟ ظاہرہے کہ چالاک مجرم ، خا ص طور پر را،سی آئی اے اور ایم آئی سکس ایسی خفیہ ایجنسیاں جب ایسی کوئی کارروائی کریں گی تو توجہ ہٹانے کی حکمتِ عملی بھی ساتھ ہی تشکیل پائے گی ۔ نام نہیں لکھ رہا ۔ اخبار نویس تحقیق فرمالیں کہ وہ کون ذاتِ شریف ہے، جسے ایف بی آر نے ایک کروڑ روپے کا ٹیکس جمع کرانے کا حکم دیا ہے ؟ نگران حکومت میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز مفکر ،نیویارک کے سب سے مہنگے علاقے میں ایک بہت قیمتی فلیٹ کا مالک ہے ۔ ادائیگی کے سوا اگرچہ اب کوئی چار ہ نہیں اور وہ اس قدر باوسیلہ ہے کہ ادا کردے گا ۔ صدر زرداری کو اس نے دو صفحے کا ایک خط لکھا۔ موقف اس کا یہ ہے کہ فلاں اورفلاں اس کا ذاتی دشمن ہے ۔ ذاتی دشمن؟ ارے بھائی تمہاری جائیداد بیرونِ ملک ہے یا نہیں ؟ وہ کون لوگ تھے ، جو تمہیں اس منصب پر فائز کر سکے ؟ ملک کی دو بڑی پارٹیاں برق رفتاری سے متفق کیسے ہو گئیں ؟ لاہور کی ایک این جی او کے دفتر سے بہت دن پہلے ملنے والی اطلاع یہ ہے کہ بلوچستان کے ساحل پر قائم کر دہ اس کے دفاتر سی آئی اے کو معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں ۔ دو جانی پہچانی شخصیات یہ ادارہ چلاتی ہیں اور ذریعہ آمدن ان کا وہی ہے… غیر ملکی امداد! رانا بلند اختر والے تنازعے پر بات کرنا تھی کہ ورق تمام ہوا۔ اس قدر گھنائونے واقعات ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ اخبار نویس تحقیق کریں تو چودہ طبق روشن ہو جائیں ۔ اکیسویں گریڈ سے بائیسویں میں ترقی کے بعد، اسی دن ان کا تقرر کیسے ہوا؟ ملتان اور نواب شاہ کے شاہی خاندانوں سے ان کے مراسم کی نوعیت کیا ہے ؟ وہ اس قدر غیر ملکی دورے کیوں فرمایا کرتے ہیں؟ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جناب صدر کو ان کے بارے میں کیا لکھا تھا؟ وزیراعظم پرویز اشرف ، صدر زرداری اور وزارتِ خزانہ کے پاس وہ کیا التجا لے کر جاتے رہے؟ کیا وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان واقعی حالات سلجھانے کے آرزومند ہیں ؟ جلد بات واضح ہو جائے گی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مصائب میں مبتلا قوموں کی مدد کرنے کبھی کوئی نہیں آتا ۔ ایک ایک دھاگا پرو کر اپنے مستقبل کی ردا خود ہی بُننا پڑتی ہے۔ ہم کبھی عرب ساحلوں کی طرف دیکھتے ہیں ، کبھی سات سمندر پار۔ اقبال ؔ کو ہم بھول گئے ، بالکل ہی بھول گئے ۔ کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفان سے کیا نا خدا تو ، بحر تو، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved