دنیا سے گئے ہوئے چالیس سال ہوچکے ہیں مگر محمد رفیع مرحوم کی آواز آج بھی زندہ ہے اور جب تک موسیقی سے لگاؤ رکھنے والے رہیں گے، اُن کی آواز بھی رہے گی۔ رفیع صاحب کے بارے میں بہت کچھ مشہور ہے۔ ایک بات سب سے زیادہ مشہور ہے ... یہ کہ اُن میں شرافت انتہا کی تھی۔ پروفیشنلزم اپنی جگہ، ذاتی یا شخصی شرافت ہی انسان کو بلند کرتی اور بڑا بناتی ہے۔ فلمی دنیا میں قابلِ رشک کامیابی پانے کے بعد بھی رفیع صاحب شرافت سے دامن کش نہ ہوئے۔ غیر معمولی پیشہ ورانہ لیاقت کے علاوہ یہ شرافت ہی تو ہے جس کی بنیاد پر دنیا آج بھی اُن کا نام احترام سے لیتی ہے۔ رفیع صاحب عام سے یعنی غریب گھرانے میں پیدا ہوئے اور زندگی کی بخشی ہوئی سختیاں بھی برداشت کیں۔ پھر جب اُنہوں نے طے کیا کہ کچھ کر دکھانا ہے تب اُنہیں روکنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ برصغیر میں اُن سے بڑا فلمی گلوکار پیدا نہیں ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُنہیں دنیا کے عظیم ترین گلوکاروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ معیار تو خیر ہے ہی بلند‘ گانوں کی تعداد کے اعتبار سے بھی کوئی اُن کے سامنے نہیں آسکتا۔ پاک و ہند میں اس نکتے پر سب کا اتفاق ہے کہ رفیع صاحب سے بڑا فلمی گلوکار ہوا ہے‘ نہ ہوگا۔
گزشتہ دنوں 1960 کے عشرے کے اوائل کی فلم ''ہمراہی‘‘ کا ایک دوگانا سُنا۔ یہ دوگانا (مجھ کو اپنے گلے لگالو اے میرے ہمراہی) رفیع صاحب اور مبارک بیگم نے گایا تھا۔ گانے کی ریکارڈنگ کے وقت مبارک بیگم ابھرتی ہوئی گلوکارہ تھیں جبکہ رفیع صاحب کا نام بہت بڑا تھا۔ مبارک بیگم کی آواز خاصی نازک اور نیچی تھی۔ اُنہوں نے ریکارڈنگ سے قبل رفیع صاحب سے استدعا کی کہ ریکارڈنگ کے دوران اپنی آواز نیچی رکھیں تاکہ سُننے والوں کو اُن کی (مبارک بیگم کی) آواز صاف سنائی دے۔ رفیع صاحب نے ذرا سا بھی بُرا مانے بغیر مبارک بیگم کے جذبات کا احترام کیا اور گانے میں اپنی آواز نیچی رکھی تاکہ مبارک بیگم کی آواز دب کر نہ رہ جائے۔ مبارک بیگم نے یہ بھی بتایا تھا کہ رفیع صاحب سے گفتگو کرنا انتہائی دشوار مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ وہ عام طور پر بہت دھیمی آواز میں گفتگو کرتے تھے اور خواتین سے گفتگو میں تو اُن کی آواز مزید مدّھم ہو جاتی تھی۔ اور گفتگو کے دوران وہ پلکیں واضح طور پر نیچی رکھتے تھے۔ اگر گانے کے حوالے سے گلوکارہ کو رفیع صاحب سے کچھ پوچھنا ہوتا تو اُن کی رائے جاننے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑتی تھی۔ ایک طرف تو غیر معمولی، بلکہ مثالی نوعیت کی شرافت تھی اور دوسری طرف یہ ''مجبوری‘‘ بھی تھی کہ رفیع صاحب کو گفتگو کا ہنر آتا نہیں تھا۔ غور فرمائیے! رفیع صاحب کو ایک زمانہ اِس قدر احترام کی نظر سے دیکھتا تھا گویا پوجتا ہو۔ ایسی دل کش آواز کہ کانوں میں رس گھولتی چلی جائے۔ ایسا نہیں تھا کہ صرف میٹھی آواز کا جادو بولتا تھا۔ رفیع صاحب نے گانے کا فن برسوں کی ریاضت سے سیکھا تھا۔ وہ کلاسیکی روایت سے بھی جُڑے ہوئے تھے۔ اُستاد عبدالوحید خاں، پنڈت جیون لعل مٹو اور فیروز نظامی سے انہوں نے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔ رفیع صاحب کے پسندیدہ گلوکاروں میں کندن لعل سہگل کے علاوہ جی ایم دُرّانی بھی تھے۔ رفیع صاحب نے ابتدائی دور جی ایم دُرّانی کی گائیکی کا انداز اپنایا مگر پھر بہت جلد وہ اپنا انداز وضع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
جی! بات ہو رہی تھی شرافت اور گفتگو کی۔ ایسا نہیں ہے کہ رفیع صاحب دوسروں سے یعنی گھر کے باہر بہت کم بتیاتے تھے۔ وہ تو گھر میں بھی کم ہی بات کرتے تھے۔ اور انٹرویو؟ وہ تو بھول ہی جائیے۔ فلمی دنیا میں 36 سال مثالی کامیابی کے ساتھ گزارنے پر بھی اُنہوں نے برائے نام ہی انٹرویو دیے۔ اُن سے کچھ کہلوانا انٹرویوئر کے لیے اعصاب شکن امتحان ہوا کرتا تھا۔ رفیع صاحب بات کرتے بھی تو کیسے اور کیوں؟ وہ تو گانے کے لیے آئے تھے!
انورادھا پوڈھوال کہتی ہیں کہ رفیع صاحب سرگوشی کے سے انداز سے بات کرتے مگر جب وہ مائیکروفون کے سامنے کھڑے ہوتے تھے تو اُن کے حلق سے شیر کی سی گرج برآمد ہونے لگتی تھی! اُنہوں نے زندگی گانے کے نام کردی تھی۔ جب زندگی گانے کے نام کردی تھی تو پھر کچھ اور کرنے کی گنجائش ہی کہاں تھی؟ باتوں میں وقت وہ کیوں ضائع کرتے؟ یہ ہے کامیابی کا راز۔ انسان کو اُسی کام میں دلچسپی لینی چاہیے جو اُسے آتا ہو۔ بیک وقت کئی شعبوں میں ہاتھ پاؤں مارنے کے بجائے پوری توجہ اُس کام پر مرکوز رکھنی چاہیے جو ڈھنگ سے کیا جاسکتا ہو۔ کسی بھی ماحول میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور اِس دھماچوکڑی میں وہ بھی نہیں کر پاتے‘ جو وہ کرسکتے ہیں! رفیع صاحب نے کبھی کسی لائیو پروگرام میں گانے کے دوران کچھ بولنے، بتانے یا سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ ایسا کرنے کی ضرورت بھی کیا تھی؟ وہ جو کچھ گاتے تھے‘ وہ ہوتا ہی ایسا تھا کہ سب کی سمجھ میں آسانی سے آ جاتا تھا۔ بہت سے گانے والوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے۔ وہ گاتے کم ہیں اور سامعین کو موسیقی کے ''سربستہ راز‘‘ زیادہ بتاتے ہیں! بہت سے گانے والوں کو یہ خبط سا ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ سچا سُر کیا ہوتا ہے۔ ارے صاحب! گانے والوں کے ذوق و شوق کو آزمانے کے بجائے فن کا مظاہرہ کیجیے۔ سُننے والے ایک دنیا کو سُنتے ہیں اِس لیے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اچھے اور بُرے گانے میں فرق کیا ہے۔ گانے والے صرف گانے سے کام رکھیں تو اچھا ہے۔
رفیع صاحب نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ انسان کو وہی کام کرنا چاہیے جو اُسے آتا ہو اور اُس کام میں ڈوب جانا چاہیے۔ رفیع صاحب سُر ساگر میں ایسے ڈوبے کہ پھر اُنہیں کچھ یاد ہی نہ رہا کہ دُنیا داری کیا ہوتی ہے۔ لتا منگیشکر کہتی ہیں کہ رفیع صاحب تو بھگوان کے آدمی تھے۔ بالکل درست! اُنہوں نے کسی کا حق مارا نہ کسی کا دل دُکھایا۔ جسے مدد کی ضرورت ہوتی تھی اُسے رفیع صاحب کی طرف سے مدد ملتی تھی۔ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کے معاملے میں بھی اُنہوں نے کبھی بُخل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگر کوئی پروڈیوسر گانے ریکارڈ کروانے کے بعد معاوضہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا تھا تو رفیع صاحب وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتے تھے۔ اِس طرح کے لوگ روئے ارض پر کم ہی دکھائی دیے ہیں۔ آج بھی ممبئی کی فلم انڈسٹری میں ایک فرد بھی ایسا نہیں جو رفیع صاحب کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات کرسکے۔ رفیع صاحب سے کچھ سیکھنا صرف گلوکاروں کا معاملہ نہیں۔ وہ سنجیدگی، محنت اور دیانت کی روشن مثال ہیں۔ اُن کے حالاتِ زندگی پڑھ کر کسی بھی شعبے کا انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اُنہوں نے بالی وڈ جیسی بڑی فلم انڈسٹری میں پروفیشنلزم اور دیانت کا حسین امتزاج پیش کیا۔ کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے والے نوجوانوں کو رفیع صاحب کے حالاتِ زندگی پڑھ کر سیکھنا چاہیے کہ اپنے شعبے کو کس طور اپنایا جاتا ہے، کتنی محنت کی جاتی ہے، کتنی لگن بروئے کار لائی جاتی ہے اور بھرپور کامیابی ملنے کے بعد کس طور سر جھکاکر، اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتے ہوئے دوسروں کو قبول کیا جاتا ہے۔ رفیع صاحب نے بے مثال کامیابی پاکر بھی کبھی کسی بات پر خود سَری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انڈسٹری میں قدم رکھتے وقت جو شرافت اور انکسار اُن میں تھا وہ آخری سانس تک برقرار رہا۔ انہوں نے اپنے عمل سے بتایا کہ خود کچھ بولنے کی ضرورت نہیں، فن بولے تو بات ہے۔ اُن کا فن بولتا تھا بلکہ اب تک بول رہا ہے اور بولتا ہی رہے گا۔
آج جو اپنے شعبے میں معمولی سی کامیابی پاکر بولنا شروع کردیتے ہیں اور بولتے ہی چلے جاتے ہیں اُنہیں رفیع صاحب سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ انسان کو اپنا جوہر پہچاننا چاہیے اور اُسے دنیا کے سامنے پیش کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ باتیں بگھارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جو کچھ آتا ہے وہ کیجیے اور کرتے ہی چلے جائیے تاکہ دنیا آپ کو پہچانے، احترام کی نظر سے دیکھے۔ انسان باتوں سے نہیں‘ کام سے پہچانا جاتا ہے۔